اچھا ہوا مر گیا۔ جی کے کیا کر لینا تھا اُس نے۔ ایک ذہنی معذور ویسے بھی معاشرے کو کیا دے سکتا ہے۔ ایک بوجھ تھا۔ اُتر گیا۔ زندہ رہتا تو اور زیادہ اُلٹی سیدھی حرکتیں کرتا۔ مزید اے ٹی ایمیں توڑتا‘ دکانوں سے روٹیاں چراتا یا بھیک مانگ کر لوگوں کا سر کھاتا۔ ایسے لوگوں کو زندہ رکھ کر دھرتی پر بوجھ ہی بڑھانا تھا۔ نہ ایسوں نے ٹیکس دینا‘ نہ کمائی کرنی‘ نہ ان کا معیشت کو کوئی فائدہ تو پھر ان کے لئے ہمدردی کیوں؟
اشارے تو وہ سارے ہی کر لیتا تھا جبھی تو پولیس اہلکار نے اس سے پوچھا کہ تم نے یہ اشارے کہاں سے سیکھے۔ اس کا جواب بھی وہ گول کر گیا‘ اُلٹا انتہائی غیر مہذب لہجے میں پولیس سے پوچھا: تُسی مارنا کتھوں سکھیا؟ ایسا سوال کوئی ذہنی معذور بھلا کر سکتا ہے؟ یہ سوال تو آج تک کوئی بڑے سے بڑا اینکر‘ کالم نویس اور رپورٹر بھی پولیس سے نہیں کر سکا۔ کس قدر تیز اور گہرا شخص تھا۔ پولیس کو بھی چونا لگا گیا۔
یہ بھی سراسر الزام ہے وہ پولیس ٹارچر سے مرا۔ ہسپتال کے ایم ایس نے جب گواہی دے دی تو پھر شک کیسا؟ ایم ایس بھی کبھی جھوٹ بول سکتا ہے اور وہ بھی سرکاری ہسپتال کا ایم ایس؟ جب تشدد ثابت نہیں ہوا تو پھر معصوم پولیس اہلکاروں پر بہتان تراشی کیوں؟ ایک تو پولیس نے اپنے خرچے پر پوسٹ مارٹم کرایا‘ اوپر سے انہی پر الزام لگا دیا گیا۔ پولیس بھلا ایسا کیوں کرے گی۔ اس کی ایک معذور شخص سے کیا دشمنی ہو سکتی ہے۔
پولیس کی قربانیاں بھی تو دیکھو۔ بم دھماکوں میں پولیس مرے۔ فائرنگ اور دہشت گردی میں پولیس اپنی جانیں گنوائے۔ بارہ چودہ گھنٹے سڑکوں پر پولیس ڈیوٹی کرے۔ بارش‘ سردی‘ طوفان کی پروا کئے بغیر ہماری حفاظت کرے اور ہم اس پر پابندیاں لگا دیں‘ ہم اسے ریلیکس بھی نہ کرنے دیں اور اس بات کی اجازت اور حق بھی نہ دیں کہ وہ اپنی ٹینشن یا اپنا دبائو کم کرنے کے لئے کبھی کبھار ایک آدھ بندہ ہی مار دے۔ بندہ بھی ایسا جس کا اس زمین کو فائدہ‘ نہ کسی انسان نہ چرند پرند کو۔
ہم کب سمجھیں گے کہ کچھ لوگ یونہی کیڑے مکوڑے پیدا ہوتے ہیں۔ صلاح الدین ان میں سے ایک تھا۔ یہ جیتے بھی کیڑے مکوڑوں کی طرح ہیں اور مرتے بھی اسی طرح ہیں۔ جس طرح چیونٹیوں کو کہیں سے چینی کا ایک دانہ ملتا ہے تو اس طرف پل پڑتی ہیں‘ اسی طرح یہ غریب بھی پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے ہاتھ پائوں مارتے ہیں۔ یہ صرف اپنے لئے جیتے ہیں۔ کسی کو فائدہ نہیں پہنچاتے بالکل اسی طرح جیسے صلاح الدین بھی کسی کام کا نہیں تھا۔ یہ تو اس کی خوش قسمتی تھی کہ وہ اتنے برس جی گیا۔ پہلے بھی تھانوں میں گیا اور زندہ سلامت واپس آ گیا۔ اکثر تھانے والے اس کی ذہنی حالت دیکھ کر اسے چھوڑ دیا کرتے تھے لیکن برداشت کی بھی تو حد ہوتی ہے۔ پولیس کو اور بھی کام کرنے ہیں‘ حکومت کے سامنے بھی مسائل کا انبار ہے۔ درمیان میں یہ صلاح الدین جیسے آ جاتے ہیں۔ پولیس کا تو سب کو شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے اس غریب کو دنیا کے دکھوں‘ مصیبتوں اور مشکلات سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آزاد کر دیا۔ زندہ رہتا تو پتا نہیں کتنے ٹھڈے اور کھاتا‘ کتنے فاقے مزید کاٹتا اور کتنوں کی اور گالیاں سنتا۔
ویسے بھی وہ کوئی معروف شخص تو تھا نہیں۔ کون سا وہ تعلیم کے لئے کام کر رہا تھا‘ صاف پانی کی تحریک چلا رہا تھا یا فضائی آلودگی پر کام کر رہا تھا کہ کوئی این جی او اس کی لاش تھامتی‘ آگے بڑھتی اور اس کی آواز کو دنیا تک پہنچاتی۔ جس طرح کا حلیہ وہ بنا کر پھرتا تھا‘ اسے تو شک کی بنا پر ہی دور سے مارا جا سکتا تھا۔ یہ تو شکر کریں اسے باقاعدہ گرفتار کیا گیا۔ تھانے میں رکھا گیا اور جینے کے لئے ایک دو دن مزید دئیے گئے۔ ایسی خوش نصیبی کتنوں کو نصیب ہوتی ہے؟ یہاں تو سڑکوں پر شک کی بنا پر بے گناہ نوجوان پولیس کی گولی سے مرتے رہے ہیں‘ انہیں تو تھانے تک پہنچنے کی بھی مہلت نہیں ملتی۔ یہ تو پھر خوش نصیب تھا۔ ایس ایچ او نے اسے بھرپور موقع دیا۔ اس کا انٹرویو کیا۔ اس کی ویڈیو بنائی۔ اسے اپنے خیالات اور بیانات دینے کا وقت دیا۔ خود دیکھیں ایسا موقع پولیس کس کو دیتی ہے۔ یہ تو پولیس اہلکاروں کی نیک نیتی تھی کہ انہوں نے اس کی ویڈیوز آن ایئر کر دیں۔ وہ چاہتے تو انہیں چھپا بھی سکتے تھے۔ لیکن پھر دنیا کو ایک انتہائی خوف ناک اور شاطر مجرم کا پتا کیسے چلتا۔
خدا کے لئے اس ملک کو آگے چلنے دیں۔ اس طرح کے واقعات سے کوئی ملک تباہ نہیں ہو جاتا۔ ہر ملک میں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ ویسے بھی اعلیٰ سطح کا نوٹس لے لیا گیا ہے تو پھر فکر کیسی۔ کیوں اپنا بلڈ پریشر ہائی کرتے ہیں۔ جب اعلیٰ افسران کہہ رہے ہیں تو یقین کر لیں۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ آئے گی اور تشدد ثابت ہو گا تو پولیس والے گرفتار بھی ہو جائیں گے۔ اس سے پہلے بھلا انہیں کیوں گرفتار کیا جائے گا۔ بھلا شک کی بنیاد پر بھی کسی کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ کیا پولیس نے کبھی کسی کو شک کی بنیاد پر گرفتار کیا ہے جو کسی ایس ایچ او کو پکڑا جائے گا۔ پتا نہیں اس قوم کی سوئی ایسی چھوٹے چھوٹے واقعات پر کیوں پھنس جاتی ہے۔ لوگ بھلا مرتے نہیں ہیں؟ جب موت کا وقت لکھا ہوتا ہے تو کیا کیا جا سکتا ہے۔ سیلابوں‘ زلزلوں‘ دھماکوں‘ بیماریوں اور طوفانوں سے بھی تو لوگ مرتے ہیں‘ پولیس حراست میں کبھی دو چار مر گئے تو بات کا بتنگڑ بنانے کا کیا جواز۔ کشمیر میں بھی تو لوگ مر رہے ہیں‘ فلسطین‘ شام‘ عراق‘ افغانستان تو کھنڈر بنا دئیے گئے ہیں تو کیا فرق پڑا؟ کیا وہ سب پنجاب پولیس نے کیا؟ جب موت آنی ہے تو آنی ہے کیوں بلا وجہ ہم اپنے ہی اداروں پر انگلیاں اٹھاتے ہیں؟
ہماری اسی سوچ نے ہمیں آگے بڑھنے سے ہمیشہ روکا ہے۔ ہم ترقی یافتہ قوم نہیں بن سکے تو اس کی وجہ ہماری یہی پست سوچ ہے۔ ہم چھوٹے چھوٹے لوگوں اور چھوٹے چھوٹے مسئلوں میں اُلجھ جاتے ہیں۔ جو قومیں بڑی سوچ‘ بڑا ویژن اور بڑا مقصد اپنے سامنے رکھتی ہیں وہ کبھی صلاح الدین جیسے ایشوز میں اپنا سر نہیں کھپاتیں۔ آگے بڑھنے کے لئے ایسے مسائل کو پس پشت ڈالنا پڑتا ہے۔ ہم مگر باز نہیں آتے۔ کبھی سانحہ ماڈل ٹائون کو اٹھا کر واویلا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ کبھی ساہیوال کے بچ جانے والے بچوں کی تصاویر شیئر کر تے ہیں تو کبھی صلاح الدین کو لے کر ایشوز کھڑے کر دیتے ہیں۔ آپ کبھی حکومت میں رہے ہوں تو آپ کو پتا ہو کہ کتنا مشکل ہوتا ہے حکومت کرنا۔ سو طرح کے معاملات‘ میٹنگز‘ کانفرنسز‘ داخلی و خارجی مسائل ہر صبح مگرمچھ کی طرح منہ کھولے کھڑے ہوتے ہیں۔ اوپر سے معیشت کا بوجھ‘ قرضوں کا انبار‘ مہنگائی کا طوفان‘ سابقہ حکومتوں کی کارگزاریاں‘ کرپشن کا عفریت‘ مقبوضہ کشمیر کے حالات اور بھارتی جارحیت۔ جب عوام کے لئے حکومت نے دن رات ایک کیا ہوا ہے۔ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ‘ چینی اور روٹی کی قیمت میں ہوشربا اضافہ‘ غریبوں پر ٹیکسوں کی بھرمار یہ سب آخر عوام کے بھلے کے لئے ہی تو کیا جا رہا ہے تو پھر شکایت کیسی؟ اور جناب یہ سب کرنے کے لئے وقت‘ توانائی اور توجہ درکار ہوتی ہے۔ آپ ان سارے مسائل کو ایک پلڑے میں رکھیں‘ دوسرے پلڑے میں ایک ذہنی معذور کی موت کو ڈالیں اور حقیقت کی آنکھ سے دیکھیں تو خود سوچیں صلاح الدین جیسے واقعات سے نمٹنا زیادہ ضروری ہے یا قرضوں کے معاملات سے۔
موت کے بعد جسم پر زخموں کے نشانات بھی صلاح الدین کی ہی سازش تھی۔ پولیس نے تو لاش صحیح سلامت مردہ خانے میں بھیجی تھی۔ یہ زخم اس وقت تو اس کے جسم پر نہ تھے۔ بعد میں کیسے آ گئے۔ یقینا یہ صلاح الدین کی کارستانی تھی۔ بڑا چالاک نکلا۔ آخری وقت تک باز نہیں آیا۔ جس طرح نقلی گونگا بن کر اشارے کرتا تھا‘ مرنے کا بھی آخری وقت تک ڈرامہ کر تا رہا۔ جیسے ہی اس کی لاش کو کولڈ سٹوریج میں ڈالا گیا اس نے ہاتھ کے اشاروں سے اپنا جسم نوچا‘ جلد کاٹی‘ آگ لگائی اور مر گیا۔