موبائل فون‘ پلے سٹیشنز اور کمپیوٹر پر ویڈیو گیمز کھیلنے کا بڑھتا رجحان بچوں اور نوجوانوں میں نفسیاتی عارضے پیدا کر رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں اکیس کروڑ لوگ روزانہ گھنٹوں ویڈیوز گیمز کھیلتے ہیں‘ جس سے وہ کئی طرح کی بیماریوںکا شکار ہو رہے ہیں۔ صرف امریکہ ہی نہیں یہ رجحان پاکستان سمیت پوری دنیا کو نگل رہا ہے۔ بچہ دنیا میں آنے کے بعد بولنا اور چلنا بعد میں سیکھتا ہے لیکن موبائل فون چلانا پہلے سیکھ لیتا ہے۔ ایسی ہی ایک ویڈیو گزشتہ دنوں شیئر ہوئی جس میں آٹھ ماہ کا بچہ دونوں پیروں کے درمیان فیڈر دبا کر منہ سے لگائے ہوئے ہے جبکہ اس کے ہاتھوں میں موبائل فون ہے جس پر کارٹون لگے ہیں۔ ذرا سوچیں جو بچہ آٹھ ماہ کی عمر میں کارٹون دیکھے بغیر دودھ نہیں پی رہا‘ وہ موبائل کے بغیر کھانا کیسے کھائے گا۔ ہر کام کرانے کے لئے پہلے اسے موبائل دے کر اس کا موڈ بنانا پڑے گا۔ ماہرین کے مطابق ویڈیو گیمز بچوں کے دماغ‘ یادداشت اور بصارت کو خوفناک حد تک متاثر کرتی ہیں۔ یہ بچوں اور نوجوانوں میں ذہنی اور جسمانی دبائو‘ پریشانی اور انہیں دوسروں سے الگ تھلگ کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔ حتیٰ کہ ویڈیو گیمز دماغ کے خلیوں کو بھی تباہ کر دیتی ہیں جس سے نیند کا عمل شدید متاثر ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ منفی گیمز شوٹنگ سے متعلق ہوتی ہیں‘ جن میں دوسرے انسانوں کو بے دردی سے مارا جاتا ہے۔ اب تو گرافکس اس قدر حقیقت پر مبنی بنائے جاتے ہیں کہ دوسرے شخص کو لگنے والی گولی سے اس کے جسم کا خون بھی نکلتا دکھائی دیتا ہے۔ اس طرح کے مناظر انسان کو شقی القلب بنا دیتے ہیں۔ وہ گیمز میں مصنوعی طور پر دیگر انسانوں کا قتل کرتا ہے‘ لیکن اس کے دل کے کسی کونے میں یہ خواہش بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ کبھی حقیقت میں بھی ایسا کر سکے۔ آپ امریکہ میں آئے روز سکولوں‘ کالجوں اور کلبوں میں فائرنگ کے واقعات کو ہی دیکھ لیں۔ اس کے پیچھے بھی یہی عنصر کارفرما ہے۔ روزانہ ویڈیو گیمز میں سینکڑوں لوگوں کو قتل کرنے کے بعد یہ سب عملی طور پر کرنے کی تمنا بھی پیدا ہو جاتی ہے اور چونکہ سکولوں‘ کالجوں میں لڑائی جھگڑے عام ہوتے ہیں‘ اس لئے ان کا اختتام بسا اوقات فائرنگ اور قتل عام پر ہوتا ہے۔ ضرورت سے زیادہ گیمز کھیلنے کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ بچوں کا اہل خانہ کے ساتھ رویہ بھی بتدریج تبدیل ہونے لگتا ہے۔ وہ بیک وقت بنیادی طور پر دو الگ الگ دنیائوں میں رہ رہے ہوتے ہیں۔ ایک دنیا وہ جس میں ان کے ماں باپ بہن بھائی اور دوست احباب ہوتے ہیں‘ جس میں وہ سکول جاتے ہیں اور زندگی کے معاملات دیکھتے ہیں اور ایک دوسری تخیلاتی دنیا جو ویڈیوز اور ویڈیو گیمز پر مشتمل ہے۔ اس تصوراتی دنیا کا بچے پر بہت زیادہ اثر ہوتا ہے۔ بچے جسمانی طور پر حقیقی دنیا جبکہ ذہنی طور پر خیالی دنیا میں رہتے ہیں۔ آج آپ ایسے کسی بچے کو یکدم بلائیں گے تو وہ پہلے تو جواب ہی نہیں دے گا‘ دوسری بار بلانے پر یکدم چونک پڑے گا۔ عام زندگی میں بچے غیر معمولی چیزیں نہیں دیکھتے‘ نہ ہی محدود ذرائع اور وقت کے باعث مشاہدہ کر پاتے ہیں‘ لیکن ویڈیوز اور گیمز میں ان کے سامنے ایک غیر معینہ میدان ہے‘ جس میں ہر ایسا کام ممکن ہے‘ جو اصل دنیا میں ممکن نہیں۔ وہاں بچہ ایک ایسا آلہ بھی دیکھتا ہے کہ جس کا ایک بٹن دبانے کے بعد اسے جو کہیں وہ اسے الہ دین کے چراغ کی طرح فراہم کر دیتا ہے۔ جب بچہ دیکھتا ہے کہ ایک بٹن دبانے سے اسے سب کچھ مل سکتا ہے تو پھر لا محالہ یہ بھی سوچتا ہے کہ اصل زندگی میں اسے اس قدر مشقت اور مصائب کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے۔ اتنا بھاری بھرکم سکول بیگ اٹھا کر اسے سکول صرف اس لئے کیوں جانا پڑتا ہے کہ اس کے والدین چاہتے ہیں‘ وہ پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنے اور نوکری یا کاروبار کر کے زندگی کی گاڑی چلائے۔ ایسی ویڈیوز سے اس کے دل میں شارٹ کٹ کی خواہش ابھرتی ہے۔ وہ ہر کام میں ایسا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرتا جس میں مشقت کم سے کم ہو۔ چاہے وہ سکول کا کام ہو یا کچھ اور۔ اسی طرح جب وہ گیمز کھیلتا ہے تو اس کے سامنے جدید گرافکس پر مبنی ایسے مناظر اور ان میں موجود کردار آتے ہیں‘ جن سے وہ بہت زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ یہ سب مناظر اور کردار اس کی زندگی سے کہیں زیادہ خوبصورت ‘ طاقتور اور اثرورسوخ رکھتے ہیں‘ جن کی وجہ سے اسے یہ مصنوعی دنیا اپنی اصل دنیا سے زیادہ پرکشش اور حسین دکھائی دیتی ہے۔ دن میں کئی کئی گھنٹے ایسی ویڈیوز دیکھنے اور گیمز کھیلنے کی وجہ سے وہ فارغ وقت یا پڑھائی کے دوران بھی اس مصنوعی دنیا سے باہر نہیں آ پاتا۔ مصنوعی کردار اور مار دھاڑ سے بھرپور مناظر اس کے ذہن پر اس قدر گہرے نقوش چھوڑتے ہیں کہ وہ سوتے ہوئے بھی انہی کے خواب دیکھتا ہے۔ بعض اوقات جب ان سے متعلق ڈرائونے خواب دیکھتا ہے تو ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتا ہے۔ یوں ایک بچہ اپنی اوائل عمری میں ہی نیند میں کمی اور الزائمر جیسی بیماریوں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے کہ جو بیماریاں عام طور پر بڑھاپے کے قریب شروع ہوتی ہیں یا پریشانی اور دبائو سے بھرپور زندگی گزارنے والے کسی ادھیڑ عمر نوجوان کو ہو سکتی ہیں۔
صحت مند زندگی گزارنا آج کے دور کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب ہر طرف سے معاشی طور پر منفی اور پریشانی پر مبنی خبریں آ رہی ہوں۔ رہی سہی کسر ڈینگی جیسی بیماریاں‘ سموگ اور ٹیکسوں کی بھرمار نے نکال دی ہے۔ صرف موبائل یا ویڈیو گیمز ہی نہیں بلکہ ان عوامل کی وجہ سے بھی لوگوں کی نقل و حرکت انتہائی محدود ہو گئی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ بڑے تو اب جیسے تیسے زندگی گزار ہی رہے ہیں لیکن اس طرح کے لائف سٹائل کا سب سے زیادہ نقصان بچوں کو ہو رہا ہے جن کے سامنے چیلنجز دن بدن بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ فن لینڈ میں اس مسئلے پر قومی سطح پر کام ہو رہا ہے اور بچوں کی تعلیمی کارکردگی کو ان کی جسمانی نقل و حرکت سے مشروط کر دیا گیا ہے۔ یعنی وہاں ایک بچہ اگر امتحان میں نوے فیصد نمبر بھی لے رہا ہے لیکن وہ کھیلوں اور دیگر غیر نصابی سرگرمیوں میں پیچھے ہے تو اس کی مجموعی کارکردگی غیر تسلی بخش ہی قرار پاتی ہے چاہے وہ نصابی امتحان میں اول ہی کیوں نہ آیا ہو۔ اس طرح کی پالیسیاں جدید ممالک کی کامیابی کی وجہ بن جاتی ہیں کیونکہ جس ملک کی نئی نسل اور نوجوان ہی ذہنی طور پر بانجھ اور جسمانی طور پر غیر فعال ہوں‘ وہ ملک کیسے آگے بڑھ سکتا ہے۔ پاکستان اور بھارت جیسے ممالک کے لئے یہ مسئلہ اور بھی سنگین ہے کہ ان ممالک میں ساٹھ فیصد سے زائد آبادی تیس سال سے کم عمر کے نوجوانوں اور بچوں کی ہے۔ اسی ساٹھ فیصد آبادی نے آگے چل کر ملک سنبھالنا ہے۔ اگر یہ بچے اور نوجوان آج ویڈیوز اور گیمز کے سائے میں پل کر جوان ہوں گے تو جوانی تک پہنچنے سے قبل مختلف عارضوں کا شکار ہو چکے ہوں گے۔ اس کے بعد وہ کیسے اپنی معمول کی زندگی گزاریں گے‘ کیسے ملک کی باگ ڈور میں اپنا حصہ ڈالیں گے یہ ایسے سوال ہیں جن کا جواب آج تلاش نہ کیا گیا تو آنے والا کل ان بچوں کے لئے تو پریشانی کا باعث بنے گا ہی‘ اس سے ملک کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ قومیں جدید ٹیکنالوجی‘ ایٹم بم یا جمہوریت سے نہیں بلکہ صحتمند اور متحرک عوام کے بل بوتے پر ترقی کرتی ہیں۔ جاپان اس کی زندہ مثال ہے جہاں آج اوسط عمر ستاسی برس کی حد بھی کراس کر گئی ہے۔ وہاں آپ کو ہر شخص چاق و چوبند دکھائی دے گا‘ اور اس کی وجہ کام اور صحت کا باہمی تعلق ہے۔ وہاں سرکاری ملازمین ریٹائر ہونے سے قبل ہی مختلف نجی اداروں میں نوکری کی درخواستیں دینا شروع کر دیتے ہیں تاکہ متحرک رہ کر نہ صرف بڑھاپے کو بیماری کے بغیر گزار سکیں بلکہ ریاست اور خاندان پر بوجھ بننے کی بجائے خود اپنا معاشی پہیہ بھی چلاتے رہیں۔ یہاں ریٹائرڈ افراد تو ایک طرف نوجوان تک پڑھائی کے دوران ہی یہ سوچنے لگتے ہیں کہ کوئی ایسا جگاڑ لگ جائے کہ کچھ زیادہ نہ کرنا پڑے بس ساری عمر سکون سے بیٹھ کر کھاتے رہیں۔ والدین‘ اساتذہ اور ریاست کو اگر کبھی وقت ملے تو ان مسائل پر بھی غور کر لیں۔