رات کا وقت تھا اور میں اپنی گاڑی میں کہیں جا رہا تھا۔ موڑ کاٹتے ہوئے اچانک ایک موٹر سائیکل تیزی سے غلط سمت سے نمودار ہو گئی۔ بڑی مشکل سے اسے بچایا۔ ابھی میں سنبھلا ہی تھا کہ کچھ اور موٹر سائیکلیں اسی سمت سے آتی دکھائی دیں۔ میں نے وہیں گاڑی روک دی اور اتر کر موٹر سائیکل سواروں کو رکنے کا اشارہ کیا۔ تین میں سے دو تیزی سے گزر گئے۔ ایک‘ جس کی لائٹ بھی نہیں جل رہی تھی‘ رک گیا۔ میں نے انتہائی مودبانہ عرض کیا: محترم کیا آپ کو معلوم ہے آپ غلط سمت میں ون وے آ رہے ہیں۔ رات کا وقت ہے۔ آپ کی موٹر سائیکل کی لائٹ بھی نہیں جل رہی‘ آپ نے ہیلمٹ بھی نہیں پہنا ہوا اور آپ کے ساتھ دو چھوٹے بچے بھی بیٹھے ہیں تو کیا آپ نے سوچا ہے‘ اگر اس سمت سے کوئی گاڑی یا بس آپ کو ٹکر مار دے تو آپ اور آپ کے بچوں کا کیا حشر ہو گا؟ وہ صاحب پہلے بڑبڑائے پھر بولے: وہ ذرا جلدی تھی اس لئے اس سمت سے آ گئے۔ میں نے کہا: آپ کو کس چیز کی جلدی تھی‘ خدانخواستہ ہڈیاں تڑوا کر ہسپتال داخل ہونے کی یا اس سے بھی زیادہ کوئی ایمرجنسی تھی۔ وہ بولا: نہیں بس دیر ہو رہی تھی۔ میں نے کہا: اگر آپ اوپر سے چکر لگا کر آتے تو آپ کا زیادہ سے زیادہ آدھا کلومیٹر زیادہ فاصلہ بنتا‘ پانچ چھ روپے کا پٹرول اضافی خرچ ہو جاتا اور زیادہ سے زیادہ چالیس پچاس سیکنڈ اور لگ جاتے لیکن کم از کم یہ ایکسیڈنٹ والا خطرہ اور قانون کی خلاف ورزی سے آپ بچ جاتے۔ ہم ابھی بات کر ہی رہے تھے کہ اس دوران تین چار موٹر سائیکل سوار وہاں سے مزید غلط سمت سے چلتے بنے۔ میں نے کہا: میں تو آپ کا کچھ نہیں کر سکتا لیکن یہاں اگر ٹریفک اہلکار ہوتا تو اس نے آپ کا چالان کرنا تھا‘ جس پر آپ کو غصہ چڑھ جانا تھا اور آپ نے کہنا تھا کہ حکومت ہمیشہ غریبوں پر ظلم کرتی ہے اور پھر آپ نے یہیں پر اپنا گریبان چاک کرنا تھا اور پٹرول چھڑک کر خود کو یا موٹر سائیکل کو آگ لگانے کی کوشش بھی کرنا تھی۔ اس کے بعد میڈیا میں یہ خبر پھیل جانی تھی کہ غریب موٹر سائیکل سوار نے خود کو آگ لگا لی۔ یہ کوئی نہیں دیکھے گا کہ مسئلہ کیا ہوا تھا اور کیوں ہوا تھا۔
مجھے یاد ہے ارفع ٹاور کے قریب فیروزپور روڑ پر ایسا ہی ایک واقعہ ہوا تھا۔ ایک شخص ون وے کی خلاف ورزی کرتا ہوا فیروزپور روڑ پر آ رہا تھا کہ وارڈن نے روکا اور چالان کاٹ دیا‘ جس پر اس نے غصے میں اپنی موٹر سائیکل کو آگ لگا لی۔ آگ کی خبر اور تصویر ہر جگہ جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی لیکن اس شخص کی غلطی سامنے نہ آ سکی۔ اب فرض کریں اس شخص کو ٹریفک اہلکار نہ روکتا اور وہ تھوڑا سا آگے آ کر کسی گاڑی سے ٹکرا کر زخمی یا جاں بحق ہو جاتا تو کیا ہوتا۔ تب یہ ہوتا کہ گاڑی والے نے موٹر سائیکل سوار کو کچل دیا۔ تفصیل میں کون جاتا ہے کہ کس کی غلطی تھی کس کی نہیں تھی لیکن جو غلطی کر رہا ہوتا ہے اسے اچھی طرح علم ہوتا ہے کہ وہ غلطی پر ہے۔ وہ شارٹ کٹ کے چکر میں چانس لیتا ہے‘ کبھی اس کا تُکا لگ جاتا ہے کبھی نہیں لگتا۔ لیکن جو بھی ہوتا ہے وہ ہر ذمہ داری حکومت اور معاشرے پر ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ چلن صرف سڑکوں پر یا ٹریفک کے معاملے میں نہیں بلکہ آپ زندگی کا کوئی بھی معاملہ دیکھ لیں یہی کچھ ہو رہا ہے۔
آپ تاجروں کو ہی لے لیں۔ تاجروں نے دو دن ملک گیر ہڑتال کی۔ وجہ کیا ہے کہ پچاس ہزار سے زیادہ کی خریداری پر دکاندار نے خریدار سے شناختی کارڈ کی کاپی لینی ہے۔ تو بھائی اس میں تمہارا کیا جاتا ہے۔ مسئلہ تو شناختی کارڈ دینے والے کو ہونا چاہیے۔ ہاں اس سے یہ مسئلہ ضرور ہو گا کہ تمام چیزیں ڈاکومنٹڈ ہو جائیں گی اور تاجروں کو ہر چیز کا حساب دینا پڑے گا‘ اسی لئے یہ کہا جا رہا ہے کہ ہم سے فکسڈ ٹیکس کی شکل میں ٹیکس لے لو۔ یہ اس لئے کہا جارہا ہے کہ اس طرح چاہے دکاندار مہینے کی ایک کروڑ کی سیل کریں یا ایک ارب کی‘ وہ بیس تیس لاکھ فکسڈ ٹیکس دے دیں گے لیکن خریداری کے حساب سے ٹیکس نہیں دیں گے۔ اس پر کسی رپورٹر نے دکاندار سے پوچھا کہ آپ شناختی کارڈ لے لیں‘ جس نے چیز خریدنی ہو گی‘ حلال کے پیسوں سے خریدی ہو گی وہ کیوں آپ کو شناختی کارڈ دینے سے احتراز کرے گا۔ اس کا ٹو دی پوائنٹ جواب دینے کی بجائے وہ دکاندار صاحب پھٹ پڑے‘ بولے: حکومت شناختی کارڈ کی شرط لگا رہی ہے لیکن بدلے میں ہمیں کیا دے رہی ہے؟ وہ دیکھیں سڑک ٹوٹی ہے‘ وہ دیکھیں سٹریٹ لائٹ نہیں جل رہی۔ پہلے گورنمنٹ ہمیں سہولتیں دے‘ جو ٹیکس ہم پہلے دے رہے ہیں وہ تو ہمیں کسی شکل میں لوٹائے‘ پھر ہم دیکھیں گے۔ اس پر اینکر نے پوچھا: آپ نے اس سال کتنا ٹیکس دیا تھا‘ کیا آپ ہمیں اپنی ٹیکس سٹیٹمنٹ دکھا سکتے ہیں؟ اس پر دکاندار بولا: بہت ٹیکس دیا ہے لیکن ابھی میرے پاس کاغذ موجود نہیں اور یوں آئیں بائیں شائیں کرنے لگا۔ یہ ہال روڈ کی ایک بڑی دکان کا مالک تھا۔ مسئلہ صرف یہ ہوا ہے کہ یہ جو پیسہ حکومت کے خزانے میں جانے سے بچا لیتے تھے‘ نئے نظام کے تحت اسے اب چھپا نہیں پائیں گے۔ جہاں تک سہولتوں کی بات ہے تو جب تک ہر شخص ہر ادارہ پورا ٹیکس نہیں دے گا‘ حکومت کہاں سے سہولیات دے سکتی ہے۔ حکومت پر قرضے الگ چڑھے ہیں‘ ملک چلانے کے اخراجات الگ ہیں‘ بہت سی چیزیں کو پہلی مرتبہ درست سمت میں ڈھالا جا رہا ہے تو اس میں عوام اور حکومت دونوں کی مشترکہ ہم آہنگی اور کوشش سے ہی بہتری آئے گی۔ میں ان تاجروں پر حیران ہوتا ہوں جو خود جب بیرون ملک جاتے ہیں تو ایئرپورٹ سے نکل کر طرح طرح کے ٹیکس دیتے ہیں لیکن اپنے ملک میں تیار نہیں ہوتے۔ ان کے اپنے بچے بیرون ملک پڑھنے کیلئے گئے ہوئے ہیں‘ وہاں سیٹل ہیں اور اپنی کمائی کا پچاس سے ساٹھ فیصد ٹیکس دے رہے ہیں جس پر انہیں ریاست کی طرف سے سہولیات ملتی ہیں۔ یہاں کمائی کا پچاس فیصد تو دُور کی بات پانچ فیصد بھی کوئی دینے کو تیار نہیں۔ حتیٰ کہ اسلام نے زکوٰۃ کا جو اڑھائی فیصد مقرر کیا ہے‘ اس کی بھی ادائیگی نہیں کی جاتی لیکن چاہتے ہیں کہ یہ ملک کینیڈا اورامریکہ بن جائے۔ آپ کبھی ان ممالک میں جا کر تو دیکھیں آپ کو لگ پتہ جائے گا۔ ٹھیک ہے آپ کو سہولیات ملتی ہیں لیکن ذرا اس کی قیمت کا بھی اندازہ کریں۔ نہ آپ چھٹی کر سکتے ہیں‘ نہ آپ اللے تللے اور شاہ خرچیاں کر سکتے ہیں‘ ہر چیز آپ کو ڈاکومنٹڈ کروانی پڑتی ہے‘ پرانی گاڑی رکھی ہے تو ہر چھ ماہ بعد اس کا سیفٹی لائسنس تجدید کرانا پڑتا ہے‘ اس کی انشورنس بھی لازمی کروانی پڑتی ہے‘ حتیٰ کہ اپنی‘ گھر کی‘ دستاویزات کی اور پتہ نہیں کس کس چیز کی انشورنس فیس بھی لازمی ادا کرنا ہوتی ہے۔ اگر وہاں حکومت کچھ دے رہی ہے تو طرح طرح کی پابندیاں اور سختیاں بھی جھیلنا پڑتی ہیں۔ حجام کے پاس جانا ہے تو دو دن پہلے وقت لے کر جانا ہے جبکہ یہاں آپ ڈاکٹر کے پاس بھی جب چاہے منہ اٹھائے پہنچ سکتے ہیں اور اگر دو منٹ میں علاج نہ شروع کرے تو ڈاکٹر اور دیگر سٹاف کا سر پھاڑنے کا بھی پورا اختیار رکھتے ہیں۔ بیرون ملک آپ کو ہسپتال کی ایمرجنسی میں بھی چھ گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے لیکن یہاں آپ ہسپتال کے دروازے سے داخل ہوتے ہی علاج شروع کروانا چاہتے ہیں۔ اس لئے وہ صاحبان اور قدردان‘ جو ون وے کی خلاف ورزی اپنا حق سمجھتے ہیں‘جو ملاوٹ‘ جھوٹ‘ دھوکہ اور فریب کے ذریعے نوکری اور کاروباری کرنا چاہتے ہیں اور جو ٹیکس دینے کی بجائے پہلے لاہور کو لندن اور نیویارک کی طرح سہولیات سے آراستہ دیکھنا چاہتے ہیں‘ وہ خوابوں اور سرابوں کی دنیا سے باہر آ جائیں کیونکہ خواب ہم نے بہت دیکھ لیے‘ جو زیادہ تر سراب ہی نکلے‘ لیکن ہم نے اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے بارے میں کبھی نہیں سوچا۔ سوچا ہوتا تو آج ہم پورا ٹیکس دے رہے ہوتے اور ہمیں جدید ممالک کی طرح سہولیات بھی مل رہی ہوتیں۔