ناروے میں جس طرح ایک ملعون نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی کوشش کی اس سے دنیا میں اسلام اور قرآن کے پیغام کو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا‘ لیکن اس اسلام دشمنی کی وجہ سے مغرب کے اپنے کردار پر ضرور انگلیاں اٹھیں گی۔ اسلام اقلیتوں اور دوسرے مذاہب کے حقوق کی حفاظت پر زور دیتا ہے لیکن چند ملعون کچھ عرصے بعد اٹھتے ہیں اور ایسی ناپاک جسارت کرکے دنیا کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ناروے میں اسلام مخالف تنظیم سے تعلق رکھنے والے شخص نے کرستیان ساند شہر کے پُر رونق علاقے میں پہلے ایک مجمع لگایا اور پھر لوگوں کے سامنے قرآن کریم کو نذر آتش کر کے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا۔ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کریم کو آتشزدگی سے بچانے کے لیے نوجوان 'غازیٔ اسلام‘ الیاس تیزی سے آگے بڑھا اور اسلام مخالف شخص کو اس قبیح حرکت سے روکا۔ نوجوان نے اسلام مخالف شخص کو روکنے کی کوشش کی تو پولیس اس لڑکے کو روکنے اور اس ملعون کو لڑکے سے بچانے کے لیے حرکت میں آ گئی۔
دنیا میں کہیں بھی اسلامی شعائر پر حملہ ہو تو دیکھا گیا ہے کہ ایسے موقع پر ملک گیر احتجاج کیا جاتا ہے اور دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مسلمان امن پسند ہیں لیکن ہمارے مذہب کی توہین ناقابل برداشت ہے۔ گزشتہ روز ناروے میں قران حکیم کی بے حرمتی کی مذموم کوشش کے خلاف جماعت اسلامی نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے حکومت سے اس مسئلے کو اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی فورمز پر اٹھانے کا مطالبہ کیا۔ اس احتجاجی مظاہرے میں کارکنوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور واقعے پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔ مظاہرے سے خطاب میں امیرالعظیم صاحب کا کہنا تھا کہ قرآن حکیم اللہ کی کتاب ہے اور اس کی حفاظت کا بیڑا خود اللہ نے اٹھایا ہے؛ تاہم اس مذموم کوشش پر عالم اسلام کی خاموشی قابل مذمت ہے۔ مظاہرین نے قرآن کی بے حرمتی پر نا صرف نارویجن حکومت بلکہ عالمی برادری کی خاموشی کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور مجرم کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ پاک فوج بھی پیچھے نہ رہی اور ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے مائیکرو بلاگنگ سائٹ پر ایک ٹویٹ کیا‘ جس میں قرآن پاک کو بے حرمتی سے بچانے والے الیاس کی بہادری کو سراہتے ہوئے انہیں سلام پیش کیا۔ میجر جنرل آصف غفور نے لکھا کہ 'ایسی اسلامو فوبیا پر مبنی اشتعال انگیزی صرف نفرت اور انتہا پسندی کو فروغ دیتی ہے‘۔ اسی طرح ناروے میں پیش آنے والے ناخوشگوار واقعے کے خلاف مسلم لیگ نون کی رکن پنجاب اسمبلی سمیرا کومل نے ایوان میں ایک مذمتی قرارداد بھی جمع کرائی۔
ایسے واقعات کئی سوال اٹھاتے ہیں مثلاً یہ کہ مغرب میں آزادیٔ حقوق کے نام پر جو کچھ کیا جا رہا ہے کیا اس کی کوئی حد بھی ہے یا نہیں۔ کیا انسانی حقوق یا آزادیٔ رائے کے نام پر کسی بھی مذہب یا کسی بھی آسمانی کتاب کی بے حرمتی کی جا سکتی ہے؟ ناروے میں اگر ایک ملعون یہ ناپاک جسارت کر رہا تھا تو اسے ناروے کی حکومت اور انتظامیہ نے پہلے کیوں نہیں روکا؟ کیوں اس کو ایک مجمع لگانے کی اجازت دی گئی۔ وہ بڑے آرام اور اہتمام کے ساتھ آیا اور سارا عمل باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ کیا۔ سوال یہ ہے کہ اس شخص کے پیچھے کون کھڑا ہے اور کون مذاہب کی جنگ شروع کرانا چاہتا ہے۔ میں لاہور کے ایک متحرک نوجوان بلال شفیق کو داد دینا چاہتا ہوں جس نے اپنے فیس بک پیج پر انگریزی میں ایک ویڈیو جاری کی جس میں اس نے ہاتھ میں لائیٹر اور ناروے کا قومی پرچم اٹھایا ہوا تھا لیکن اس نے اس پرچم کو آگ نہیں لگائی بلکہ واضح کیا کہ مسلمان امن پسند قوم ہیں۔ یہ دوسرے مذاہب تو کیا مغربی ممالک کے پرچم تک کا احترام کرتے ہیں۔ وہ چاہیں تو رد عمل میں ان کے پرچم کو جلا سکتے ہیں لیکن وہ اپنی ویڈیو کے ذریعے ناروے اور دنیا کے تمام غیر مسلموں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اس طرح کی حرکت سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ہے اور خود مغرب کا اصل چہرہ سامنے آ گیا ہے لیکن وہ سب کو امن کا پیغام دے رہے ہیں۔ میرے خیال میں اس طرح کی رد عمل پر مبنی ویڈیوز انگریزی زبان میں وائرل کرنے سے مسلمانوں کا امن کا پیغام پوری دنیا تک پہنچے گا؛ چنانچہ ہر شخص کو اپنے سوشل میڈیا پر انگریزی میں لکھ کر یا بول کر پوسٹ ڈالنی چاہیے۔ ناروے کے غازیٔ اسلام نے تو اپنا حق ادا کر دیا‘ ہمیں بھی اپنا فرض ادا کرنا ہے اور دنیا کو بتانا ہے کہ اس طرح کی شر انگیزیاں دنیا کو روکنا ہوں گی۔
افسوس اس بات پر ہے کہ ہماری مسلم امہ اس واقعے پر سوئی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اب تک تمام مسلم ممالک کی طرف سے ناروے میں ہونے والے واقعے کے خلاف احتجاج آ جانا چاہیے تھا۔ امریکہ میں جب بھی کسی نائٹ کلب پر حملہ ہوتا ہے کوئی شخص پچاس ساٹھ لوگوں کو مار ڈالتا ہے تو اسے ذہنی مریض قرار دے دیا جاتا ہے اور کبھی رخ گن قوانین کی طرف مڑ جاتا ہے؛ تاہم کسی مسلمان کی ایک گاڑی سے ٹکرا کر کوئی غیر ملکی زخمی ہو جائے تو انتہا پسندی اور دہشت گردی کا لیبل فوری طور پر لگا دیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ ایسے چھوٹے چھوٹے واقعات پر امریکی صدر تک کے بیانات آ جاتے ہیں اور مسلمانوں پر مزید پابندیاں عائد کر دی جاتی ہیں۔ پاکستان نے ناروے کے سفیر کو بلا کر احتجاج کیا‘ لیکن بات یہیں تک نہیں رکنی چاہیے۔ اسے ملک بدر کرنا چاہیے اور اس واقعے کی پوری تحقیق ہونی چاہیے تاکہ مستقبل میں ایسی مذموم حرکات کو روکا جا سکے۔ ایسی حرکت کسی ترقی پذیر ملک میں ہوئی ہوتی تو اور بات تھی‘ لیکن ناروے جیسے ترقی یافتہ ملک میں ایسی حرکات کا ہونا تعجب خیز اور معنی خیز ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ایسی حرکات سے اسلام دبنے کی بجائے مزید پھیلتا ہے اور غیر مسلموں کے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کی شرح بڑھ جاتی ہے۔ وہ اس واقعے کی تحقیق کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اسلام کا تو دور دور تک دہشت گردی اور انتہا پسندی سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ اس واقعے کے بعد پورے ناروے میں ہر طرف قرآن کی محفلیں سج گئیں‘ سوشل میڈیا پر لاکھوں کی تعداد میں ایسی ویڈیوز پھیلنے لگیں‘ جن میں نوجوان ایک قطار میں بیٹھے قرآن حکیم کی بلند آواز تلاوت کر رہے ہیں اور اس سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں کروڑوں قرآن کے حافظ موجود ہیں‘ جو قرآن پاک کو سینے میں بسائے دل کی دھڑکن بنائے ہوئے ہیں۔ ماضی میں بھی جب اسلامی شعائر کا مذاق اڑانے یا انہیں نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تو تب بھی مسلمانوں نے بڑے تحمل کے ساتھ اس کا رد عمل دیا لیکن یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔ آزادیٔ رائے اور توہین مذہب کے درمیان ایک لکیر کھینچی جانی چاہیے۔ آپ حیران ہوں گے کہ لندن میں ایک مخصوص جگہ پر لوگوں کو ہر طرح کی رائے دینے کی آزادی ہے‘ لیکن ملکہ برطانیہ کے خلاف وہاں بھی کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک ملک کی ملکہ کے خلاف کچھ نہیں کہا جا سکتا تو پھر دنیا کے سب سے بڑے مذہب کی الہامی کتاب کے ساتھ ایسی جسارت کیسے قبول کی جا سکتی ہے۔ مغرب کو دو چہروں والی اپنی یہ پالیسی ترک کرنا ہو گی۔ اب وہ دور نہیں رہا کہ کوئی بھی کسی کے خلاف کچھ بھی کہتا رہے اور اس کا رد عمل نہ آئے۔ مسلمان اسلام‘ قرآن کریم اور اپنے نبی پاکؐ کی حرمت پر کٹ مرنا جانتے ہیں اور توہین مذہب برداشت نہیں کر سکتے۔ پاک فوج کے ترجمان‘ اور جماعت اسلامی سمیت دیگر اہم طبقات کی جانب سے اس مذموم واقعے پر جس رد عمل کا اظہار کیا گیا‘ وہ حوصلہ افزا ہے‘ ایسی مذموم حرکات کرنے والوں اور ان کی پردہ پوشی کرنے والے مغربی حکمرانوں کو اوقات میں لانے تک یہ احتجاج نہیں رکے گا۔ عمر الیاس تیری جرأتوں کو کروڑوں سلام۔