میں بڑا اہم تھا یہی میرا وہم تھا۔
یہ میں نے ایک قبر کے کتبے پر لکھا دیکھا اور یہ کتبہ فیس بک کی ایک پوسٹ پر لگا دیا جسے ہزاروں لوگ اب تک ایک دوسرے کو فارورڈ کر چکے ہیں۔ غور کریں تو ان آٹھ لفظوں میں انسان کی پوری کہانی بیان کر دی گئی ہے۔ انسان انتہائی کمزور پیدا ہوتا ہے‘ دودھ پینے‘ رفع حاجت کرنے اور چلنے پھر کے لئے والدین کا کئی برس محتاج رہتا ہے۔ پیدائش کے چھ مہینے بعد تک اتنی بھی طاقت نہیں رکھتا کہ خود اُٹھ کر بیٹھ ہی جائے۔ جب تک منہ میں دانت نہ نکل آئیں تب تک روٹی کا ایک ٹکڑا بھی چبا نہیں سکتا۔ پھر آہستہ آہستہ اس کے پر نکلنے لگتے ہیں۔ یہ سکول سے کالج اور کالج سے یونیورسٹی پہنچتا ہے۔ جوانی کا عروج دیکھتا ہے تو سمجھتا ہے شاید یہ طاقت یونہی سدا باقی رہے گی۔ اس زعم میں دوسروں کی حق تلفی کرنا عین عبادت سمجھتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ دولت‘ شہرت اور طاقت کے حصول کے لئے ہر جائز و ناجائز حربہ آزماتا ہے۔ جب دولت حد سے زیادہ ہو جائے تو ملک سے باہر اسے محفوظ رکھنے کے لئے گمنام جزیرے ڈھونڈتا ہے۔ اپنی طاقت کا نشہ دکھاتا ہے۔ جمہوری حکمران بن جائے تو مرتے دم تک اقتدار سے چمٹے رہنے کے خواب دیکھتا ہے۔ پھر قدرت اپنی چال چلتی ہے۔ وہی بچہ جو کمزور پیدا ہوتا ہے اور جو جوانی کی طاقت کو ہر غلط کام کے لئے استعمال کرتا ہے‘ وہ بزرگی کی طرف لوٹنے لگتا ہے۔ وہ کمر جو جوانی میں تیر کی طرح سیدھی ہوتی ہے اس میں خم آنے لگتا ہے۔ جو سیاہ بال اور زلفیں لہرا کر وہ لوگوں کو اپنا گرویدہ بناتا ہے ان کی جگہ سفید بالوں کی چاندی لینے لگتی ہے۔ شوگر‘ بلڈ پریشر جیسی عمومی بیماریاں اسے گھیر لیتی ہیں۔ پھر وہ وقت بھی آتا ہے جب وہ اقتدار سے علیحدہ ہو جاتا ہے۔ کسی بھی پرکشش ترین عہدے پر نوکری کر رہا ہو تو بزرگی کے باعث اسے چھوڑنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ کاروبار کر رہا ہو تب بھی زیادہ وقت آرام کی تلاش میں رہتا ہے۔ پھر وہ وقت آتا ہے جب اس کی ملک اور دنیا بھر میں پھیلی دولت سے اس کے بچے اور اعزا و اقربا ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ آخری عمر میں بستر پر اس کی زیادہ سے زیادہ خواہش یہی ہوتی ہے کہ اسے رات کو بغیر گولی کے نیند آ جائے‘ اس کا دن کسی ہسپتال کی بجائے گھر میں گزرے‘ وہ بغیر سہارے کے خود باتھ روم جا سکے اور خود اپنے ہاتھ سے کھا پی سکے۔ اس سے زیادہ کی خواہش اس کے دل میں نہیں رہتی۔ وہ آخری ایام یہی دعا کرتے گزار دیتا ہے کہ اسے چلتے پھرتے طبعی موت آ جائے اور وہ بیماری کے ہاتھوں ہسپتالوں میں رُلتے ہوئے نہ مر جائے۔ پھر اگر وہ خوش قسمت ہو تو اس کی موت اس کی خواہش کے مطابق آ جاتی ہے‘ ورنہ وہ بیس بیس سال ہسپتالوں کے بستر پر پڑا موت کی دعائیں مانگتا رہے‘ لیکن جب تک خدا نہ چاہے اس کی یہ دعا بھی قبول نہیں ہو پاتی۔
جی ہاں یہی ہے زندگی کی اصل حقیقت اور اس زندگی کا اختتام جسے ہم لافانی سمجھتے ہوئے یوں گزارتے ہیں جیسے وقت‘ طاقت‘ حالات اور واقعات سب کچھ ہماری مرضی اور منشا کے محتاج ہوں اور ہم جب تک چاہیں جیسا چاہیں جو کچھ مرضی کرتے رہیں۔ یہ سب سوچتے ہوئے بالآخر ہم لبِ گور پہنچ جاتے ہیں۔ ہمارا جنازہ بڑی شان و شوکت سے پڑھا جائے اس میں سینکڑوں ہزاروں لوگ ہوں‘ تب بھی ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑ سکتا کیونکہ جو مال اور جو طاقت ہم بچا کر رکھتے تھے وہ تو اوروں نے ہڑپ کر جانی ہوتی ہے‘ ہمارے کام تو وہ آتا ہے جو ہم صدقات‘ زکوٰۃ اور نیک اعمال کی شکل میں آگے بھیج چکے ہوتے ہیں۔ رشتے دار ہماری قبر کو سنگ مر مر کے محل سے سجا دیتے ہیں لیکن اس سے ہمیں کیا فرق پڑتا ہے۔ شروع شروع میں بچے باقاعدگی سے قبر پر حاضری دیتے ہیں پھر وہ بھی آہستہ آہستہ دنیا کے جھمیلوں میں گم ہو جاتے ہیں اور پھر وہ بھی دن آتا ہے جب مہینوں گزر جاتے ہیں اور اس شخص کی قبر پر کوئی شخص چند منٹ نکال کر بھی نہیں آتا‘ جو اس کے انتظار میں گھنٹوں کھڑا رہتا تھا‘ جب اسی مرحوم شخص سے دفتر میں آ کر کام نکلوانا ہوتا تھا یا کوئی فائدہ حاصل کرنا ہوتا تھا۔ میں بڑا اہم تھا یہی میرا وہم تھا۔ شاید اسی دن کے بارے میں ہر اس شخص کے بارے میں یہ کہا گیا کہ جو طاقت کے نشے میں چور ہو کر دنیا کے قاعدوں کو قدموں تلے روندتا رہتا تھا اور اتنا بھی نہیں سمجھ پایا تھا کہ انسان کچھ بھی کر سکتا ہے لیکن وقت کے پائوں نہیں روک سکتا۔ یہ وقت طاقتور بادشاہ کو بھی اسی مقام پر پہنچا دیتا ہے جہاں ایک گداگر کو پہنچاتا ہے۔ اس وقت کی جو قدر نہیں کرتا اور جو اسے قدرت کے قاعدے اور قوانین کے برخلاف روندنے کی کوشش کرتا ہے یہی وقت ایک دن اسے ماضی کا قصہ اور کتبے کا حصہ بنا کر آگے نکل جاتا ہے۔
کہتے ہیں‘ انسان چاہے عام ہو یا خاص‘ شاہ ہو یا فقیر‘ ملازم پیشہ ہو یا بزنس ٹائیکون‘ سب کو زندگی کی حقیقت اپنے آخری ایام میں سمجھ آتی ہے۔ تب انسان سوچتا ہے‘ میں ساری زندگی کیا کرتا رہا۔ جن چیزوں کو پانے کے لئے میں نے اپنی زندگی کے پچاس ساٹھ سال گزار دئیے وہ تو اصل نعمتیں تھی ہی نہیں‘ اصل نعمتیں تو میرے والدین‘ میری اولاد‘ میرے رشتے دار اور میرا وقت تھا‘ جنہیں میں معمولی سمجھ کر نظر انداز کرتا رہا۔ چھوٹی گاڑی سے بڑی گاڑی‘ چھوٹے گھر سے بڑے گھر اور پھر فارم ہائوس کے حصول جیسی خواہشوں کو لے کر میں خود کو کھپاتا رہا یہاں تک کہ وہ وقت آ گیا جب میں ان چیزوں کو انجوائے کرنے کے قابل بھی نہیں رہا۔ اس دوران میں یہ بھی میں نے نہیں دیکھا کہ صحت ہو گی تو ان چیزوں سے فائدہ اٹھا سکوں گا۔ جن لوگوں کو میں اپنا سمجھ کر ان پر لٹاتا رہا وہ تو میری کرسی کے لئے مجھ سے ملتے تھے۔ یہ تو مجھے آج تک نہ علم ہو سکا۔
میں یونہی سمجھتا رہا کہ وہ مجھ سے پیار کرتے ہیں اور وہ میری ذات کے لئے میرے پیچھے مؤدب ہو کر چلتے ہیں۔ مجھے محسوس تک نہ ہوا کہ جیسے ہی میں کرسی اور اقتدار سے علیحدہ ہوں گا‘ یہ سب اس کرسی اور اقتدار پر فائز نئے شخص کے سامنے یونہی ہاتھ باندھے کھڑے ہو جائیں گے اور مجھے یاد تک نہ رکھیں گے۔ جن کے کہنے پر میں ہر جائز و ناجائز کام کرتا رہا وہ آج جب میں اکیلا ہوں‘ طاقت کے محور سے دُور ہوں‘ مجھے پوچھنے تک نہیں آتے۔ کاش میں اس وقت سمجھ جاتا کہ میں جن لوگوں کو اپنا ہمدرد سمجھتا رہا‘ وہ صرف میری کرسی کے لئے مجھ سے ملتے تھے اور انہیں میری ذات سے ذرہ بھر بھی دلچسپی نہ تھی۔ میں وقت کا حکمران تھا تو فوجیں میرے کہنے پر دوسرے ملکوں پر چڑھ دوڑتیں‘ خزانے کی وزارتیں میرے ایک دستخط پر خزانے کے منہ کھول دیتیں‘ میرے ایک اشارے پر سزائے موت کے قیدی کو عین وقت پر معافی مل جاتی اور میری ایک خواہش پر دنیا کی ہر نعمت میرے سامنے حاضر کر دی جاتی لیکن یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں کہ جب میں اقتدار میں نہیں رہوں گا اور جب میں دنیا سے چلا جائوں گا‘ یہ دنیا مجھے یوں بھول جائے گی جیسے میں اس دنیا میں کبھی آیا ہی نہ تھا۔ میری قبر میرے پیاروں اور ان ہزاروں کی راہ تکتی رہے گی جو میری ایک جھلک دیکھنے اور مجھ سے ایک مرتبہ ہاتھ ملانے کے لئے بے تاب رہتے تھے‘ جو میرے ساتھ ایک سیلفی لینے کو ایک بڑا اعزاز سمجھتے تھے‘ وہ میری موت کے بعد یوں غائب اور لاتعلق ہو جائیں گے۔ مجھے معلوم ہوتا تو شاید میں کبھی طاقت کے نشے میں مخلوق خدا کے ساتھ زیادتیاں نہ کرتا‘ ان کے حق سے انہیں محروم نہ کرتا اور ان کے دل نہ توڑتا۔
یہ سب میں اپنی زندگی میں نہیں سمجھ پایا اور شاید اسی لئے کسی نے میری قبر کے کتبے پر یہ سچ لکھوا دیا ہے:
میں بڑا اہم تھا یہی میرا وہم تھا۔