یہ شاید ٹیکنالوجی کی مہربانی ہے کہ ایک سال پلک جھپکتے میں گزر جاتا ہے۔ پہلے ایک سال گزرتے ہوئے اچھا خاصا پتہ چلتا تھا۔ واقعات بھی یاد رہتے تھے لیکن اب واقعات کی بھرمار ہوتی ہے۔ ایک واقعے کی گرد ابھی پوری طرح بیٹھتی نہیں کہ ایک نیا واقعہ رونما ہو جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وقت کو بھی پر لگ گئے ہیں‘ ایک سال یوں گزر جاتا ہے جیسے کبھی ایک مہینہ گزرا کرتا تھا۔ دو ہزار انیس کا آغاز ابھی کل کی بات لگتی ہے۔ دو ہزار اٹھارہ کے اختتام پر اسی طرح ہم اگلے سال کی منصوبہ بندی کر رہے تھے جس طرح آج دو ہزار بیس کی کر رہے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ سال میں وہی بارہ مہینے اور ہر مہینے میں تیس اکتیس دن ہوتے ہیں لیکن جس طرح کی زندگی پندرہ بیس برس قبل ہم گزارتے تھے ویسی اب نہیں دکھائی نہیں دیتی۔ ایک دن میں بھی وہی چوبیس گھنٹے ہوتے ہیں‘ ہفتے میں سات دن۔ سورج بھی اسی وقت نکلتا اور غروب ہوتا ہے جیسے آج سے بیس پچیس سال قبل نکلتا اور غروب ہوتا تھا لیکن اب جیسے ہر چیز بے معنی سی ہو گئی ہے۔ ایک دن کے آغاز اور اختتام کا دورانیہ بھی وہی ہے اور اس دورانیے میں ہر کوئی بے حد مصروف دکھائی دیتا ہے اس کے باوجود کام ہیں کہ مکمل نہیں ہو پاتے۔ اگلے سال کے پلان بنانے سے قبل ذرا یہ دیکھ لیجئے کہ پچھلے سال جو آپ نے پلاننگ کی تھی اس پر کتنا عمل کیا؟ آپ کے کون کون سے گول مکمل ہوئے اور کون سے ادھورے رہ گئے۔ وہ کیا وجوہات تھیں جن کی بنا پر آپ اپنے مقاصد حاصل نہیں کر پائے۔ ان تمام مسائل کی فہرست بنا لیجئے جن کی وجہ سے آپ اپنے اہداف مکمل کرنے میں ناکام رہے۔ بہت سے لوگوں کا ہدف اپنا وزن کم کرنا ہوتا ہے۔ اب وزن کم کرنے کے لئے لائف سٹائل بدلنا ضروری ہے۔ اسی طرح مناسب کھانا‘ ورزش‘ مناسب نیند اور دبائو سے بچ کر زندگی گزارنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ بازاری کھانوں سے پرہیز ویسے تو ہر کسی کے لئے لازم ہے لیکن وزن گھٹانے کے خواہشمندوں کو تو اس بارے سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ لیکن سال کے شروع کے چند دن تو ذوق و شوق سے عمل ہوتا ہے پھر ایک آدھ مرتبہ بد پرہیزی ہو جائے تو سارا جوش ماند پڑ جاتا ہے اور پھر بد پرہیزی دوبارہ شروع ہو جاتی ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ کبھی سال بھی شروع ہوا تھا اور وزن کم کرنے کی پلاننگ بھی کی تھی۔ دراصل کسی بھی منصوبہ بندی کا تعلق سال کے آغاز سے نہیں ہوتا‘ نہ ہی ہونا چاہیے۔ اگر آپ سال کے وسط میں ہیں اور جون جولائی میں وزن کم کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو آپ یہ سوچ کر دسمبر‘ جنوری کا انتظار نہیں کریں گے کہ پلاننگ سال کے شروع میں کروں گا۔ اس طرح تو چھ ماہ میں آپ بازاری کھانے کھا کھا کر مزید کُپا بن جائیں گے۔ لہٰذا جو لوگ صرف سال کے آغاز میں پلان بناتے ہیں انہیں بھی اسی طرح خود پر کنٹرول کرنا ہوتا ہے جیسا کہ سال کے دیگر اوقات میں پلان بنانے والوں کو۔ وقت ایک جیسا نہیں رہتا‘ نہ ہی حالات و واقعات آپ کی مرضی کے مطابق رہتے ہیں‘ اس لئے آپ کو اپنی پلاننگ پر عمل کے لئے انتہائی صبر اور مستقل مزاجی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔ اگر آپ نے پورے سال کی پلاننگ کرنی ہے تو اسے حقیقت سے قریب رکھ کر کیجئے۔ بہتر یہ ہے کہ ایک سال کی پلاننگ کو چار حصوں میں تقسیم کریں۔ ہر تین مہینے بعد دیکھیں کہ آپ پلاننگ پر کس حد تک عمل کر رہے ہیں۔ اسی طرح ہر ماہ کے آخر میں بھی اپنی کارکردگی پر نظر ڈالیں۔ اس سے بھی زیادہ بہتر نتائج چاہتے ہیں تو ہفتہ وار پلان مرتب کریں۔ اگر آپ نے ایک سال میں ایک سو کتابیں پڑھنے کا پلان بنایا ہے تو ہر تین ماہ میں پچیس کتابیں پڑھنے کا ہدف مقرر کریں۔ یہ مہینے کی آٹھ کتابیں اور ایک ہفتے کی دو کتابیں بنتی ہیں۔ اب اگر آپ ایک ہفتے میں دو کتابیں پڑھنے کا وقت نکال سکتے ہیں تبھی ایک سال میں ایک سو کتابیں پڑھنے کا ہدف مقرر کریں۔ ہمارا مسئلہ یہی ہے کہ ہم اپنی استطاعت اور زمینی حقائق سے ہٹ کر اہداف بنا لیتے ہیں اور پھر جب انہیں مکمل نہیں کر پاتے تو دل چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ لہٰذا ہمیشہ اہداف بھی قابل عمل قسم کے بنائیں نہ کہ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی۔ آپ اپنے بارے میں دوسروں سے بہتر جان سکتے ہیں لیکن آپ دوسروں کی کمزوریوں اور خامیوں سے ناواقف ہوتے ہیں۔ اس لئے ہمیشہ اپنی چادر دیکھ کر پائوں پھیلائیں۔ اگر آپ مہینے میں ایک کتاب پڑھ سکتے ہیں تو بھی کوئی بات نہیں۔ اس طرح آپ ایک سال میں کم از کم بارہ پندرہ کتابیں ضرور پڑھ لیں گے بلکہ بیس کتابیں بھی پڑھ سکیں گے کیونکہ آپ اپنا ہدف کم از کم رکھیں گے تو وقت ملنے پر اسے بڑھاتے جائیں گے۔ لیکن اگر آپ نے ضرورت اور ہمت سے زیادہ ہدف مقرر کر لیا تو پھر آپ اسے حاصل کرنے میں ناکامی پر خود کو مایوس اور شکست خوردہ تصور کریں گے۔ اسی طرح اگر آپ بیس کلووزن کم کرنا چاہتے ہیں تو ایک سال میں یہ ہدف حاصل کرنے کا پلان نہ مرتب کریں بلکہ پانچ کلو سے شروع کریں اور اسی حساب سے اپنی ورزش‘ خوراک وغیرہ کا پلان بنائیں۔ روزانہ پانچ کلومیٹر کی بجائے صرف ایک کلومیٹر تیز تیز چلنے کی کوشش کریں اور اس فاصلے کو آہستہ آہستہ بڑھاتے جائیں۔ اگر روزانہ ایک گھنٹہ واک نہیں کر سکتے تو کبھی پلان میں یہ نہ لکھیں بلکہ بیس منٹ واک کا پلان بنائیں اور آہستہ آہستہ اسے بڑھاتے جائیں۔ کسی بھی پلاننگ کے شروع میں خود پر بوجھ کم سے کم رکھیں۔ جوش سے زیادہ ہوش سے کام لیں۔ اصل چیز زیادہ چلنا‘ زیادہ دیر بھوکا رہنا نہیں بلکہ کسی بھی چیز میں مستقل مزاجی ہے۔ جب آپ مستقل مزاج بن جائیں گے تو پھر آپ رفتار اور مقدار پر بھی آسانی سے کنٹرول کر لیں گے۔ ہم پاکستانی مگر مختلف قسم کی قوم ہیں۔ ہم مچھلی بھی کھاتے ہیں تو ہر بندہ دو دو کلو ہڑپنے کی کوشش کرتا ہے۔ پوچھیں تو کہتے ہی کہ ڈاکٹر نے کہا ہے مچھلی میں پروٹین ہوتی ہے اس لئے کھا رہے ہیں۔ بندہ ان سے پوچھے‘ کیا ایک دن میں ہی ساری پروٹین کھا جانی ہے۔ آپ ایک کلو مچھلی بھی کھا لیں گے تو اس کا اثر آدھ پائو والا ہی ہو گا۔ آپ ایک وقت میں دس کیلے بھی کھا لیں گے تو ان کا اثر دو کیلوں کا ہو گا کیونکہ ہمارا جسم ایک وقت میں خاص قسم کے حرارے جذب کرنے اور انہیں جسم کا حصہ بنانا جانتا ہے۔ اس سے اضافی کھائیں گے تو وہ ضائع ہو جائے گا۔ دو کلو پروٹین اکٹھی کھا لینے سے یہ ایک دن میں آپ کے پٹھوں میں جا کر جذب نہیں ہو جائے گی۔ اگر پروٹین کو اپنے جسم کا حصہ بنانا چاہتے ہیں تو آپ کو آدھ پائو یا اس سے بھی آدھی مچھلی روزانہ اپنی خوراک میں شامل کرنی چاہیے۔ آپ سبزی کھائیں دال کھائیں اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا ٹکڑا مچھلی کا روزانہ چھ ماہ یا ایک سال مسلسل کھائیں تب جا کر یہ آپ کے جسم کا حصہ بنے گی۔ یہ تو ہمارے ملک میں ہی مچھلی سردیوں کی خوراک بن گئی ہے ورنہ یہ گرمیوں میں بھی کھائی جانی چاہئے لیکن ہم چونکہ کم از کم فی بندہ آدھا کلو کھانے کے عادی ہیں اس لئے گرمیوں میں اتنی کھائیں گے تو ویسے ہی پھٹنے والے ہو جائیں گے۔ انڈے میں بھی پروٹین ہوتی ہے لیکن ہم پندرہ بیس انڈے تو نہیں روزانہ کھاتے۔ جو تن ساز اتنے انڈے کھاتے ہیں وہ ورزش بھی اسی حساب سے اتنی ہی زیادہ کرتے ہیں جس سے اضافی انڈوں کی توانائی جسم کا حصہ بنتی چلی جاتی ہے۔ ہم مگر گلے تک کھانا بھر لیتے ہیں۔ اس طرح کے لائف سٹائل میں تو کبھی آپ کا وزن کم نہیں ہو گا۔ لہٰذا نئے سال کے لئے گول وہی سیٹ کریں جو ضروری ہیں اور اتنی مقدار میں سیٹ کریں جتنا آپ عمل کر سکتے ہیں۔ تھوڑے سے شروع کریں اور آہستہ آہستہ بڑھاتے جائیں۔ اگر ایک دو ماہ بعد آپ کو لگے کہ آپ اپنے مقاصد پر عمل نہیں کر پا رہے تو دل چھوڑنے کی بجائے پلان کو نئے سرے سے ترتیب دے لیں۔ اس میں نرمی اور آسانی پیدا کر لیں تاکہ مستقل مزاجی سے عمل ممکن ہو سکے اس طرح آپ یقینا اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔