بالآخر صحافی جمال خشوگی قتل کیس میں 5 افراد کو موت کی سزا سنا دی گئی۔ سعودی سرکاری وکیل کے مطابق 11 افراد کو اس قتل کے الزام میں عدالت کے سامنے پیش کیا گیا جن میں سے 5 افراد کو سزائے موت جبکہ 3 کو 24 سال قید کی سزا دی گئی۔ فیصلے کے موقع پر جمال خشوگی کے بیٹے اور وکلا بھی موجود تھے۔ جمال خشوگی کو 2 اکتوبر 2018 کو استنبول میں واقع ایک قونصل خانے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اس قتل کے بعد بہت سی سازشی تھیوریاں سامنے آئیں‘ بہت سے اہم لوگوں پر الزامات لگائے گئے اور یہ تک کہا گیا کہ اس میں جو اہم سعودی باشندے ملوث ہیں انہیں سزا نہیں دی جائے گی؛ تاہم سب جانتے ہیں کہ سعودی عرب میں سزا اور جزا کے معاملے میں کتنا سنجیدہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ سعودی عرب میں تو منشیات‘ چوری اور دیگر جرائم پر سخت ترین سزائیں سنائی جاتی ہیں‘ یہ تو پھر قتل کا ایک سنگین جرم تھا۔ سعودی عرب میں منشیات لے جانا سنگین جرم ہے اور اس میں مجرم کا سر قلم کر دیا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ پھر ایسی سزائوں پر تنقید کرتے ہیں لیکن یہ وہی سزائیں ہیں‘ جن کا اسلام میں حکم ملتا ہے۔ سعودی عرب میں ان سزائوں پر پوری طرح عمل کیا جاتا ہے۔ بد قسمتی سے اب تک سعودی عرب منشیات لے جانے کی کوشش میں درجنوں پاکستانیوں کے سر قلم کئے جا چکے ہیں۔ منشیات لے جاتے وقت یہ بھی نہیں سوچا جاتا کہ اتنی پاک اور مقدس سرزمین پر یہ ناپاک جسارت خدا کو کتنی ناگوار گزرے گی۔ یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ ان حرکات سے پاک سعودی تعلقات پر کیا اثر پڑے گا اور سعودی عرب جو ہر مشکل وقت میں پاکستان کے کام آیا ہے اگر یہیں سے منشیات وہاں لے جانے کا سلسلہ جاری رہے گا تو اس سے ہمیں کتنا نقصان ہو گا؛ تاہم جرم کوئی بھی ہو اور کوئی بھی کرے‘ سعودی عرب میں سزا کے معاملے میں کسی بڑے یا چھوٹے یا امیر اور غریب کا لحاظ نہیں کیا جاتا بلکہ ہر ایک کو اس کے کیے کے مطابق سزا ملتی ہے۔ جمال خشوگی کے قتل کے مجرموں کو سزا ملنا اس کی تازہ مثال ہے۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ قتل کی کوئی پیشگی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی بلکہ یہ جرم موقع پر ہی ہوا۔ جمال خشوگی کے بیٹوں نے سعودی نظام انصاف پر اظہار اعتماد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والد کے قاتلوں کو سزا سنائے جانے کے فیصلے سے وہ پوری طرح مطمئن ہیں۔
صرف سزا کی بات نہیں سعودی عرب جزا کے معاملے میں بھی بڑا سخی ہے۔ بتیس سالہ پاکستانی فرمان علی اس کی بہترین مثال ہے۔ یہ شخص چند برس قبل سوات سے سعودی عرب پہنچا اورجدہ پہنچ کر اس نے ایک گروسری سٹور میں ملازمت شروع کر دی تھی۔ ایک روز جدہ میں جاری طوفانی بارشیں اپنے عروج کو پہنچ چکی تھیں‘ یہ عالمی ماحولیاتی تبدیلی کی واضح مثال تھیں کیونکہ یہاں اس قدر بارشیں کبھی نہیں ہوئی تھیں۔ طوفان کے شور نے فرمان علی کو صبح سویرے اٹھا دیا‘ وہ باہر نکلا تو عجیب منظر تھا۔ کالے بادلوں نے اندھیرا کر رکھا تھا‘ وقفے وقفے سے بجلی بھی کڑکتی تھی اور سڑکوں گلیوں میں پانی کی لہریں بدمست ہاتھی کی طرح جھومتی آ رہی تھیں۔ ہر طرف بچوں اور عورتوں کی چیخ و پکار اور قیامت کا سماں تھا۔ اس دوران فرمان نے بیس بائیس سال کا ایک نوجوان دیکھا جو سڑک کنارے ایک پول کے ساتھ چپکا ہوا تھا۔ اس کے کندھے پر چھ سالہ بچہ سوار تھا۔ نوجوان نے پول مضبوطی سے تھام رکھا تھا مگر پانی کا بہائو اسے لے جانے کیلئے بے تاب تھا۔ فرمان کے ذہن میں ایک خیال کوندا۔ وہ فلیٹ میں گیا اور بیس تیس فٹ لمبی رسی لے آیا۔ اس نے رسی کا ایک سرا فلیٹ کے باہر جنگلے سے باندھا‘ دوسرا سرا اپنی کمر کے گرد لپیٹا‘ گرہ لگائی اور پانی میں اتر گیا۔ فرمان علی سڑک کنارے درختوں‘ دیواروں اور رکاوٹوں کا سہارا لیتا ہوا بالآخر نوجوان تک پہنچ گیا۔ اس نے بچے کو کاندھے پر بٹھایا‘ نوجوان کا ہاتھ تھاما اور دونوں کو باحفاظت فلیٹ کی بالکونی میں پہنچا دیا۔ ابھی فرمان کے حواس پوری طرح بحال نہیں ہوئے تھے کہ اس نے کئی اور آوازیں سنیں۔ یہ سب لوگ سڑک کے دائیں بائیں پھنسے ہوئے تھے۔ کوئی گاڑیوںکی چھتوں کے ساتھ چپکا تھا‘ کوئی درخت پر لٹکا تھا اور کوئی پانی کی لہروں میں بہتا جا رہا تھا۔ فرمان علی دوبارہ پانی میں اتر گیا اور مزید چودہ سعودی شہریوں کی جانیں بچانے میں کامیاب ہو گیا۔ قدرت نے اسے مزید موقع نہ دیا۔ پانی کا ایک تیز ریلا آیا۔ اس کا سر کسی ٹھوس شے سے ٹکرا گیا اور فرمان کی روح پرواز کر گئی۔ وہ شہید ہو گیا۔ یہ انسانی جذبے کی شاندار مثال تھی۔ اس مثال نے سعودی حکومت اور سعودی عوام کو فرمان علی کا احسان مند بنا دیا اور اس بے مثال قربانی پر خادم حرمین شریفین نے فرمان کو سعودی حکومت کا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ ''کنگ عبدالعزیز گولڈ میڈل درجہ اول‘‘ تک دینے کا اعلان کر دیا۔ یہ ایوارڈ لینے فرمان کے والدین اور فیملی شاہی مہمان کے طور پر سعودیہ پہنچے‘ جہاں سابق سعودی ولی عہد نے ایک پُرتکلف تقریب میں فرمان کے والد کو ایوارڈ پیش کیا اور فرمان علی کی انسان دوستی کے اعتراف میں جدہ کی ایک شاہراہ بھی فرمان علی کے نام سے موسوم کر دی۔
اس سال پاکستان میں سردی کے چالیس سالہ ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔ بڑے بڑے جوانوں کے دانت بجنے لگے ہیں اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گے ہیں کہ سردی تو اس مرتبہ واقعی سیریز ہو گئی ہے۔ اس سردی میں شہروں میں رہائش پذیر متمول طبقے کے پاس تو سردی سے بچنے کے لئے خاصا سامان موجود ہے لیکن دور دراز کے پہاڑی اور شمالی علاقوں میں غربت اور سردی کا آپس میں مقابلہ عروج کو پہنچ چکا ہے۔ چترال‘ مانسہرہ‘ بونیر‘ سوات وغیرہ میں تو سردی پہلے ہی زیادہ ہوتی تھی‘ لیکن اب کی بار وہاں بھی لوگ قیامت خیز سردی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ان علاقوں میں سردیوں میں کاروبار کا سلسلہ ٹھپ ہو جاتا ہے‘ اس لئے وہ لوگ روزمرہ کا کچن چلانے سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔ اس صورت حال سے نمٹنے کیلئے اس سال بھی سعودی بادشاہ شاہ سلمان نے کنگ سلمان ایڈ اینڈ ریلیف سنٹر کے تحت ایک منصوبہ شروع کیا ہے‘ جس کے تحت ایک سو اسی ٹن وزن کے تیس ہزار خصوصی ریلیف پیکیج کی تقسیم شروع کی گئی ہے۔ اس کے لئے پاکستان کے سرد ترین علاقوں کا انتخاب کیا گیا تاکہ پسماندہ لوگوں‘ خاص طور پر بچوں کو سردی کی شدت سے بروقت بچایا جا سکے۔ اس کے لئے فی گھرانہ دو کمبل و زنانہ گرم شالیں‘ بچوں اور بڑوں کے لئے موزے‘ دستانے اور ٹوپیوں پر مبنی پیکیج تیار کئے گئے‘ جس کی مجموعی لاگت تقریباً ڈیڑھ ملین ڈالر بنتی ہے۔ یہ سامان پاکستانی غیر سرکاری تنظیم کے تعاون سے آزاد جموں و کشمیر‘ گلگت بلتستان‘ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے سرد ترین اکیس اضلاع میں تقسیم کیا جا رہا ہے‘ جس سے ڈیڑھ لاکھ سے زائد غریب اور نادار افراد مستفید ہوں گے۔ ریلیف پیکیج دینے کا یہ سلسلہ سعودی عرب کی طرف سے عرصہ دراز سے جاری ہے اور اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ سعودی عرب پاکستانی بھائیوں اور بہنوں کے درد کو اپنا درد سمجھتا ہے‘ اور زلزلے‘ سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کی صورت میں تعاون کے لئے پیش پیش رہتا ہے۔ مجھے ان پاکستانیوں اور مسلمانوں پر حیرت ہوتی ہے جو سعودی عرب کو مقدس مقام بھی تسلیم کرتے ہیں‘ جو کلمہ بھی پڑھتے ہیں اور جو حج اور عمرے کرنے کے لئے بے چین بھی رہتے ہیں لیکن وہ منشیات لے کر سعودی عرب جانے کی کوشش بھی کرتے ہیں اور یوں اپنا اور ملک کا نام بدنام کرتے ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان دراڑ ڈالنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ ایسے لوگ جو جمال خشوگی کے قتل کے حوالے سے چہ میگوئیاں کر رہے تھے‘ اس کے قاتلوں کو سزائے موت سنائے جانے کے بعد انہیں بھی مطمئن ہو جانا چاہیے کہ سعودی نظام انصاف آج بھی پوری مضبوطی کے ساتھ قائم و دائم ہے اور آئندہ بھی انصاف کی شاندار مثالیں قائم کرتا رہے گا۔