ہمارا معاشرہ بھی بڑاعجیب ہے۔ یہ ہر معاملے میں اُلٹ چلتا ہے۔ جس معاملے میں حیرت کا اظہار کرنا چاہیے اسے یہاں نارمل تصور کیا جاتا ہے اور جس پر خوشی کا اظہار کرنا چاہیے وہاں کیڑے نکالے جاتے ہیں۔
لاہور کی اٹھارہ برس کی نمرا اور اومان کے انیس برس کے اسد کی شادی سوشل اور الیکٹرانک میڈیا میں ٹاپ ٹرینڈ کیوں بنی؟ اس کی کئی وجوہ ہیں؛ پہلی یہ کہ یہ شادی پچیس تیس کی بجائے بیس برس کی عمر سے بھی پہلے کی گئی۔ دوسری یہ کہ دونوں ابھی زیر تعلیم ہیں اور تیسری یہ کہ دونوں کے والدین بھی اس شادی پر راضی تھے۔ یہ شادی حقیقت میں کم عمری کی نہیں بلکہ بروقت شادی تھی۔ دونوں اب تسلی سے اپنی پڑھائی اور روزگار کی طرف توجہ دے سکیں گے۔ اگر ہم اپنے بڑوں کی جانب دیکھیں یا اب بھی قبائلی روایات پر نظر ڈالیں تو ماضی میں شادیاں اسی عمر بلکہ اس سے بھی کم عمر میں ہو جایا کرتی تھیں۔ تب تعلیم کے لئے لڑکے یا لڑکی کے ایم اے کرنے اور نوکری کے حصول کا انتظار نہیں کیا جاتا تھا بلکہ شادی کے لئے بالغ ہونا ہی کافی ہوتا تھا۔ جیسے ہی شادی کی جاتی لڑکے کو خود ہی کام کاج کی فکر لاحق ہو جاتی اور وہ اس فکر کے باعث روزگار کمانے میں کامیاب ہو جاتا۔ آج کل سلسلہ مختلف ہے۔ لڑکے پہلے اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں۔ اس کے بعد نوکری ڈھونڈتے ہیں۔ جواب ملتا ہے: تجربہ کار بندہ چاہیے‘ ہمارے پاس تو دس دس سال کے تجربہ کار قطار میں انٹرویوز دینے کھڑے ہیں۔ نوجوان چاروناچار انتہائی کم پیسوں یا بغیر تنخواہ کے بھی نوکری کرنے پر راضی ہو جاتے ہیں اور تجربہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پانچ چھ برس یونہی گزر جاتے ہیں لیکن تنخواہ اتنی معقول نہیں ہو پاتی کہ لڑکی والے مان جائیں۔ دوسری جانب لڑکیاں بھی ماسٹرز اور پھر نوکری کرنے کے چکر میں ہوتی ہیں۔ اس کے بعد لڑکی کے والدین کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ لڑکے کا اپنا گھر‘ اپنی گاڑی‘ اچھی نوکری یا کاروبار ہو‘ لڑکے کی کوئی بہن نہ ہو اور اگر ہو تو اس کی شادی پہلے ہی ہو چکی ہو‘ لڑکا سرکاری ملازم ہو‘ کچھ زمینیں وغیرہ بھی ہوں تو اچھا ہے‘ بیرون ملک آتا جاتا رہتا ہو تاکہ باہر سیٹل ہونا پڑے تو آسانی ہو وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کی شرائط جب پوری نہیں ہوتیں تو لڑکیوں کی شادی کی عمر بھی گزرجاتی ہے اور یوں سب ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔
اسد اور نمرا نے بروقت شادی کر لی‘ دونوں نے غلط راستے پر چلنے کی بجائے بروقت درست فیصلہ کیا اور اس پر عمل بھی کر لیا۔ اسے ایک بڑا طبقہ تنقید کی نظر سے دیکھ رہا ہے۔ شاید یہ طبقہ چاہتا ہے کہ معاشرے میں بے حیائی پھیلتی رہے‘ نوجوان لڑکے لڑکیاں بغیر شادی کے راہ و رسم بڑھاتے رہیں اور مغرب کی طرح ہمارا خاندانی نظام بھی تباہ و برباد ہو کر رہ جائے۔ شادی کو لڑکے کی اچھی نوکری وغیرہ سے جوڑنا بری بات نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ انسان اپنے روزگار کے حصول کے لئے سنجیدہ کب ہوتا ہے؟ احساس ذمہ داری کسی بھی وجہ سے آ سکتی ہے۔ اچھا لائف سٹائل اپنانے کی خواہش اگر آپ کے دل میں جاگتی ہے اور آپ اسے حاصل کرنے کیلئے دن رات ایک کر سکتے ہیں تو پھر آپ کو یہ چیزیں حاصل کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ آپ بہت سے کم عمر بچوں کو روزگار کماتے دیکھتے ہوں گے۔ یہ شادی کیلئے ایسا نہیں کرتے بلکہ ان کے گھر یا تو کوئی کمانے والا نہیں ہوتا یا پھر سب کا کام کے بغیر گزارہ نہیں ہوتا۔ جیسے جیسے وہ معاشی بوجھ کم کرنے کیلئے اپنا کام بڑھاتے ہیں زندگی جینے کا سلیقہ انہیں آجاتا ہے۔ ہمارے ہاں معاشرہ مختلف طبقات میں بٹا ہوا ہے۔ ایک طبقہ وہ تھا جس کا میں نے اوپر ذکر کیا کہ جسے دو وقت کی روٹی کمانے کے لالے پڑے ہوتے ہیں۔ اس خاندان میں بچوں تک کو بڑوں جیسی ذمہ داریاں ادا کرنا پڑتی ہیں۔ ایک طبقہ وہ ہے جو اپنے بچوں کو کچھ نہیں کرنے دیتا بلکہ ہر چیز لا لا کر ان کی چونچ میں ڈالتا رہتا ہے۔ پھر جب بچوں کی اڑان کا وقت آتا ہے تو وہ پروں کو پھڑپھڑانے کے باوجود اُڑ نہیں پاتے۔ ان کے والدین نے اگر انہیں چھوٹے موٹے تجربات سے گزارا ہوتا تو وہ یوں ناکام نہ ہوتے۔ ایسے بچے تعلیم مکمل کرنے کے دس سال بعد بھی خود کو شادی کیلئے معاشی طور پر سیٹ نہیں کر پاتے۔ وہ سمجھتے ہیں‘ لڑکی گھر آ گئی تو پتا نہیں کتنا خرچ بڑھ جائے گا‘ حالانکہ ایک لڑکی گھر میں آ کر کتنا کھانا کھا جائے گی۔ کیا وہ گھروں کی دیواریں اور فرنیچر کھانا شروع کر دے گی۔ شادی کے اخراجات کا ڈراوا ہم نے خود پر خود ہی مسلط کر رکھا ہے۔ ہمیں کس نے کہا ہے کہ لڑکی والوں سے جہیز مانگیں یا پھر شادی کے موقع پر ہر وہ فضول خرچی کریں جو معاشرے میں کی جا رہی ہے۔ بارات کے آنے پر گھوڑے نچانے‘ ڈھول بجانے اور بھنگڑا ڈالتے نوجوانوں پر نئے کرنسی نوٹ پھینکنے کا کس حدیث یا کسی فقہ میں لکھا ہے؟ کس نے کہا ہے کہ لڑکی دو اڑھائی لاکھ والا لہنگا پہنے۔ جو سوٹ زندگی میں ایک مرتبہ پہننا ہے وہ کرائے پر لے کر کیوں نہیں پہنا جا سکتا۔ آخر شادی کا ہال بھی تو کرائے پر لیا جاتا ہے۔ کبھی کسی نے کہا ہے کہ شادی ہال اپنا خریدو پھر شادی ہو گی۔ امریکہ میں ایک سٹور ایسا ہے جس میں آپ کوئی بھی جیکٹ یا پہناوے کی چیز خریدیں آپ زندگی میں جب مرضی آ کر واپس کریں آپ کو سو فیصد ریفنڈ مل جائے گا۔ اس سٹور کی پورے امریکہ میں گیارہ سو برانچیں ہیں اور یہ امریکہ کے دس بڑے شاپنگ سٹورز میں شمار ہوتا ہے۔ اگر امریکی ایک دوسرے کے کئی کئی ماہ استعمال شدہ کپڑے خرید کر پہن سکتے ہیں تو ہم لاکھوں کے جوڑے ایک دن کرائے پر کیوں نہیں لے کر پہن سکتے۔ ہم نے خود شادی کو اتنا مشکل اور مہنگا بنا دیا ہے کہ شادی کا نام ذہن میں آتے ہی خوف آنے لگتا ہے۔ یقین کریں اتنا خرچ دولہا دلہن اگلے پانچ برس میں نہیں کرتے جتنا شادی کے دو تین روز میں کر دیا جاتا ہے۔ آپ خود اپنی الماری دیکھیں کہ شادی کے جوڑے آپ نے دوبارہ کب پہنے تھے۔ یہ تو صرف کپڑوں کی بات تھی‘ سینکڑوں ایسے اور اخراجات ہیں جس کی وجہ سے ہم شادی جیسی سنت میں خود رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے دوست یاسر شامی نے ایک ویڈیو میں اس جوڑے سے بڑی خوبصورت بات کہی کہ نکاح معاشرے سے بدکرداری‘ زنا اور بدفعلی کو ختم کرتا ہے اور نمرا اور اسد نے شادی کرکے دراصل معاشرے کو یہ پیغام دیا ہے کہ چھپ کر راہ و رسم بڑھانے اور غلط راستوں پر چلنے کی بجائے سیدھا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور اگر آپ کا کسی کے ساتھ کوئی تعلق ہے تو اسے چھپانے کی بجائے گھر والوں کو بڑے تحمل سے بتائیے۔ لڑکیاں بھی لڑکوں کی باتوں اور چکروں میں آنے کی بجائے انہیں اپنے خاندان کو قائل کرنے اور سامنے لانے پر راضی کریں وگرنہ کسی کے جھانسے میں آئیں اور نہ ہی کوئی تعلق اختیار کریں کیونکہ جو لڑکا نکاح کا صرف جھانسہ دے کر تعلق استوار کرتا ہے اور یہ کہہ کر وقت گزارتا ہے کہ گھر والے نہیں مان رہے یا ابھی میں معاشی طور پر سیٹ نہیں ہوا تو پھر ایسے لڑکے سے فوری قطع تعلق کر دیں اس لئے کہ یہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ آج کل انٹرنیٹ اور موبائل نے میل میلاپ بہت آسان کر دیا ہے۔ فحش فلموں اور پرینک کی غلیظ قسموں نے نوجوانوں کے دماغوں کو آلودہ کر دیا ہے۔ ایسے ماحول میں ہونے والی طویل دوستیاں رکھنا کسی طور بھی مناسب نہیں۔ والدین کو بھی چاہیے کہ وہ بچوں کی شادی کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں کیونکہ اس طرح وہ خود اپنے بچوں کو غلط راستوں پر جانے کا موقع دینے کا باعث بنیں گے۔ شادی ہوتی ہے تو ذمہ داری بھی آ جاتی ہے۔ رازق خدا کی ذات ہے۔ ویسے بھی لڑکی اپنی قسمت کا لے کر آتی ہے اس لئے اچھی نوکری یا لائف سٹائل کو شادی سے مشروط کرنا درست نہیں وہ بھی آج کے دور میں جب گناہ کے مواقع آسانی سے میسر ہیں۔ معاش‘ نوکری‘ بینک بیلنس‘ کاروبار‘ بہترین لائف سٹائل کی خواہشات اور شرائط اپنی جگہ لیکن یاد رکھیں عزت سے بڑی کوئی چیز نہیں‘ عزت کا ستون اگر درمیان سے نکل جائے تو بڑی سے بڑی اور پختہ سے پختہ عمارت کو بھی زمین بوس ہونے میں دیر نہیں لگتی۔