یُو ٹیوب پر موٹو پتلو کارٹون بچوں میں بہت معروف ہیں۔ کارٹون کی ہر سٹوری میں جب موٹو نے کوئی مشکل کام یا مشن پورا کرنا ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے: یار پتلو مجھے سخت بھوک لگی ہے‘ میرے دماغ کی بتی نہیں جل رہی‘ پہلے میرے دماغ کا علاج کرو پھر میں اس مشکل سے نکلنے کے بارے میں سوچنے کے قابل ہوں گا۔ موٹو کو سموسے بہت پسند ہیں۔ پتلو اس کے لئے دس پندرہ گرماگرم سموسے لاتا ہے‘ موٹو جیسے ہی یہ سموسے اپنے پیٹ میں انڈیلتا ہے اس کے جسم میں گویا بجلی بھر جاتی ہے اور وہ ناممکن کام بھی کرکے دکھا دیتا ہے۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ جب پیٹ خالی ہو تو دماغ واقعی کام نہیں کرتا‘ چاہے بچہ ہو یا بڑا۔ کچھ لوگ کام کے ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ کھاتے رہیں تو ہی بہتر انداز میں کام کر پاتے ہیں۔ بعض لوگ پیٹ بھر کر کھانا کھا لیں تبھی کام پر جانے کے قابل ہوتے ہیں لیکن کیسی حیرانی کی بات ہے کہ کروڑوں کی تعداد میں روزانہ سکول جانے والے بچے یا تو ناشتہ کرکے نہیں جاتے اور اگر کرتے بھی ہیں تو اتنی جلدی جلدی میں اور اتنا کم کہ اس سے انہیں پوری انرجی بھی حاصل نہیں ہوتی۔ بچہ ناشتہ نہیں کرکے جاتا‘ یہ تقریباً ہر گھر کا مسئلہ ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ صبح ناشتے کے وقت بچوں کے سامنے آپ وہی برگر‘ پیزا یا سموسے رکھ دیں جو دیگر اوقات میں وہ بڑے ذوق و شوق سے کھاتے ہیں‘ تو وہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھیں گے۔ سکول جلدی جلدی پہنچنے کی ٹینشن‘ پڑھائی کا دبائو اور اول آنے کے چکر نے بچوں کی جسمانی و دماغی صحت کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔
برطانوی غذائی فائونڈیشن کے مطابق برطانیہ میں ہر چار میں سے ایک بچہ بغیر ناشتے کے سکول جاتا ہے اور پانچ سے سولہ برس کی عمر کے پینسٹھ فیصد بچے مطلوبہ مقدار میں پانی نہیں پیتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس دن برطانیہ کے سکول میں اس حوالے سے ایک سروے کیا گیا اس دن اس سکول کے چوبیس فیصد بچے بغیر ناشتے کے سکول آئے تھے جبکہ چودہ فیصد اساتذہ نے بھی اس صبح ناشتہ نہیں کیا ہوا تھا۔ برطانیہ میں بچوں میں غذائی ضروریات کے حوالے سے ایک مہم چلائی جا رہی ہے جس میں بچوں کو کھانے پینے اور جسمانی ورزش کے بارے میں آگاہی دی جا رہی ہے۔ برطانوی جریدے انڈیپنڈنٹ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق صبح ناشتہ کرکے سکول جانے والے بچے دیگر بچوں کی نسبت پڑھائی میں دوگنا بہتر کارکردگی دکھاتے ہیں۔ یونیورسٹی آف لیڈز برطانیہ میں کی گئی تحقیق کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ سکول ناشتہ نہ کرکے جانے والے بچوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ سروے کرنے والے ماہرین نے انگلینڈ کی حکومت سے ہر سرکاری سکول اور کالج میں طالبہ کو مفت ناشتہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ فی الوقت برطانوی حکومت بہت سے علاقوں میں ہزاروں سکولوں کے طلبہ کو ناشتہ مفت فراہم کر رہی ہے۔ یونیورسٹی آف لیڈز سکول کی تحقیق کے سربراہ نے بھی انکشاف کیا ہے کہ دماغ کو کارکردگی کے لیے ایندھن یعنی غذا کی ضرورت ہوتی ہے اور جو طلبہ ناشتہ کیے بغیر سکول جاتے ہیں وہ صحیح طور پر دماغ کا استعمال نہیں کر پاتے۔ وہ پہلے بھی اس پر تحقیق کر چکے ہیں کہ ناشتہ کرکے جانے والے بچے کے امتحانات میں نتائج مثبت ہوتے ہیں، اس بچے کے مقابلے میں جو ناشتہ نہیں کرکے جاتا۔ ناشتہ کرکے آنے والے بچوں کا جسم زیادہ تندرست ہوتا ہے وہ بات جلدی سمجھ جاتے ہیں۔
برطانیہ جیسے ملک میں اگر بچوں کا یہ حال ہے تو پاکستان میں صورت حال کیا ہو گی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ زیادہ نمبر لینے کی دوڑ میں لگے یہ بچے جسمانی افزائش کی عمر میں غذائی ضروریات پوری نہیں کر پاتے۔ ذرا سوچیں یہ روزانہ بھاری بھرکم سکول بیگ اٹھا کر خالی پیٹ سکول پہنچتے ہوں گے تو کیسے پڑھائی میں مغز ماری کر پاتے ہوں گے؟ جس طرح ایک بالغ انسان کے لئے دن بھر میں درکار توانائی کے حصول کی خاطر ناشتہ کرنا انتہائی ضروری ہوتا ہے‘ بالکل اسی طرح بچوں کو بھی ناشتہ کی عادت ضرور اپنانی چاہئے کیونکہ ان کے بڑھتے ہوئے جسم اور دماغی نشوونما کے لئے ضروری ہے کہ وہ روزانہ باقاعدگی سے ناشتہ کریں۔ نہ صرف ناشتہ بلکہ دن کے دیگر اوقات میں بھی کھانے پینے کو اپنے روزمرہ معمول کا حصہ بنائیں۔ ناشتہ رات بھر کے خالی جسم کو ایندھن فراہم کرتا ہے جو دن بھر آپ کے بچے کو بھرپور توانائی فراہم کرنے کا سبب بنتا ہے۔ ایک مکمل ناشتہ‘ جس میں ہر چیز متوازن ہو‘ آپ کے دماغ اور جسم کو ری چارج کرنے کا کام کرتا ہے۔ اس کی بدولت آپ دن بھر ہر کام مستعدی اور تیزی سے کرتے ہیں اور ہر لمحہ خود کو چاق چوبند محسوس کرتے ہیں۔ جو بچے صبح کا ناشتہ نہیں کرتے وہ سکول میں اکثر غائب دماغ رہتے ہیں اور ان کی کارکردگی پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ناشتہ کیسا ہونا چاہیے‘ کتنا ہونا چاہیے اور اس میں ایسا کیا ہو کہ انسان باقی دن کمزوری محسوس نہ کرے۔ اس حواے سے یہ کہاوت کافی ہے کہ ناشتہ کسی بادشاہ‘ دوپہر کا کھانا شہزادے اور رات کا کھانا کسی فقیر کی طرح کھائیں۔ ہمارے ہاں یہ ساری ترتیب الٹ ہے۔ ہم صبح کا ناشتہ کسی فقیر کی طرح کرتے ہیں جبکہ صبح کے وقت ہمارے جسم کو سب سے زیادہ غذا درکار ہوتی ہے کیونکہ ہم نے کھا کر چلنا پھرنا اور دوسرے جسمانی کام کرنے ہوتے ہیں۔ آپ یہ سمجھ لیں کہ ناشتہ دوپہر کے کھانے کی نسبت مقدار میں دوگنا ہونا چاہیے۔ آپ صبح دو پراٹھے یا تین روٹیاں کھا لیں تو یہ آپ کی صحت کے لئے مفید ہی ثابت ہوں گے کیونکہ آپ کا یہ کھانا چلتے پھرتے ہضم ہو جائے گا۔ دوپہر کو آپ اس سے آدھی خوراک کر لیں۔ اگر صبح تین روٹیاں کھاتے ہیں تو دوپہر کو ڈیڑھ کھا لیں۔ اس طرح رات کو جو کھائیں وہ دوپہر سے آدھا ہونا چاہیے۔ رات کے وقت ایک روٹی بہت ہوتی ہے۔ لیکن اگر آپ اس روٹین کے الٹ چلیں گے جیسے صبح آدھی روٹی کھا لی‘ دوپہر کو دو اور رات کو تین تو پھر آپ کا ہاضمہ تو خراب ہو گا ہی اس کے ساتھ درجنوں نئی بیماریاں بھی لاحق ہو سکتی ہیں۔ رات کو انسان کا جسم ویسے ہی تھک چکا ہوتا ہے اوپر سے اگر آپ ہیوی کھانا کھا لیں گے تو آپ فوری غنودگی کے نرغے میں آ جائیں گے اور بمشکل کھانے کی ٹیبل سے بستر پر پہنچ کر وہیں دراز ہو جائیں گے۔ یہ عادتیں ہمیں ایک دن میں نہیں پڑیں بلکہ برسوں سے ہر گھر میں یہی کچھ ہو رہا ہے اور اس کا آغاز بچپن میں سکول کے ادھورے ناشتے سے ہوتا ہے۔ بچے سکول میں صرف پڑھائی نہیں کرتے بلکہ بریک میں کھیلتے ہیں اس کے علاوہ سپورٹس میں بھی حصہ لیتے ہیں اس لئے انہیں بھرپور ناشتے کی کسی بڑے انسان سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ ان کے گروتھ کے دن ہوتے ہیں اور اس عمر میں وہ جو کچھ کھا لیں گے وہ ان کے بدن کا فوری حصہ بن جائے گا۔ ہمارے سکولوں اور کالجوں میں کبھی بھی اس طرف دھیان نہیں دیا جاتا۔ باقی ہر طرح کے لشٹم پشٹم تقاضے پورے کر لئے جاتے ہیں‘ مہنگے سے مہنگا سکول‘ یونیفارم‘ سکول بیگ‘ کتابیں ہر طرف والدین اور اساتذہ کا دھیان ہوتا ہے لیکن یہ پتہ نہیں ہوتا کہ بچہ اندر سے کس قدر کھوکھلا ہے اور اس غریب پر خالی پیٹ کتابوں کا بوجھ ڈال کر اس پر کس قدر ظلم کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے باقاعدہ قانون سازی ہونی چاہیے اور فوری طور پر پہلا کام یہ ہونا چاہیے کہ سکول جانے کا وقت نو بجے رکھا جائے۔ اس طرح بچے آرام سے اٹھ کر ناشتہ کر سکیں گے اور ان کے والدین دفتر جانے سے قبل انہیں سکول بھی چھوڑ دیں گے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بہتر ناشتہ کرنے والے بچے کو اس کے نمبر دئیے جائیں‘ اس طرح تو ضرور بچے ناشتہ کر لیں گے۔ والدین ناشتہ کرتے ہوئے بچوں کی چھوٹی سی ویڈیو بنا کر سکول کو وٹس ایپ کر دیں تو ثبوت بھی ہو جائے گا اور بچوں کا ناشتہ بھی۔ جب پیٹ بھرا ہو گا تو بچوں کے دماغ کی بتی بھی بہتر طور پر جل پڑے گی اور وہ مشکل سے مشکل کام اور اسائنمنٹ بھی آسانی سے کر لیں گے۔