کورونا وائرس کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ اٹھائیس فروری کو ڈالر ایک سو چوّن روپے میں ٹریڈ ہو رہا تھا‘ تیرہ روپے کے اضافے سے گزشتہ روز یہ ایک سو سڑسٹھ تک پہنچ چکا ہے جس سے پاکستان کے بیرونی قرضوں کے ساتھ ساتھ مہنگائی میں بھی ہوشربا اضافہ متوقع ہے۔ کہیں سے کوئی خیر کی خبر نہیں آ رہی۔ مارکیٹوں میں کورونا کی خبر آنے کے ساتھ ہی سناٹا شروع ہو چکا تھا‘ اب بڑے بڑے برانڈز کے سٹور بند ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ پٹرول کی قیمت سو روپے سے کم ہو چکی ہے لیکن پٹرول ڈلوانے والا کوئی نہیں۔ اسی لئے حکومت نے پٹرول کی درآمد کچھ ماہ کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لاک ڈائون کے باعث دودھ کی طلب کم ہونے سے دودھ بھی سستا ہو گیا ہے۔ اگلا بحران جو سر اٹھانے والا ہے وہ لیکویڈٹی کا ہے۔ لوگوں کے پاس کیش کی کمی ہونے والی ہے بلکہ ہو چکی ہے۔ جن لوگوں کے پیسے بینکوں میں ہیں وہ خود کو کچھ محفوظ تصور کر رہے ہیں لیکن جن کے پاس روزگار اور کیش موجود نہیں ان کے لئے حالات تشویشناک ہو سکتے ہیں۔ وہ اگر اپنی کوئی چیز بیچ کر کیش میں تبدیل کرنا بھی چاہیں تو نہیں کر سکتے کیونکہ گولڈ سے لے کر گاڑیوں تک پراپرٹی سے لے کر الیکٹرانکس مارکیٹس تک سب کچھ بند ہے۔ اب تو سب کی نظر اگلے دو ہفتوں پر ہے۔ اگر تو ان دو ہفتوں میں پاکستان میں وائرس کے کیسز کی شرح گرنا شروع ہو جاتی ہے تو سمجھیں ہم اس بحران سے نکل جائیں گے۔ زیادہ سے زیادہ اپریل کے مزید ایک سے دو ہفتے مزید کاروبار بند رہے گا اور اس کے بعد جزوی طور پر سب کچھ کھلنا شروع ہو جائے گا اور ایک ڈیڑھ ماہ میں ہم اپنی زندگی میں واپس آ جائیں گے؛ تاہم نئی زندگی بھی کچھ آسان نہیں ہو گی کیونکہ اس وائرس کے بعد دوبارہ غیر ذمہ داری اور بے احتیاطی کی روٹین اپنانا سراسر اس بحران کو دوبارہ سر اٹھانے کی دعوت دینے کے مترادف ہو گا۔ سب سے زیادہ سختی ایئرپورٹس پر ہو گی اور مسلسل رہنی چاہیے۔ خبر آ رہی ہے کہ جنوبی کوریا نے کورونا کی ایسی ٹیسٹنگ کٹ بنا لی ہے جس کا رزلٹ صرف پندرہ منٹ میں آ جاتا ہے۔ چونکہ یہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے اس لئے پوری دنیا اس کے توڑ اور اس سے متعلقہ ایجادات میں لگی ہے۔ جب اس کا ٹیسٹ آسان‘ سستا‘ فوری اور ہر کسی کی پہنچ میں ہو گیا تب اس بیماری سے مقابلہ کرنا آسان ہو جائے گا۔ جس شخص میں یہ پازیٹو آیا وہ چودہ دن کے لئے گھر میں علیحدہ ہو جائے گا۔ چین نے اس وائرس کو جدید ٹیکنالوجی سے کنٹرول کیا۔ ووہان میں شہریوں کے موبائل فونز میں لوکیشنز کو آن رکھنے کی پابندی تھی۔ جس شہری کا ٹیسٹ پازیٹو آتا تھا یا جس میں علامات ظاہر ہوتی تھیں اسے سرخ اور پیلے رنگ سے نمایاں کر دیا جاتا تھا۔ وہ اگر نقل و حرکت کرتا تھا تو اسے سیٹلائٹ کمانڈ اینڈ کنٹرول سے براہ راست دیکھا جا سکتا تھا۔ جو شخص کلیئر قرار پاتا تھا سکرین پر اس کا نقطہ سبز رنگ کا ہو جاتا تھا اور وہ نقل و حرکت میں آزاد ہوتا تھا۔ یوں چین نے ٹیکنالوجی کی مدد سے اس بیماری پر قابو پایا لیکن اس کی بنیاد وہی تھی یعنی چودہ دن کیلئے تنہائی سب کیلئے ضروری تھی۔ باقی چیزیں اس کے بعد آتی تھیں۔
باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی پچانوے فیصد کاروبار بند ہو چکے ہیں۔ صرف ہسپتال‘ میڈیکل سٹورز‘ جنرل سٹورز‘ بیکریاں‘ چکن کی دکانیں کھلی ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر ان میں بھی اتنا رش نہیں ہے جتنا کورونا اور لاک ڈائون کے خوف سے ہونا چاہیے تھا۔ امریکہ میں تو سپر سٹورز کے باہر دو دو کلومیٹر طویل قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ وہاں ننانوے فیصد خریداری کریڈٹ کارڈز پر ہوتی ہے اس لئے لوگ ٹرالیاں بھر بھر کے سامان جمع کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ امریکہ کو اس وائرس کا موجد بتاتے تھے لیکن خود امریکہ بری طرح اس کی لپیٹ میں آ چکا ہے اور وہاں ایک ہزار ہلاک اور ساٹھ ہزار کورونا سے متاثر ہو چکے ہیں۔سب سے زیادہ اموات اٹلی اور سپین میں ہو رہی ہیں۔ بھارت اور پاکستان میں یہ وائرس ابھی قدرتی طور پر کنٹرول میں ہے۔ یہ تو آنے والا وقت یعنی دو سے تین ہفتے ہی بتائیں گے کہ یہ واقعتاً کنٹرول میں ہے یا پھر اس دوران خدانخواستہ کیس اٹلی اور سپین کی طرح ڈبل ٹرپل ہو جاتے ہیں کیونکہ جس طرح ہمارے عوام چین سے گھر نہیں بیٹھ رہے وہاں بھی لوگ حکومتی تنبیہ کو خاطر میں نہیں لا رہے تھے۔ جس دوران انہیں گھروں میں بیٹھنا چاہیے تھا وہ بازاروں اور تفریح گاہوں میں گھوم رہے تھے یوں یہ سب اس اَن دیکھے وائرس کے کیریئر بنتے چلے گئے اور جب دو ہفتے مزید گزرے تو ان ہزاروں افراد میں بھی کورونا کی علامات سامنے آ گئیں‘ اس دوران مگر یہ اپنے بزرگوں سے بھی ملتے رہے یوں یہ بزرگ کمزور ایمیون سسٹم کے باعث جان کی بازی ہارتے گئے اور اٹلی سے بھیانک کہانیاں سامنے آنے لگیں۔ ہم اٹلی کے نقش قدم پر چل کر موت کے گڑھے میں گرنا چاہتے ہیں یا پھر جنوبی کوریا اور چین کی طرح اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہتے ہیں‘ اس کا فیصلہ ہمارے عوام کو کرنا ہو گا کیونکہ یہ واحد جنگ ہے جو عوام نے جیتنی ہے اور عوام نے ہی ہارنی ہے۔
ہمیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہم مسلمان ملک ہیں اور ہمارے دین نے ہمیں طہارت اور پاکیزگی کا حکم دیا ہے۔ ہم پانچ وقت وضو کریں‘ روزانہ نہائیں تو ہم مغربی ممالک کی نسبت کہیں زیادہ ایسی بیماریوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ مغرب میں تو ٹوائلٹس میں پانی کا بھی خال خال ہی استعمال اور انتظام ہوتا ہے۔ ہر کام کے لئے ٹشو پیپر استعمال ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بحران کے دوران بیرون ممالک میں ماسک اور سینیٹائزرز کے بعد سب سے زیادہ جس چیز کی طلب میں اضافہ ہوا وہ ٹشو پیپر کے رول تھے۔ خدشہ ہے ان ممالک میں رفع حاجت وغیرہ کے لئے پانی کے کم استعمال کی وجہ سے ہی یہ وائرس تیزی سے پھیلا۔ پاکستان کے چند علاقوں کو چھوڑ کر کہیں بھی پانی کی کمی نہیں بلکہ ہم تو پانی ضائع کرنے والی قوموں میں شاید صف اول پر ہیں۔ آج ہمیں اس پانی کی قدر معلوم ہوئی ہے‘ بلکہ پانی ہی نہیں ہر چیز کی قدر اس وائرس نے ہمیں سکھا دی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے لاک ڈائون کے برعکس ہم اب بھی بہت اچھے حالات میں رہ رہے ہیں لیکن کشمیری مسلمانوں کیلئے ہم کچھ نہیں کر سکے۔ حکومت کو اس موقع پر کشمیر کا مسئلہ دوبارہ سے اجاگر کرنا ہو گا کیونکہ انسان کو کسی تکلیف کا احساس اسی وقت ہوتا ہے جب وہ اس تکلیف سے گزرتا ہے۔ پوری دنیا گھروں میں قید ہے اور باہر نکلنے پر کشمیریوں کی طرح سکیورٹی فورسز سے ڈنڈنے کھانے‘ جرمانے بھگتنے اور جیلوں میں بند ہونے پر مجبور ہے۔ خود بھارت میں لوگ اپنی فوج کے ہاتھوں اسی طرح ماریں کھا رہے ہیں‘ جیسے ان کے فوجی کشمیرمیں ظلم کر رہے ہیں۔ یہ سب کشمیری عوام عشروں سے بھگت رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان مسئلہ کشمیر کو اس موقع پر اجاگر کریں گے تو یہ مسئلہ پوری دنیا کو سمجھ آ جائے گا۔ باقی دنیا کی طرح پاکستانی عوام کے لئے یہ دن بڑے سخت ہیں۔ لوگوں کے پاس روزگار‘ کیش اور کچن کا راشن ختم ہو رہا ہے۔ اوپر سے بجلی‘ گیس کے بل اور سکولوں کی فیسیں آنے والی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ نجی سکولوں کو اس بات کا پابند بنائے کہ اگلے دو ماہ کی فیسیں نہ لی جائیں کیونکہ ایک تو یہ کہ چھٹیاں ہو چکی ہیں‘ سکولوں میں بجلی وغیرہ بھی استعمال نہیں ہوئی‘ دوسرا والدین کے پاس اتنا کیش نہیں کہ وہ فیسیں دینے کے بعد گھر کا راشن چلا سکیں۔ دو ماہ کی فیسیں نہ لینے سے نجی تعلیمی شعبے کو اتنا نقصان نہیں پہنچے گا جتنا کہ دو ماہ کی فیسیں دینے کے بعد والدین کی جیبیں خالی ہونے سے انہیں مصیبتیں اٹھانا پڑیں گی۔ دائیں بائیں گھروں کا بھی خیال کریں اور ان سے بھی اشیائے خورونوش وغیرہ شیئر کرتے رہیں۔ خاص طور پر ان سفید پوشوں کا جنہیں اپنے لئے چیزیں مانگتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے۔ ہمیں مل جل کر اس آفت کا مقابلہ کرنا ہے اور اس میں جو کوئی جتنا دل کھلا کرے گا اتنا ہی نیکی کمائے گا کیونکہ خلق خدا اس وقت بری طرح مصیبت سے دوچار ہے‘ خدا سے استغفار اور توبہ کے ساتھ ساتھ مشکل میں گھرے اپنے ہم وطنوں کے کام آ کر ہم کورونا وائرس کو شکست دے سکتے ہیں۔