جس کا ڈر تھا وہی ہوا۔ امریکہ میں سولہ مارچ کو تیرہ دن قبل کورونا کے مریضوں کی تعداد بارہ سو تھی اور بائیس افراد ہلاک ہوئے تھے۔ گزشتہ روز صرف بارہ دن بعد امریکہ میں کورونا مریضوں کی تعداد بارہ سو سے بڑھ کر ایک لاکھ بیس ہزار ہو چکی تھی اور مرنے والوں کی تعداد بائیس سے دو ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ یوں صرف بارہ دنوں میں کورونا مریضوں کی تعداد میں سو فیصد اضافہ ہوا اور مرنے والوں کی تعداد سات فیصد بڑھ گئی۔ یہ ایک ایسے ملک کی کہانی ہے جو دنیا میں خود کو سپر پاور کہلواتا ہے‘ مگر چین‘ ایران اور اٹلی کی کورونا وائرس سے تباہی کے باوجود پیشگی سامان نہیں کر سکا۔ ذرا سوچیں اگر امریکہ جیسا ملک اس قدر حساس معاملے میں مغالطہ کھا سکتا ہے تو باقی ممالک کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے‘ اس کا اندازہ انہیں ہو جانا چاہیے۔ ہم سندھ میں دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ سختی دیکھ رہے ہیں لیکن کل حیدر آباد سے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر ہوئی جس میں ایک پررونق بازار شہریوں سے بھرا نظر آ رہا تھا اور اگر ویڈیو بنانے والا شخص ساتھ ساتھ یہ نہ بتاتا کہ یہ لوگ لاک ڈائون میں پھرتے نظر آ رہے ہیں تو کوئی یقین نہیں کر سکتا تھا کہ یہ ویڈیو لاک ڈائون سے پہلے کی ہے یا اس دوران کی۔ بیشتر علاقوں کا یہی حال ہے۔ آپ اسلام آباد کو دیکھ لیں۔ بارہ کہو اسلام آباد کا حصہ ہے۔ یہاں نسبتاً غریب طبقہ آباد ہے اور بے ہنگم انداز میں۔ اسلام آباد میں دیگر علاقوں کی نسبت سب سے تاخیر سے لاک ڈائون کیا گیا۔ صرف دفعہ ایک سو چوالیس نافذ کی گئی جس کی شہریوں نے کوئی پروا نہیں کی۔ جس کے بعد ایک کے بعد کورونا کے کیس مختلف بستیوں اور علاقوں میں سامنے آنے لگے۔ پہلے بارہ کہو اور پھر شہزاد ٹائون اور دیگر سیکٹرز کو قرنطینہ قرار دے کر لاک ڈائون کر دیا گیا۔ اب حالت یہ ہے کہ پورے ملک میں جہاں جہاں کیس نکلتے جا رہے ہیں ان ان علاقوں کو مکمل طور پر بند کیا جا رہا ہے۔ یہ سٹریٹیجی کتنی کامیاب ہوتی ہے یہ آنے والے دو سے تین ہفتوں میں سامنے آ جائے گا لیکن ہمیں اور ہماری حکومت کو ایک بات بہرحال نہیں کرنی چاہیے اور وہ یہ کہ ہم دیگر ملکوں کے مقابلے میں بہتر ہیں کہ ہمارے کیس اب بھی کم ہیں۔ امریکہ‘ اٹلی میں بھی وہاں کی حکومتیں سولہ مارچ تک یہی کہہ رہی تھیں کہ ہمارے کیس تو محض ایک ہزار ہیں‘ لیکن اسی امریکہ میں سب نے دیکھا کہ صرف دس بارہ دنوں میں گراف کا رخ زمین سے سیدھا آسمان کی طرف ہو گیا اور آج امریکہ میں نیویارک سمیت چند دیگر ریاستوں کو قرنطینہ قرار دینے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر برطانیہ ہے۔ یہ یورپ کا سب سے جدید اور طاقتور ملک سمجھا جاتا ہے۔ گزشتہ روز برطانیہ کے چیف ہیلتھ ایڈوائزر نے ایک پریس کانفرنس کی اور ایک ایسا بیان دیا جس نے پوری دنیا کو دانتوں میں انگلیاں چبانے پر مجبور کر دیا۔ اس نے کہا: برطانیہ میں کورونا کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اگر ہم برطانیہ میں کورونا سے اموات کو بیس ہزار تک روک لیتے ہیں تو یہ بڑی کامیابی ہو گی۔ یہ بیان کسی بم شیل سے کم نہیں تھا کیونکہ چین‘ جہاں سے یہ وائرس نکلا‘ بھی اموات کو تین ہزار تک روکنے میں کامیاب ہو گیا جبکہ اٹلی میں اب تک دس ہزار‘ سپین میں چھ ہزار اور ایران میں اڑھائی ہزار لوگ جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ برطانوی حکام نے ایسا سچ بولا ہے جسے سننے کے لئے کسی بھی ملک کا شہری تیار نہیں ہو سکتا‘ لیکن یہ سچ انہوں نے براہ راست پریس کانفرنس میں پوری دنیا کے سامنے بولا۔ جس ملک کے پرنس سے لے کر ایوان اقتدار میں موجود اہم شخصیات تک کورونا کا شکار ہو چکے ہوں وہاں پر اس سچ پر یقین کرنا ہی پڑے گا۔ ہو سکتا ہے برطانوی حکام نے یہ سچ اس لئے بولا ہو کہ غیر سنجیدہ برطانوی شہری محتاط ہو جائیں اور اتنی بڑی اموات کا سن کر گھروں میں دبک جائیں؛ تاہم اگر اٹلی کو دیکھا جائے تو یہ تعداد کچھ ایسی غلط بھی معلوم نہیں ہوتی۔ ابھی تو برطانیہ نے دیگر یورپی ممالک کے ساتھ سرحدیں بند کر دی ہیں‘ وگرنہ یہ تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہو سکتی تھی؛ چنانچہ جس ملک میں بھی دیکھیں احتیاط کے سوا کوئی ہتھیار کارگر ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔
سب سے خطرناک چیز جو سامنے آ رہی ہے‘ کورونا کی نئی نئی قسمیں ہیں۔ کہا جا رہا ہے‘ پاکستان میں کورونا چین اور ایران سے مختلف ہے۔ سندھ حکومت کے وزیر تعلیم سعید غنی اس کی ایک مثال ہیں۔ ان کے دو مختلف لیبارٹری ٹیسٹ مثبت آ چکے ہیں لیکن ان میں کھانسی‘ بخار‘ زکام سمیت کوئی بھی علامت نمودار نہیں ہوئی۔ یہ کورونا کی کون سی قسم ہے‘ خدا ہی جانتا ہے۔ ممکن ہے ان کا ایمیون سسٹم طاقتور ہو اس لئے ایسا ہو رہا ہو یا پھر وہ کم شدت والے وائرس کا شکار ہوئے ہوں۔ اسی طرح یہ مغالطہ بھی پاکستان کے بارے میں غلط ہو گا کہ یہ وائرس پچاس ساٹھ سال سے اوپر کے لوگوں کیلئے زیادہ خطرہ ہے۔ لاہور میں جس نوجوان کا انتقال ہوا اس کی عمر بیس برس تھی۔ حکومت لاک ڈائون میں اب بھی تساہل سے کام لے رہی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ سب کچھ بند کیا تو معیشت تباہ ہو جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ ابھی کون سا معیشت کا پہیہ چل رہا ہے سوائے ہسپتالوں‘ میڈیکل اور جنرل سٹورز کے سب کچھ بند ہے۔ رکشے ٹیکسیاں‘ ہر قسم کی مارکیٹیں سب کچھ تو بند ہے۔ مزدور تو پہلے ہی بیروزگار ہیں۔ وہ اپنے بچے کھچے پیسوں یا فاقوں سے کام چلا رہے ہیں یا پھر ہمسایوں اور رشتہ داروں سے مدد لے رہے ہیں تو پھر لاک ڈائون میں سختی نہ کرکے ہم دوکام کر رہے ہیں‘ ایک یہ کہ جس غریب امیر کے پاس جو کچھ بچاکھچا کیش ہے وہ اسے استعمال کر رہا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ سڑکوں پر میل جول کے ذریعے وائرس بھی لپیٹ رہا ہے۔ مکمل لاک ڈائون کردیا جاتا تو پھر جس کے پاس جتنا کچھ تھا وہ اسے لے کر گھروں میں قید ہو جاتا اور پندرہ دن کیلئے پیٹ پر پتھر باندھ لیتا۔ پینسٹھ اور اکہتر کی جنگوں میں کیا ہوتا تھا۔ کیا جنگوں میں روٹین کی زندگی جاری رہتی ہے۔ کیا معیشت کمزور نہیں ہوتی۔ کیا سرحدیں اور پروازیں بند نہیں کی جاتیں۔ کیا لوگ معمول کے مطابق آئوٹنگ کرتے ہیں۔ کیا رات کے وقت بلیک آئوٹ نہیں ہوتا۔ کیا جنگوں میں رات کو کسی ایک گھر میں کوئی مدہم سی روشنی بھی جلا سکتا ہے۔ کیا جنگ لگنے سے قبل دو ممالک اپنے اپنے شہریوں کو خوراک ذخیرہ کرکے دیتے ہیں۔ نہیں ناں‘ تو پھر یہ جنگ‘ جو ہم مسلط ہوئی ہے‘ ہم اپنی مرضی سے کیسے لڑ اور جیت سکتے ہیں۔ کورونا وائرس کے حملے کا ہمیں دو ماہ سے علم تھا‘ لیکن پینسٹھ کی جنگ میں تو رات کے اندھیرے میں دشمن حملہ آور ہوگیا تھا۔ اس وقت ہم راشن کی ترسیل کے کتنے پیکیج بنا سکے تھے۔ اگر اس وقت عوام نے ایک دوسرے کا خیال رکھا تھا تو آج بھی ایک دوسرے کوبھوکا نہیں مرنے دیں گے۔ میں اخوت کے چیئرمین ڈاکٹر امجد ثاقب کی اس تجویز اور تحریک سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں جس کا نام این ٹو این یعنی نیبر(ہمسایہ) ٹو نیبر ہے۔ اس کے تحت ہر ہمسایہ اپنے دائیں بائیں موجود گھر کی ضروریات کا خیال کر سکتا ہے۔ ہر محلے میں ایک یا ایک سے زیادہ مساجد موجود ہیں۔ اگر اس موقع پر مساجد کا ایک حصہ راشن کی تقسیم کے لئے مختص کر دیا جائے اور مسجد میں خوش حال افراد اپنی استطاعت کے مطابق آٹے کے تھیلے اور دیگر ضروری سامان رکھ جائیں تو محلے سے مستحقین خود اپنی ضرورت کے مطابق ایمانداری سے راشن لے سکتے ہیں۔ اس کے لئے حکومت کو الگ سے کوئی عمارت اور عملہ نہیں رکھنا پڑے گا اور سب مواخات کے جذبے کو لے کر ایک دوسرے کے کام بھی آئیں گے‘ غریبوں کے بھوک سے مرنے کا خطرہ بھی ٹل جائے گا اور لوگ بلا ضرورت گھروں سے باہر نکلنے اور وبا کا شکار ہونے سے بھی بچ جائیں گے۔ اس قیامت میں ہم اگر زندہ بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں ایک سیکنڈ ضائع کئے بغیر اپنے اپنے علاقوں میں اس تحریک کا آغاز کردینا چاہیے۔