امریکہ میں سیاہ فام جارج فلائیڈ کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے بعد احتجاج جس قسم کی لوٹ مار‘ آتشزنی اور توڑ پھوڑ میں تبدیل ہو چکا ہے اور امریکہ جس طرح کا منظر پیش کر رہا ہے اس کے بعد ہر کوئی دوسرے سے پوچھ رہا ہے: جائو گے امریکہ؟ قانون شکنی میں کوئی بھی پیچھے نہیں رہا۔ کیا کالے اور کیا گورے‘ سب اپنا اپنا حصہ بقدر جثہ وصول کر رہے ہیں۔ کوئی شاپنگ سٹور‘ کوئی دکان ایسی نہیں جو بپھرے بلوائیوں کی دسترس سے محفوظ ہو۔ پاکستان میں کورونا اور غربت کے درمیان مقابلہ جاری ہے جبکہ امریکہ میں کورونا اور سیاہ فام طبقے کے احتجاج کے مابین جنگ شروع ہے۔ سوشل میڈیا پر کورونا وائرس ثانوی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اس کی جگہ امریکہ میں ہونے والے پرتشدد واقعات پر مبنی ویڈیوز نے لے لی ہے۔ جارج فلائیڈ کو گزشتہ ہفتے ریاست مینیسوٹا میں جعلسازی کے الزام میں حراست کے دوران پولیس اہلکار شاوین کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ جارج فلائیڈ کے کنبے کی طرف سے کروائے گئے خصوصی پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق فلائیڈ کی موت متواتر بوجھ کے نیچے دبے رہنے، دماغ کیلئے خون کا بہاو رُکنے اور دم گھٹنے کے نتیجے میں واقع ہوئی۔ شاوین نے فلائیڈ کی گردن کو اپنے گھٹنے سے دبائے رکھا اور فلائیڈ ''میری سانس بند ہو رہی ہے‘‘ کی فریادکرتا رہا۔ بعدازاں فلائیڈ کو ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ دم توڑگیا۔ شہریوں کے ٹیلی فون کے ذریعے ریکارڈ کی گئی ویڈیو سوشل میڈیا پر پھیلنے کے بعد امریکہ میں سیاہ فاموں پر پولیس تشدد کے مباحث دوبارہ شروع ہو گئے۔
کورونا کی وجہ سے پہلے ہی امریکی سڑکوں پر ویرانی تھی‘ اب لوگ بالکل ہی گھروں میں دبک گئے ہیں اور خوفزدہ ہیں کہ کہیں لوٹ مار کا رُخ گھروں کی جانب نہ ہو جائے۔ سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی ایک تصویر میں ایک باپ اپنی بیوی اور دوبیٹیوں کے ہمراہ کھڑا ہے۔ سب کے ہاتھوں میں پستول اور بندوقیں ہیں۔ انہیں خطرہ ہے کہ بلوائی ان کے گھروں کی طرف آئے تو انہیں اپنی حفاظت خود کرنا پڑے گی۔ پولیس کی حالت قابل رحم ہوچکی ہے۔ جگہ جگہ پولیس کی گاڑیاں‘ پولیس سٹیشنز اور سرکاری املاک سے آگ کے شعلے بلند ہورہے ہیں۔ پولیس کی گاڑی جہاں نظر آتی ہے بلوائی اس پر حملہ کر دیتے ہیں۔ پولیس اپنی جان بچاتی پھر رہی ہے‘ شہریوں کی حفاظت کون کرے گا؟ کئی ریاستوں میں کرفیو لگا دیا گیا ہے۔ کرفیو کے اوقات رات گیارہ سے صبح چھ بجے اور کبھی شام سات سے اگلے دن صبح دس بجے تک تبدیل ہو جاتے ہیں۔ نیشنل گارڈز اور پولیس‘ دونوں سڑکوں پر گشت کر رہے ہیں لیکن بلوائی کرفیو کی پابندیاں قبول کرنے کو تیار نہیں۔ جلائو گھیرائو کی ان ویڈیوز میں ایک اچھی ویڈیو بھی سامنے آئی جس میں ایک گوری خاتون اور ایک پاکستانی لڑکا ایک سٹور پر حملہ آوروں کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دونوں پلے کارڈز اٹھائے ہوئے شاپنگ سٹور کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہیں۔ پانچ چھ سیاہ فام بلوائیوں کا ایک گروہ آتا ہے اور لڑکی کو بالوں سے پکڑ کر دھکا دیتا ہے۔ لڑکی چار چھ فٹ دور جاگرتی ہے لیکن فوراً ہی کھڑی ہوجاتی ہے اور واپس سٹور کے دروازے کے سامنے آکر کھڑی ہو جاتی ہے۔ اتنے میں ذیشان نامی ایک پاکستانی لڑکا اس لڑکی کی مدد کو آتا ہے اور وہ بھی اس کے ساتھ ڈھال بن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ بلوائی اس کے ساتھ بھی ہاتھا پائی کرتے ہیں لیکن ذیشان ان کا بھرپور مقابلہ کرتا ہے جس پر بلوائی وہاں سے بھاگتے ہیں مگر جاتے جاتے ایک فائر کریکر ان کی طرف اچھالتے ہیں جو ایک دھماکے کی طرح پھٹتا ہے‘ ہر طرف دھواں پھیل جاتا ہے لیکن ذیشان اور گوری لڑکی پھر بھی اپنی جگہ سے نہیں ہٹتے۔ یہ آخری حربہ ناکام ہوتے دیکھے کر بلوائی بھاگ اٹھتے ہیں۔ یہ سارا منظر ایک ٹی وی رپورٹر کیمرے سے ریکارڈ کرتی ہے۔ وہ ذیشان اور گوری سے پوچھتی ہے‘ وہ اپنی جان خطرے میں کیوں ڈال رہے تھے اور کیا وہ اس سٹور کے مالک ہیں۔ دونوں بتاتے ہیں کہ وہ اس سٹور کے مالک نہیں لیکن وہ اس توڑ پھوڑ پر مبنی احتجاج کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ سیاہ فام جارج فلائیڈ کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی اور وہ اس کیلئے کھڑے ہیں لیکن پُرامن احتجاج اور جارج کیلئے انصاف چاہتے ہیں اور اس کو پرتشدد صورت میں تبدیل ہونے نہیں دیں گے‘ چاہے ہمیں اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنا پڑے۔ ایسی مثالیں اکا دُکا ہیں جبکہ زیادہ تر سٹورز اور املاک لوٹنے والی ویڈیوز میں کالے اور گورے دونوں دکھائی دیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے یہ امریکہ نہیں روانڈا یا صومالیہ جیسا کوئی ملک ہے جہاں بھوک اور غربت کے مارے لوگ لوٹ مار میں لگے ہیں۔ مظاہروں کا سلسلہ اس قدر شدت اختیار کر چکا ہے کہ شکاگو میں 2 مظاہرین جان کی بازی بھی ہار چکے ہیں۔ واشنگٹن میں بھی احتجاج کیلئے جمع ہزاروں مظاہرین کو حراست میں لے لیا گیا۔ مظاہروں کے دوران 4 پولیس اہلکاروں کو گولی بھی ماری گئی۔ ویسے امریکہ میں جس طرح کا صدر ہے اس ملک میں ایسے واقعات تعجب خیز معلوم نہیں ہوتے۔ ٹرمپ نے بھی ذمہ داری ریاستوں کے گورنروں پر ڈال کر انہیں کمزور روّیہ اختیار کرنے کا قصوروار ٹھہرایا ہے۔ ٹرمپ کے مطابق اگر ہم نے اس وقت انہیں نہ روکا تو حالات زیادہ خراب ہو جائیں گے۔ بلوائیوں کو دس سال کیلئے جیل میں ڈالنا چاہیے۔ یوں لگتا ہے جو کام چین اور امریکہ کے دیگر حریف ممالک نہیں کر سکے‘ وہ خود ٹرمپ اپنے ہی ملک کے ساتھ کرنے والے ہیں۔ امریکہ میں پرتشدد واقعات دیکھ کر کراچی اور ملک کے دیگر حصوں میں ہونے والی وہ بدامنی معمولی دکھائی دیتی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو دہشتگرد ممالک کی فہرست میں ڈالا جاتا تھا۔ پاکستان میں ماضی قریب میں مال روڈ پر ایک جلوس نکلا تھا جس میں مال روڈ پر املاک کو جلایا گیا توڑ پھوڑ اور لوٹ مار ہوئی۔ اس واقعے کو امریکی میڈیا سمیت پوری دنیا نے بھرپور طریقے سے اچھالا تھا۔ مسلمانوں کو شدت پسند‘ دہشت گرد اور بدتہذیب قرار دیا گیا تھا۔ صرف اسی واقعے میں نہیں بلکہ ملالہ یوسف زئی کا واقعہ ہو یا کسی اقلیتی شہری کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی‘ ہر واقعے کو پاکستان‘ اسلام اور مسلمانوں سے منسوب کرکے انہیں مجرم ٹھہرانے کی کوشش کی گئی۔ آسیہ ملعونہ کا کیس ہو یا مختاراں مائی سے ہونے والی زیادتی‘ جرمنی سے لے کر فرانس تک اور برطانیہ سے لے کر امریکہ تک بڑے بڑے وزیر اور اہم شخصیات کے کڑواہٹ بھرے پیغامات یوں سامنے آتے تھے گویا دنیا کے تمام جرائم اسی سرزمین پر ہوتے ہیں۔ آج پورا امریکہ جل رہا ہے‘ اسی آگ میں جو اس نے دنیا بھر میں لگائی تھی۔ اس کے باوجود آج پوری دنیا سے کسی ایک ملک نے یہ نہیں کہا کہ جارج فلائیڈ کے ساتھ نسلی امتیاز برتا گیا بلکہ اسے پولیس کی چھوٹی موٹی غلطی کہہ کر ٹال دیا جائے گا۔ حالیہ بدامنی سے یہ بھی پتہ چل گیا کہ امریکہ کس قدر محفوظ ملک ہے۔ امریکہ جانے اور اس کی امیگریشن لینے کی خواہش رکھنے والے لوگوں کو یہ ویڈیوز اپنے موبائل میں محفوظ کر لینی چاہئیں اور جب بھی امریکہ جانے کی خواہش بیدار ہو‘ فوری طور پر دیکھ لینی چاہئیں۔ اس سے قبل کورونا سے جو ایک لاکھ سے زیادہ امریکہ میں اموات ہو چکی ہیں یہ بھی دنیا کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں۔ ہم وینٹیلیٹر کو روتے ہیں لیکن امریکہ جیسا ملک آج چین سے وینٹیلیٹر بھیجنے کیلئے منتیں کر رہا ہے۔ امریکہ کا میڈیکل سسٹم جواب دے چکا ہے لیکن مجال ہے کہ اس پر کسی نے چوں بھی کی ہو۔ امریکہ میں کورونا سے اموات اور جارج فلائیڈ کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے بعد ہمیں معلوم ہو جانا چاہیے کہ جس طرح ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی‘ اس طرح امریکہ بھی وہ جنت نہیں جس کے خواب ہم ہر وقت بُنتے رہتے ہیں‘ جنت وہی ہے جہاں ہم رہتے ہیں‘ جتنی محنت ہم وہاں جانے کیلئے اور وہاں جا کر کرتے ہیں اس سے ایک چوتھائی یہاں کر لیں تو امریکہ سے بڑھ کر سہولتیں یہیں حاصل کر سکتے ہیں اور ساتھ میں عزت‘ والدین کا پیار اور وطن کی مٹی کی خوشبو بھی۔