میں نے جیسے ہی لاہور کینال سے جیل روڈ پر بائیں جانب گاڑی موڑی‘ مجھے پولیس کے سائرن کی آوازیں سنائی دیں۔ میں نے بیک مرر میں دیکھا ٹریفک سارجنٹ بڑی سی موٹر سائیکل پر بتیاں اور ہارن چلائے قریب آ رہا تھا۔ میں نے سوچا ہو سکتا ہے یہ راستہ مانگ رہا ہو اس لئے میں گاڑی درمیانی لائن میں کر دی۔ اتنے میں سارجنٹ برابر میں آ چکا تھا‘ میں نے اسے دیکھا تو اس نے مجھے گاڑی آگے روکنے کا اشارہ کیا۔ میں سمجھ گیا مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہے۔ خیر میں نے گاڑی روک دی۔ سارجنٹ نے موٹر سائیکل گاڑی کے آگے روکی۔ پچھلے خانے سے چالان بک نکالی اور پاس آ کر مجھے شیشہ نیچے کرنے کا کہا۔ سلام کے بعد بولا: برادر آپ نے سیٹ بیلٹ نہیں لگائی اس لئے آپ کا چالان ہو گا۔ سیٹ بیلٹ میں واقعی لگانا بھول گیا تھا۔ میں نے کہا: آپ نے درست کہا اور یہ چالان بنتا بھی ہے‘ میں آپ سے بحث نہیں کرتا‘ آپ یہ میرا شناختی کارڈ رکھ لیں اور چالان بھی کر لیں لیکن 500 روپے کے اس چالان کیلئے مجھے جو اذیت برداشت کرنا پڑے گی کیا اس سے جان چھوٹ سکتی ہے۔ میں نے پوچھا: کیا میں یہ چالان کسی بھی بینک میں جمع کرا سکتا ہوں تو وہ بولا: نہیں صرف گلبرگ کی نیشنل بینک کی فلاں برانچ میں جمع ہو گا اور اس کے بعد شناختی کارڈ آپ کو شادمان تھانے سے ملے گا۔ میں نے کہا: دونوں بالکل مخالف سمت اور دور دور واقع ہیں۔ وارڈن بولا: میں کچھ نہیں کر سکتا‘ فی الحال یہی سسٹم ہے۔ وہ بڑے اخلاق سے پیش آیا تھا۔ میں نے شکریہ ادا کیا۔ اگلے روز چالان جمع کرانے کیلئے گیا تو بیس پچیس لوگ قطار میں کھڑے ہیں۔ بینک کا ٹائم آن ہو چکا تھا لیکن کائونٹر پر کوئی نہیں تھا۔ لوگوں نے شور مچایا تو کہیں سے ایک بندہ آ کر بیٹھا اور ایک گھنٹے بعد چالان جمع ہوا۔ پھر تھانے گیا تو وہاں بھی لمبی قطار تھی۔ یوں تین چار گھنٹے برباد ہو گئے۔
گزشتہ روز لاہور کی تاریخ میں وہ کام ہوا جس کا مجھے ہی نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں شہریوں کو شدت سے انتظار تھا۔ لوگوں کو لمبی قطاروں اور ان کا وقت بچانے کیلئے ٹریفک جرمانوں کی ادائیگی کیلئے ای سسٹم کا اجرا کر دیا گیا۔ پنجاب آئی ٹی بورڈ کے وضع کردہ سسٹم کا افتتاح وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کیا۔ یہ صوبے میں عوام کی سہولت کیلئے ایک احسن ترین اقدام کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ ٹریفک جرمانوں کی آن لائن ادائیگی سے عوام کو آسانی ہوگی کیونکہ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے بغیر پریشانی امور نمٹانے میں آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ وزیراعلیٰ نے ٹریفک جرمانوں کی آن لائن ادائیگی کے نظام کو دیگر شہروں تک بڑھانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کیلئے آن لائن ٹائم شیڈول کا دائرہ کار بھی دیگر شہروں تک بڑھایا جائے گا۔ یہ بھی بہت بڑی خبر تھی۔ خبر کے مطابق اب ون لنک اے ٹی ایم مشین، موبائل ایپلیکیشن، انٹرنیٹ بینک کے ذریعے بآسانی ٹریفک جرمانہ ادا کیا جاسکتا ہے۔ کسی بھی بینک برانچ کے کاؤنٹر پر بھی آن لائن ادائیگی کی جا سکے گی۔ ان اقدامات سے سماجی فاصلوں پر عملدر آمد یقینی بنایا جا سکے گا۔ حکومت پنجاب کے ریونیو میں اضافہ ہو گا بلکہ ریونیو وصولی میں مزید شفافیت آئے گی اور ٹریفک قوانین کو بار بار توڑنے کے عادی افراد کا ریکارڈ خود بخود مرتب ہوتا جائے گا۔ ان اقدامات کے ذریعے نہ صرف لمبی لمبی قطاروں اور طویل انتظار کی زحمت سے چھٹکارا ملے گا بلکہ سروس ڈلیوری میں بھی بہتری آئے گی۔ ایک اور فائدہ یہ ہو گا کہ اگر کوئی شخص موقع پر موبائل ایپ سے یا کسی بھی قریبی بینک یا اے ٹی ایم سے چالان کی فوری ادائیگی کر دے گا تو وہ وارڈن سے اسی وقت اپنے کاغذات واپس لے سکے گا۔
دوسری اہم ترین سروس بلکہ خدمت‘ جس کا اجرا گزشتہ روز کیا گیا‘ لائسنس کے حوالے سے ہے۔کورونا بحران کی وجہ سے لائسنس سنٹر بھی بند تھے کیونکہ لائسنس بنوانے کے لئے لوگ ہجوم کی شکل میں آتے تھے۔ اس کا حل پنجاب حکومت نے ٹائم شیڈولنگ نظام کے ذریعے نکالا ہے۔ اس کا بھی افتتاح گزشتہ روز ہوا اور یہ سسٹم بھی پی آئی ٹی بی نے لاہور ٹریفک پولیس کیلئے وضع کیا ہے۔ آن لائن ٹائم شیڈول کے ذریعے شہری گھر بیٹھے لاہور کے اٹھارہ ڈرائیونگ سینٹرز میں لائسنس کے حصول کیلئے وقت اور تاریخ حاصل کرسکیں گے۔ یہ سسٹم کرونا کے دنوں کے علاوہ بھی کارآمد رہے گا۔ جس نے بھی لائسنس بنوانا یا تجدید کروانی ہے اس کیلئے وہ موبائل سے راستہ ایپ ڈائون لوڈ کرے گا یا ویب سائٹ اور کال سینٹرکے ذریعے اپنے مرضی کے دن اور ٹائم کی بکنگ کروا سکے گا۔ اس سے قطار سے جان چھوٹے گی اور وقت کی بھی بچت ہوگی۔ اگر کوئی شہری انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں جانتا تووہ قریبی ڈرائیونگ لائسنس سینٹر پر جاکر تاریخ اوروقت لے سکتا ہے۔اسی طرح کا ایک اور جدید سسٹم اور سہولت عوام کے لئے راولپنڈی میں بھی لانچ ہو چکی ہے جسے پیپر لیس لائسنس ایشوئنگ سسٹم کا نام دیا گیا ہے۔ پی آئی ٹی بی کا وضع کردہ یہ بنیادی طور پر ون ونڈو لائسنسنگ ہے جس میں لائسنس بنوانے یا تجوید کیلئے شہری کو کسی قسم کے کاغذات کی کاپیاں‘پاسپورٹ تصاویر اور ٹکٹ ساتھ لانے کی ضرورت نہیں‘ نہ ہی دستخط کیلئے ایک سے دوسرے کمرے میں جانا پڑے گا بلکہ لائسنس بنوانے کیلئے صرف اصل شناختی کارڈ اور لائسنس فیس ساتھ لانا ہو گی اور ایک ہی کائونٹر پر لائسنس بنوانے کا عمل مکمل ہو جائے گا۔ امید ہے یہی سسٹم دیگر اضلاع اور دیگر صوبوں میں بھی لاگو کیا جائے گا۔
پنجاب میں ٹیکنالوجی شہریوں کی آسانی کیلئے استعمال کرنے کی خاطر ماضی میں بہت کام کئے گئے لیکن ٹریفک چالان جرمانوں کی ادائیگی اور لائسنس بنوانے کا آن لائن نظام ایک بڑی خوشخبری ہے۔ یہ سسٹم بہت پہلے آ جانا چاہیے تھا‘ بہرحال دیر آید دراست آید۔ یہ سسٹم رکشہ ٹیکسیوں والوں کے لئے اور بھی کارآمد ہو گا۔ چالان ادائیگی سسٹم میں اگر ایزی پیسہ وغیرہ بھی شامل کر لیا جائے‘ جس کی قوی امید ہے‘ تو لاکھوں مزید افراد موقع پر ہی ادائیگی کر سکیں گے کیونکہ جیسے ہی ادائیگی کی جاتی ہے اسی وقت ٹریفک وارڈن کے موبائل میں بھی ادائیگی کا پیغام موصول ہو جاتا ہے جس پر وہ کاغذات یا تو لیتا نہیں اور اگر لے لیتا ہے تو فوری لوٹا دیتا ہے۔ یہاں یہ بات بتانا ضروری ہے کہ اس سروس کا یہ مطلب نہیں کہ امیرزادے جب چاہیں قانون کی دھجیاں بکھیریں اور مزے سے چالان کی ادائیگی کرکے اگلے چوک میں پھر ریڈ سنگل کراس کر جائیں اور پھر چالان کی ادائیگی کر دیں۔ چونکہ یہ سارا نظام آن لائن ہو چکا ہے؛ چنانچہ ہر شہری کا چالان ادائیگی کا مکمل ریکارڈ بھی آن لائن موجود ہو گا جسے وہ خود بھی موبائل ایپ پر دیکھ سکتا ہے۔ اس کے متعلقہ پوائنٹس جیسے ہی ایک حد تک پہنچیں گے تو اس کا لائسنس معطل اور کینسل بھی ہو سکتا ہے۔ جدید ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ وہاں تو غالباً ہر چھ ماہ یا سال بعد اپنی نظر وغیرہ کا بھی ٹیسٹ کروا کر لائسنس والوں کو دینا ہوتا ہے یا تجدید کے وقت وہ خود ٹیسٹ کرتے ہیں۔ اس لئے ہر شہری کو محتاط رویہ اختیار کرنا ہو گا۔ بیرون ملک تو گاڑیوں کا فٹنس سرٹیفکیٹ اور انشورنس بھی لازمی ہوتی ہے۔ یہاں تو چالیس چالیس سال پرانی دھواں چھوڑتی اور کمزور ٹائی راڈ والی گاڑیاں آلودگی پھیلاتی اور ایکسیڈنٹ کا شکار ہو کر لوگوں کیلئے عذاب بنی ہوئی ہیں۔ خدا کرے اس بارے میں بھی کوئی پالیسی آئے یا کوئی جدید سسٹم بنے تاکہ حادثات بالخصوص کمرشل گاڑیوں اور بسوں کے آئے روز کے سانحات میں کمی آ سکے۔ وزیراعلیٰ نے یہ سسٹم لانچ کرکے ثابت کیا کہ وہ صوبے کو بہترین انداز میں چلاسکتے ہیں۔ ایوان وزیراعلیٰ کے اخراجات ایک کروڑ اکہتر لاکھ روپے کم کرکے انہوں نے سادگی کی نئی مثال قائم کی ہے۔ کورونا کے دنوں میں مالی بحران کو کم کرنے کیلئے یہ بہترین اقدام ہے۔ امید ہے آئندہ بھی عوام کی سہولت کیلئے ٹیکنالوجی اور سادگی پر مبنی مثالیں قائم کی جاتی رہیں گی۔