"ACH" (space) message & send to 7575

قدرت کے اشارے

دنیا واپس قدرت کی طرف لوٹ رہی ہے۔ آرٹس کے مضامین سائنس پر حاوی ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹر انجینئر کی بجائے بچے اب آرٹسٹ‘ ڈیزائنر‘ وی لاگر‘ کامیڈین‘ موٹی ویشنل سپیکر‘ تجزیہ کار اور رپورٹر بننا پسند کرتے ہیں۔ اس کی وجہ صرف وہ رجحان نہیں جو عالمی سطح پر مقبول ہو رہا ہے بلکہ اس کا تعلق غالباً انسان کے جذبات، خواہشات اور احساسات سے ہے جنہیں وہ ڈاکٹر انجینئرز بن کر پورا نہیں کر سکتا۔ ہر انسان کوئی نہ کوئی ٹیلنٹ رکھتا ہے۔ وہ بعض صلاحیتیں ساتھ لے کر دنیا میں آتا ہے اور کچھ صلاحتیں اس دنیا میں حاصل کرتا ہے؛ تاہم دنیا کے جھمیلوں اور معاش کی مجبوریوں کی وجہ سے اس کی صلاحیتیں ضائع ہو جاتی ہیں، وہ ان سے پوری طرح کام نہیں لے پاتا۔ بہت سی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔بہت سے ڈاکٹر ایسے ہیں جو بہت کامیاب ڈاکٹر نہیں لیکن بہت اچھے شاعر، ادیب اور لکھاری ہیں۔ بہت سے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے آرٹ کے شعبے میں بہت نام کمایا ہے لیکن ان کی تعلیم ان کے کاموں سے میچ نہیں کرتی۔ ایسے لوگوں کو اگر دوبارہ پروفیشن چننے کا موقع ملے تو یہ کبھی میڈیکل یا انجینئرنگ کے شعبے کا انتخاب نہیں کریں گے۔ آج انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے پروفیشن اپنانے کا کام بہت آسان کر دیا ہے۔ آپ کی آواز اچھی ہے اور آپ ووکل آرٹسٹ بننا چاہتے ہیں تو درجنوںپلیٹ فارمز آپ کے لئے کھلے ہیں۔ چند منٹ میں اپنا مفت اکائونٹ بنائیے اور اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانا شروع کر دیجئے۔ فری لانسنگ نے تو دنیا میں کام کا پورا نقشہ ہی بدل دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فری لانسنگ میں کمائی کرتے وقت کوئی آپ سے آپ کی ڈگری نہیں پوچھتا۔ 
صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ آپ متعلقہ شعبے میں کیا کر چکے ہیں اور کیا کر سکتے ہیں۔ آپ میں جتنا ٹیلنٹ ہو گا اتنا ہی آپ کمائی کر سکیں گے۔ روایتی زندگی مگر مختلف ہے۔ بچوں کو بتایا جاتا ہے اچھی طرح پڑھو لکھو، سولہ جماعتیں پاس کرو اور اس کے بعد نوکری کی تلاش شروع کر دو۔ پہلے چار پانچ سال مفت یا پھر برائے نام معاوضے پر کام کرو‘اس کے بعد کسی جگہ ٹک جائو اور پانچ دس سال خوب محنت کرو۔ اتنے میں بندے کی عمر پینتیس چالیس برس کے قریب جا پہنچتی ہے۔ پھر پتہ چلتا ہے کہ وہ کمپنی گھاٹے میں چلی گئی ہے اور ملازمین کی چھانٹی میں آپ کو بھی نکال دیا جاتا ہے یوں آپ کی زندگی کے پندرہ بیس قیمتی سال ضائع ہو جاتے ہیں۔یہ ایسا وقت ہوتا ہے جب آپ اپنی فیلڈ بھی تبدیل نہیں کر سکتے۔ مجبوراً آپ کو روزی روٹی کے لئے کوئی نہ کوئی نوکری کرنی پڑتی ہے۔ آپ کا کیرئیر کیا تھا آپ کیا کرنے چلے تھے آپ کے سارے خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں۔
زندگی میں سب سے مشکل اور اہم کام خود کی تلاش ہے۔ ویسے تو انسان ساری زندگی خود کو سمجھنے میں گزار دیتا ہے لیکن یہ کام ابتدائی عمر میں مکمل ہو جائے تو اسے درست سمت میسر ہو جاتی ہے اور وہ مسائل اور طوفانوں کا مقابلہ بھی کر لیتا ہے۔ میں نے فری لانسنگ کے سرکاری پروگرام ای روزگار میں ڈاکٹروں اور انجینئرز کو بھی تربیت لیتے دیکھا ہے۔ حتیٰ کہ ایک پی ایچ ڈی سکالر کو بھی۔ میں نے حیرانی سے پوچھا۔ آپ بھی۔ آپ تو پی ایچ ڈی کر چکے ہیں تو پھر آپ کو فری لانسنگ کی ضرورت کیوں پڑی۔ یہی سوال میرا ایک ٹیلی کام انجینئر اور ڈاکٹر سے تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تینوں اپنی اپنی فیلڈز سے ہٹ کر نیا کام کر رہے تھے۔ مثلاً ٹیلی کام انجینئر کی آواز‘ تلفظ اور لہجہ بہت صاف اور اعلیٰ درجے کا تھا۔ وہ وائس اوور آرٹسٹ تھا۔ میں نے کہا آپ کب سے اس فیلڈ میں آئے۔ بولے ٹیلی کام میں اتنا سکوپ نہیں رہا۔ پھر اس میں لگی بندھی تنخواہ ملتی ہے ۔ بعض اوقات کئی کئی دن شہر سے دور رہنا پڑتا ہے اس کے باوجود بھی جاب سکیورٹی نہیں۔ انہوں نے مجھے اپنے کچھ وائس اوور سنوائے۔ میں حیران رہ گیا یہ صاحب امریکہ برطانیہ اور دیگر ممالک کے لئے انگریزی میں وائس اوور کرتے تھے۔ لہجہ ایسا تھا کہ گمان ہی نہیں ہوتا تھا کہ کوئی پاکستانی ہے اور کسی پسماندہ علاقے کی کسی کالونی میں چھ مرلے کے مکان کے ایک کمرے میں بیٹھا بول رہا ہے۔ میں نے کہا آپ کتنا کما لیتے ہیں۔ بولے تیس سیکنڈ کے ایک آڈیو کلپ کا دو سو ڈالر۔ اُف میرے خدایا۔ تیس ہزار روپے وہ بھی صرف تیس سیکنڈ کام کر کے۔ کہنے لگے مجھے شروع سے ہی ریڈیو جرنلسٹ بننے کا شوق تھا۔ کمنٹری میں کرنا چاہتا تھا لیکن اس وقت کوئی پلیٹ فارم نہ تھا۔ سرکاری ٹی وی اور ریڈیو میں بہت مرتبہ اپلائی کیا لیکن سفارش پاس نہ تھی۔ چنانچہ انجینئرنگ کی طرف چلا گیا۔ کچھ عرصہ مختلف کمپنیوں کے ساتھ کام کیا۔ تنخواہ بھی معقول تھی لیکن دل میں پھر بھی تشنگی باقی تھی۔ ایک ایسا خلا تھا جو مجھے بے چین کئے رکھتا تھا۔ پھر جب انٹرنیٹ پر فری لانسنگ کرتے ہوئے لوگوں کو دیکھا تو اپنا شوق ادھر آزمایا۔ فائیور ڈاٹ کام اور اپ ورک ڈاٹ کام پر اکائونٹ بنایا۔ شروع میں آرڈر ملنے میں کچھ تاخیر ہوئی لیکن جیسے جیسے میں کام کرتا گیا میری دنیا وسیع ہوتی گئی‘ پھر ایک وقت آیا کہ میں نے ٹیلی کام جاب کو خیرباد کہہ دیا اور مکمل طور پر فری لانسنگ کرنے لگا۔ اب میں آزاد ہوں۔ ہر طرح کے فکر سے آزاد۔ جب دل چاہتا ہے کام کرتا ہوں۔ چاہے تو صبح چاہے رات۔ جتنا چاہے کام پکڑتا ہوں۔ اسے مکمل کرتا ہوں۔ درمیان میں آرام کرتا ہوں۔ سیر و تفریح کے لئے پہاڑی تفریحی مقامات کو نکل جاتا ہوں۔ کبھی جب وہاں دل کرتا ہے تو ایک دو آرڈر لیتا ہوں‘ درخت کے سائے میں بیٹھ کر لیپ ٹاپ نکالتا ہوں اور چند منٹ میں اپنا کام کر کے مکمل کر دیتا ہوں۔ یوں میرے پورے ٹرپ کاچار پانچ سو ڈالر کا خرچ بھی نکل آتا ہے اور تفریح بھی مکمل ہو جاتی ہے۔ وہ بولا۔ آپ خود بتائیں کسی نوکری میں رہ کر میں یہ سب کر سکتا تھا۔ 
زمانہ تیزی سے بدل رہا ہے۔ لاک ڈائون کے دوران فری لانسنگ کو غیرمعمولی عروج ملا ہے۔ دنیا بھر میں اربوں کھربوں روپوں سے بنائے گئے شاپنگ مالز‘ سیاحتی مراکز‘ ریسٹورنٹس بند رہے لیکن آن لائن کاروبار اور کام میں ایک لمحے کا خلل نہ آیا۔ لاک ڈائون سے لوگوں کو پتہ چلا کہ اب کاروبار کروڑوں روپے کی عمارتیں بنانے اور انفراسٹرکچر کے بغیر بھی ہو سکتا ہے۔ تعلیم‘ طب‘ حتیٰ کہ بکرے تک آن لائن فروخت ہونے لگے۔ پنجاب حکومت نے ابھی گزشتہ دنوں بکرمنڈی ایپ لانچ کی جس کے ذریعے پنجاب بھر کی تمام منڈیوں سے بکرے گھر بیٹھے منگوائے جا سکتے ہیں یوں کورونا سے بھی بچا جا سکتا ہے اور آنے جانے کی جھنجٹ سے بھی چھٹکارا مل سکتا ہے۔ دو ہزار بیس کے سال کو سوچنے کا سال بھی کہا جاسکتا ہے کیونکہ جتنا وقت دنیا کو اس سال سوچنے سمجھنے کو ملا شاید ہی کبھی ملا ہو گا۔ مہینوں تک لوگ گھروں میں محبوس رہے۔دعوتیں پارٹیاں سیر و تفریح بیکار کی آوارہ گردی ختم ہوئی تو احساس ہوا کہ ہم تو یونہی خود کو ضائع کر رہے تھے۔ پھر بہت سی چیزیں جنہیں ہم اہم خیال کرتے تھے وہ انتہائی بے وقعت نکلیں۔ انہی دنوں میں ہزاروں لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں نے فیصلہ کیا کہ وہ روایتی نوکریوں کی بجائے فری لانسنگ کی طرف آئیں گے اوراس شعبے میں قدم رکھیں گے جس کا ٹیلنٹ ان کے اندر موجود ہے اور جسے وہ بہتر طور پر انجام دے سکتے ہیں۔ اسی طرح کاروباری اداروں نے بھی دیکھا کہ عمارتوں پر پیسہ لگانے کی بجائے اگر آٹومیشن کی جائے تو نہ صرف ان کی لاگت کم ہو سکتی ہے اور منافع بڑھ سکتا ہے بلکہ وہ اپنے کاروبار کو دنیا بھر میں پھیلا سکتے ہیں۔ قدرت نے انسان کو جو صلاحیتیں عطا کی ہوتی ہیں ان کا کھوج لگانا اور انہیں استعمال کرنا خود انسان کے اپنے مفاد میں ہے۔ چنانچہ دو ہزار بیس اگر کورونا کو لے کر آیا ہے تو یہ ہمارے لئے سوچنے سمجھنے کا بہت وقت بھی ساتھ لایا ہے اور جو ابھی بھی قدرت کے اشارے نہیں سمجھ پایا‘ ایسا شخص بہت دیر تک سروائیو نہیں کر پائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں