"ACH" (space) message & send to 7575

کاش ہم کورونا وبا سے کچھ سیکھ جاتے!

کورونا سے پہلے عام لوگ ایس او پیز سے زیادہ واقف نہ تھے۔ یہ ٹرم سرکاری اور نجی اداروں میں تو استعمال ہوتی تھی لیکن جس طرح ہر شہری کو اب اس کا ادراک ہو گیا ہے‘ کورونا سے قبل وہ اس سے آگاہ نہ تھا۔ بہت سے لوگوں کو اب بھی شاید یہ علم نہ ہو کہ ایس او پی کس کا مخفف ہے لیکن وہ یہ ضرور جان گئے ہیں کہ یہ احتیاط یا ہدایات سے متعلق کوئی چیز ہے۔ ہم اس دنیا میں آئے ہیں اور ہم نے یہاں جس طرح زندگی گزارنی ہے اس کے لئے بھی قدرت نے ایس او پیز متعین کئے ہوئے ہیں۔ یہ ایس او پیز ہمیں قرآن اور حدیث کی صورت میں ملتے ہیں۔جس طرح کسی بھی موبائل فون‘ گاڑی یا مشین کی خریداری کے ساتھ صارف کے لئے ایک کتابچہ یا ہدایت نامہ دیا جاتاہے اور اس میں اس مشین کو چلانے اور اس کے غلط اور درست استعمال بارے ہدایات درج ہوتی ہیں‘ اسی طرح انسان کے لئے قدرت نے قرآن کی صورت میں ہدایت کا ایک سر چشمہ جاری کیا‘ ہمیں جس میں زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں ہدایات مل جاتی ہیں۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ کورونا سے قبل ہم اس ہدایت نامے اور اس میں شامل ایس او پیز کو یکسر نظر انداز کرتے آئے ہیں۔ ہمیں کب سو کر اٹھنا ہے‘ کون سا کاروبار کرنا ہے‘ کون سی چیزیں ہمارے لئے حلال یا حرام ہیں‘ سب کچھ ہمارے پاس موجود ہے لیکن ہم میں سے اکثر ان ایس او پیز‘ قدرت کی ان ہدایات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
انسان بہت تھڑدلا واقع ہوا ہے۔ جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے تو رونا شروع کر دیتا ہے لیکن جیسے ہی اس کی مصیبت ٹل جاتی ہے یہ مصیبت کو بھول جاتا ہے اور دوبارہ سے ناشکری کرنے لگتا ہے۔آپ کورونا کی ہی مثال لے لیں۔ پاکستان میں کورونا مارچ کے اوائل میں آیا۔ سارے دفاتر‘ کارخانے ‘ تعلیمی ادارے اور کاروبارِ زندگی معطل ہو کر رہ گیا۔لوگ ایک اَن دیکھی بیماری کے ہاتھوں تڑپ تڑپ کر مرنے لگے۔ ہر کسی کی نظر ان اعداد و شمار پر تھی جن میں کورونا کے نئے کیسز‘ اس سے مرنے والے اور صحت یاب ہونے والوں کی تفصیلات لمحہ بہ لمحہ اَپ ڈیٹ ہوتی تھیں۔ اٹلی‘ امریکااور برطانیہ جیسے ممالک میں تو روزانہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ تنکوں کی طرح بکھر کر زمین پرگرنے لگے‘ پاکستان میں جب اس کی شدت در آئی اور یہاں عیدالفطر کے بعد کیسز بڑھنے لگے تو معیشت کا جہاز بھی ڈوبتادکھائی دیا؛ تاہم جولائی کے شروع میں کیسز کی تعداد میں کمی آنا شروع ہو گئی اور عید الاضحی کے دن آ گئے جب کیس انتہائی کم ہو چکے تھے۔ اس موقع پر حکومت نے قربانی کے لئے بھی ایس او پیز جاری کر دئیے اور جانور خریدنے کے حوالے سے احتیاطی ہدایات جاری کر دیں۔ بہت سے نجی اداروں اور این جی اوز نے بھی آن لائن قربانی کی سہولت دی ۔ سندھ میں بڑے پیمانے پر آن لائن قربانی کے آرڈر دیے گئے کیونکہ لوگ واقعتاً ایس او پیز پر عمل کرنا چاہتے تھے اور منڈیوں کے ہجوم میں جانے سے گریز کر رہے تھے؛ تاہم تقریباً تمام نجی اداروں اور این جی اوز کی جانب سے اس معاملے میں غفلت برتی گئی۔ عوام سے سالم بکروں اور بڑے جانوروں میں حصوں کے حوالے سے خطیر رقم بھی وصول کر لی گئی لیکن انہیں بتائے گئے اوقات میں گوشت فراہم نہیں کیا جا سکا۔ جن کو عید والے دن کا وعدہ کیا گیا تھا انہیں عید کے دوسرے روز شام کو گوشت ڈلیور کیا گیا جن میں سے اکثر آرڈرز میں گوشت گرمی میں پڑا رہنے کی وجہ سے خراب ہو چکا تھا۔ بہت سی کمپنیاں ایسی تھیں جنہیں علم تھا کہ وہ اتنی بڑی تعداد میں جانور ذبح کر کے ان کا گوشت متعلقہ لوگوں سے نہیں پہنچا سکیں گی‘ اس کے باوجود انہوں نے لوگوں سے پیشگی رقم وصول کی لیکن اپنے آرڈرز کی تکمیل نہ کر سکے یوں ہزاروں لاکھوں لوگوں کو مالی اور نفسیاتی اذیت اٹھانا پڑی اور وہ ٹھیک طرح سے سنت ابراہیمی ؑ کی ادائیگی بھی نہ کر سکے۔ایک خاتون نے اٹھائیس ہزار روپے کا بکرا آرڈر کیا لیکن اسے عید کے دوسرے روز بدلے میں بدبودار گوشت دے دیا گیا۔ آپ اندازہ کریں کہ اس سے قبل یہی کمپنیاں اور کاروباری ادارے حکومت کی منتیں کر رہے تھے‘ اس کے خلاف مظاہرے اور جلوس یہ کہہ کر نکالنے کے درپے تھے کہ اگر حکومت نے کاروبار سے پابندیاں نہ ہٹائیں تو ان کا معاشی بریک ڈائون ہو جائے گا اور وہ سڑکوں پر آ جائیں گے۔ انہی لوگوں کو جب ایک مقدس فریضہ کی ادائیگی میں معاونت کا موقع ملا جس میں یہ ثواب کے ساتھ ساتھ ڈھیر سارا مال بھی کما سکتے تھے‘ تو انہوں نے یہ موقع بھی اپنی روایتی سستی‘ نا اہلی اور مال کے ہوس کے بھینٹ چڑھا دیا۔
ناپ تول میں ڈنڈی مارنا‘ ملاوٹ اور کاروباری دھوکا دہی میں ہم پاکستانیوں کا کوئی ثانی نہیں۔ قدرت نے آن لائن کاروبار کے ذریعے ہمیں ایک ایسا راستہ دیا جس کے ذریعے ہم نہ صرف کم لاگت میں کاروبار چلا سکتے تھے بلکہ کورونا جیسے حالات میں بھی ڈھیر سا پیسہ کما سکتے تھے‘ لیکن مجال ہے کہ ہماری آن لائن نجی کمپنیوں کو تھوڑا سا بھی احساس ہو کہ وہ جو چیز انٹرنیٹ پر دکھا کر بیچتی ہیں وہ چیز صارف تک نہیں پہنچتی اور جو کچھ بھیجا جاتا ہے وہ بھی نامکمل ہوتا ہے۔ آپ کسی بھی لوکل آن لائن ویب سائٹ سے آرڈر کر کے دیکھیں آپ کو زیادہ تر پشیمانی ہی ملے گی۔ کچھ کمپنیاں لوگوں کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ پاکستان میں ایسا کوئی قانون موجود نہیں کہ جس میں کوئی صارف آن لائن سٹور کے خلاف شکایت کر سکے۔ اسی لئے بعض کمپنیاں گھٹیا چیزیں بیچ کر اپنا کام چلا رہی ہیں۔اس کے مقابلے میں ہم ان غیر مسلم ملکوں کو دیکھیں جنہیں ہم صبح شام گالیاں بھی دیتے ہیں اور وہاں کی شہریت بھی لینا چاہتے ہیں وہاں پر کوئی بھی چیز غیر معیاری ہونے پر واپس کر سکتے ہیں اور آپ کو پورے پیسے بھی لوٹا دیے جاتے ہیں۔حتیٰ کہ اگر آپ مقررہ وقت میں کوئی چیز صرف اس لئے واپس کر دیں کہ آپ کو پسند نہیں آئی تب بھی آپ کو تمام رقم ریفنڈ کر دی جاتی ہے۔ مغربی ممالک میں صارف کو بادشاہ کا درجہ حاصل ہے۔وہ جیسے چاہتا ہے‘ جس طرح چاہتا ہے‘ اس کی تسلی کی جاتی ہے لیکن پاکستان جیسے اسلامی جمہوری ملک میں سچے پکے مسلمان سارا سال رمضان اور عیدین کا انتظار کرتے ہیں اور ان دنوں میں اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ رَج کے ظلم کرتے ہیں۔ بڑی عید قریب آئے تو ٹماٹر‘ پیاز سونے کی قیمتوں میں فروخت ہوتے ہیں اور چھوٹی عید قریب ہو تو روزوں میں کھانے پینے کی ہر شے کو آگ لگ جاتی ہے۔میں حیران ہوں ہم سے اکثر لوگوں نے کورونا کے دوران اپنے پیاروں کو تڑپتے ‘سانس اکھڑتے اور قبروں میں اترتے دیکھا ہے‘ اپنی نوکریاں‘ بچی کھچی جمع پونجی اور کاروبار ختم ہوتے دیکھے ہیں لیکن جیسے ہی ہمیں کوئی معاشی و مذہبی مواقع میسر ہوتے ہیں‘ہم اپنے ہی بھائیوں کی چمڑی ادھیڑنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ حکومت نے لاک ڈائون تو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن کورونا کے اِکا دُکا کیسز اب بھی سامنے آ رہے ہیں۔ آپ دیکھئے گا کہ کورونا جب بالکل ختم ہو جائے گا تو وہی لوگ جو کورونا کے دوران گڑگڑا کر وائرس کے خاتمے کی دعائیں مانگ رہے تھے‘ وہی ملاوٹ‘ ذخیرہ اندوزی‘ جھوٹ‘دھوکا دہی اور کاروباری بے ضابطگیوں کو زندگی کے ہر شعبے میں پھر سے معمول بنا لیں گے‘ وہ خدا کا شکر ادا کرنے اور خدمت انسانی کو اپنا شعار بنانے کے بجائے مال جمع کرنے کی دوڑ میں لگ جائیں گے اور انہیں یاد بھی نہیں رہے گا کہ چند ماہ قبل تک وہ اپنے ہی گھروں میں قید تھے‘ ان کے منہ ماسکوں اور ہاتھ سینی ٹائزر کی بوتلوں سے بندھے ہوئے تھے‘ ان کے معاشی ذرائع مفقود ہو چکے تھے اور وہ بے جان پتھروں کی طرح گھروں میں اوندھے پڑے تھے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ ہم کورونا سے واقعی کچھ سیکھ لیتے‘ ہم کافروں سے بہتر نہ سہی ‘ کم از کم ان کی طرح کے انسان ہی بن جاتے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں