حکومت کی جانب سے بجلی سستی کرنے کے اعلانات ایسے وقت میں سامنے آ رہے ہیں جب اشیائے ضروریہ سمیت لگژری آئٹمز کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ ممکن ہے کچھ مہینوں کے مختصر وقت کے لئے‘ عارضی طور پر کچھ ربیٹ دے دیا جائے لیکن مہنگی بجلی خرید کر سستی فراہم کرنا عملی طور پر بھی ممکن نہیں ہے‘ وہ بھی ایسے وقت میں جب کورونا کا طوفان اپنے پیچھے مزید تباہ حال معیشت چھوڑ گیا ہے۔ ابھی تو اس طوفان کی گرد ٹھیک طرح سے بیٹھی نہیں اور نقصان کا درست اندازہ بھی ممکن نہیں۔ ایسے حالات میں عوام کو سبز باغ دکھانے کے بجائے اگر حقیقت کی تصویر دکھا دی جاتی تو زیادہ بہتر ہوتا۔ ہم بنیادی طور پر جذباتی قوم ہیں۔ نعروں اور دعووں کے پیچھے فوری چل پڑتے ہیں۔ حکومت تو سستی بجلی کی بات کرتی ہے‘ میں کہتا ہوں اگر حکومت اسی قیمت میں بجلی کی مسلسل فراہمی ہی ممکن بنا دے تو بھی عوام کو شکرگزار ہونا چاہیے۔ سستی چیزوں اور ڈسکائونٹس کا زمانہ لد گیا۔ اب تو بجلی جیسی نعمتوں کا مل جانا ہی غنیمت اور نعمت سے کم نہیں۔
حکومت بجلی سستی کرنے پر جو اپنی توانائی صرف کرنا چاہتی ہے وہی لاگت بجلی کو ایسے علاقوں پہنچانے کے لئے خرچ کر دے جہاں بجلی دستیاب ہی نہیں تو یہ زیادہ بہتر ہو گا۔ پھر جن علاقوں میں بجلی کا لوڈ یا کرنٹ پورا نہیں آتا اوروہاں ایئر کنڈیشنر تو درکنار چھوٹی موٹی چیزیں بھی چلانا مشکل ہوتا ہے تو ایسے مسائل زیادہ توجہ کے مستحق اور حل طلب ہیں‘ بجائے اس کے کہ ایک بجلی سستی کرنے کا سیاسی اور پُرکشش نعرہ لگا دیں جسے پورا کرنا آپ کے لئے ممکن ہی نہ ہو۔ ویسے بھی بجلی ایک ہی صورت میں سستی ہو سکتی ہے اور وہ ہے اس کی طلب اور رسد کا فرق۔ ابھی تو آپ بجلی کی طلب ہی بمشکل پوری کر پا رہے ہیں تو سستی کہاں سے کریں گے۔ بجلی کے مسائل حل کرنے کا بہترین طریقہ متبادل انرجی کو اختیار کرنا ہے۔ پوری دنیا اس وقت سولر یا شمسی توانائی کی طرف جا رہی ہے۔ یہ نہ صرف سستی یا تقریباً مفت بجلی کا ذریعہ ہے بلکہ اس کے درجنوں فوائد ہیں۔ مثلاً یہ کہ بجلی کے روایتی نیٹ ورک کی طرح آپ کو اس میں طویل اور مہنگا انفراسٹرکچر نہیں بچھانا پڑتا۔ چاہے پہاڑ کی چوٹی ہو یا لق و دق صحرا۔ آپ چند سولر پینل لگا کر بجلی حاصل کر سکتے ہیں۔ آپ کا قیمتی وقت بھی بچتا ہے۔ آپ کو محکموں سے منظوریاں لینے اور بہت زیادہ افرادی قوت کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ اب تو سولر انرجی کے ذریعے بجلی کی فروخت بھی عام ہو چکی ہے۔ یہ طریقہ نیٹ میٹرنگ کہلاتا ہے۔ آپ اپنے گھر میں سولر پینل لگواتے ہیں اور اضافی بجلی گرڈ کو ٹرانسفر کر دیتے ہیں جس سے آپ نہ صرف اپنی بجلی میں خودکفیل ہو جاتے ہیں بلکہ ملک میں بجلی کی ضروریات کو بھی پورا کر رہے ہوتے ہیں۔ کراچی میں کے الیکٹرک، اسلام آباد میں آئیکسو اور لاہور میں لیسکو نیٹ میٹرنگ کی سہولت دے رہے ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ کا بجلی کا میٹر تھری فیز ہو۔ آپ ایک کلو واٹ سے لے کر ایک ہزار کلو واٹ تک کی بجلی بنا کر حکومت کو فروخت کر سکتے ہیں۔ صارفین کو اس کے لئے ایک لائسنس حاصل کرنا پڑتا ہے۔ لیسکو نے تین سال قبل لاہور میں نیٹ میٹرنگ کا آغاز کیا تھا۔ 2017ء میں چوبیس صارفین کو نیٹ میٹرنگ کے لائسنس دیے گئے تھے۔ جنہوں نے چار سو کلو واٹ بجلی بنا کر حکومت کو بیچنا شروع کی تھی۔ یہ سلسلہ اب تیزی سے پھیل رہا ہے۔
ڈالر کے ریٹ بڑھ جانے سے گزشتہ ایک برس سے مہنگائی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے، اوپر سے بجلی کے بھاری بل لوگوں کی برداشت سے باہر ہو رہے ہیں۔ اب جو نئے گھر بن رہے ہیں ان میں لوگ خاص طور پر سولر پینل لگوا رہے ہیں۔ اس سے قبل لوگ یو پی ایس کی وائرنگ رکھواتے تھے۔ نیا گھر بناتے وقت مالک کے پاس آپشن ہوتی ہے کہ وہ اپنے پیسوں کو مختلف انداز میں استعمال کر سکتا ہے۔ اب گھر بنانا ہی مسئلہ نہیں رہا بلکہ اصل مسئلہ اسے چلانا ہے۔ آپ جتنے مرضی پوش ایریا میں عالیشان گھر بنا لیں لیکن اس میں پانی، بجلی اور گیس جیسی ضروریات کی مسلسل فراہمی بھی اتنی ہی ضروری ہوتی ہے جتنا کہ گھر کا ڈیزائن یا لوکیشن۔ پاکستان میں جس طرح موسم تیزی سے بدل رہا ہے اور گرمی سردی کے موسم پر حاوی ہوتی جا رہی ہے‘ ایئرکنڈیشنر ہر گھر کی ضرورت بن چکے ہیں؛ تاہم یونٹ زیادہ استعمال ہوں گے تو بل بھی زیادہ آئے گا۔ اس کا ایک حل تو انورٹر اے سی کی صورت میں نکل آیا ہے جو عام اے سی کی نسبت کم بجلی استعمال کرتا ہے؛ تاہم بہت سے شہری انورٹر اے سی لگا کر بھی خوش نہیں ہیں کیونکہ ان کے بل میں پانچ سات فیصد ہی فرق پڑتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ انورٹر اے سی سے بجلی بچانی کیسے ہے۔ اگر کمرہ بڑا اور اے سی کم ٹن کا ہے تو وہ روم ٹمپریچر برقرار رکھنے کے لئے زور لگاتا رہے گا اور یوں بل کم نہیں ہو گا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ کمرے کے سائز کے حساب سے اے سی منتخب کیا جائے۔ کمرے کی کھڑکیاں وغیرہ بھی ٹھیک طرح سے بند ہوں تبھی یہ فائدہ دے گا۔ اب تو ہزار‘ دو ہزار کی ایک ڈیوائس عام دستیاب ہے جسے آپ اے سی کی پاور ساکٹ میں لگا دیں تو یہ آپ کو بہت سی چیزیں بتائے گی مثلاً اے سی کتنے اپمیئر کھا رہا ہے‘ پیچھے سے کرنٹ وولٹ میں کتنا آ رہا ہے‘ پاور فیکٹر کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس سے آپ کو روزانہ اپنے اے سی کے یونٹس کی کھپت معلوم ہو جائے گی اور بل آنے سے قبل ہی آپ کو معلوم ہو گا کہ آپ کا بل کتنا ہو گا۔ آپ دستیاب ڈیٹا کے مطابق بجلی کا بل مرضی کے مطابق کنٹرول کر سکیں گے۔ پاکستان میں لوگوں کو چونکہ اس حوالے سے بہت زیادہ معلومات نہیں ہوتیں اس لئے بھاری بل آنے پر وہ شور مچا دیتے ہیں۔ گھر میں کتنے واٹ کے بلب لگے ہیں یہ تک عام لوگوں کو معلوم نہیں ہوتا۔ وہ سستا بلب خرید کر ایک مرتبہ تو پیسے بچا لیتے ہیں لیکن ماہانہ بل پر بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ آج کل تو ایسے بلب آ گئے ہیں جو تین واٹ پاور لیتے ہیں لیکن روشنی پچاس واٹ کی دیتے ہیں۔ یہ قیمت میں دو گنا ہوتے ہیں لیکن انہیں آپ چوبیس گھنٹے بھی چلائیں تو ان کا ماہانہ بل کا اضافہ بیس تیس روپے ہی ہو گا۔ جبکہ عام بلب جو پچاس واٹ بجلی کھا رہا ہے وہ ایک دن میں بیس تیس روپے کا بل بنا ڈالے گا۔
دوسری جانب برطانیہ سولر انرجی میں ایک نیا انقلاب برپا کرنے کو ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں پیروسکائٹ نامی ایک لیئر ایجاد کر لی گئی ہے جو سول پینلز پر لگا دی جائے تو سولر پینل سے پیدا ہونے والی بجلی میں تین گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔ کمپنی نے اگلے سال یہ ٹیکنالوجی مارکیٹ میں لانے کا اعلان کیا ہے ۔ یہ کمپنی گزشتہ دس برس سے اس ٹیکنالوجی پر کام کر رہی تھی اور اسے برطانوی حکومت کی جانب سے اس منصوبے کی تحقیق پر کام کرنے کے لئے 2010ء میں ایک لاکھ برطانوی پائونڈ بھی ملے تھے۔ آج دس سال بعد بالآخر اس نے سولر پینل سے نکلنے والی بجلی کو تین گنا زیادہ طاقتور بنا دیا ہے۔ سولر پینل کی لائف پچیس سال ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ گھر میں سولر پینل لگوا لیں تو تقریباً پانچ سال بعد آپ مکمل مفت بجلی حاصل کرنے لگتے ہیں یوں اگلے بیس سال آپ بجلی کے بلوں کی ٹینشن سے مکمل طور پر آزاد ہو جاتے ہیں۔
حکومت بجلی سستی کرنے کی کوشش ضرور کرے لیکن دنیا اب ان چیزوں سے کئی قدم آگے نکل چکی ہے۔ اب دنیا میں بجلی کو بنیادی حقوق میں شامل کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں اور اسے مکمل مفت کرنے کی جانب اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں اگر عوام کو سولر پینلز لگوانے کے لئے بلا سود قرضے دیے جائیں‘ شمسی پینلز سے ڈیوٹی مکمل ختم اور انہیں ملکی سطح پر تیار کیا جائے اور بجلی بنا کر حکومت کو بیچنے کے سلسلے کو فروغ کیا جائے تو نہ صرف ملک میں بجلی کی رسد‘ قیمت اور لائن لاسز کے مسائل بالکل ختم جائیں گے بلکہ پاکستان خطے کو بجلی برآمد کرنے والا ملک بھی بن سکے گا۔