''اگر آپ کے پاس کوئی خواب نہیں ہے تو پھر آپ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے‘‘۔ یہ جملہ سات مرتبہ مسٹر اولمپیا کا ٹائٹل جیتنے والے تن ساز‘ہالی وڈ ہیرو اور کیلیفورنیا کے سابق گورنر آرنلڈ شوازنیگر کا ہے۔ امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے آرنلڈ نے کہا: میں جب آسٹریا سے امریکہ آیا تو میرے پاس سوائے ایک خواب کے کچھ نہیں تھا۔ میرے پاس رہنے کو جگہ تھی نہ کھانے کو پیسے۔میں جس جگہ پر رہتا تھا وہاں فریج تک میسر نہیں تھی لیکن میں جانتا تھا انسان وہی امیر ہوتا ہے جس کے پاس کوئی خواب ہو‘ جس کے سامنے زندگی کا کوئی مقصد ہو ۔ دنیا کا بہترین تن ساز بننا میرا خواب تھا۔ اس کے لئے میں ایک ہی کام کر سکتا تھا اور وہ تھی محنت۔ بالآخر وہ دن آیا جب میں نے تن سازی کا سب سے بڑا مقابلہ مسٹر اولمپیا جیتا اور اس کے بعد کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ہالی وڈ کی فلموں میں آنا میرا دوسرا خواب تھا۔ یہ خواب میں نے تن سازی کے دوران دیکھا۔ میری یہ خواہش بھی پوری ہوئی اور ٹرمینیٹر جیسی بلاک بسٹر فلم نے مجھے ہالی وڈ کا سب سے بڑا اور مہنگا ہیرو بنا دیا۔ فلموں میں اداکاری کے دوران میں تیسرا خواب دیکھا اور وہ سیاست میں آنا تھا۔ مجھے معلوم تھا میں عمر کے تیسرے یا آخری حصے میں نہ باڈی بلڈر رہوں گا اور نہ ہی فلموں میں کامیابی دکھا سکوں گا‘ چنانچہ میں نے سیاست میں دلچسپی لینا شروع کی اورپھر وہ دن بھی آیا جب میں کیلیفورنیا جیسی بڑی امریکی ریاست کا گورنر بنا۔ میرے یہ تین خواب میری زندگی کے تین حصوں پر مشتمل تھے۔ میرے والد مجھے پولیس آفیسر اور والدہ بزنس مین بنانا چاہتی تھیں لیکن میں نے وہی کیا جس کا مجھے شوق تھا۔ میں نے اپنے شوق کو اپنا پروفیشن بنا لیا اور یوں کامیابیاں سمیٹتا چلا گیا۔
صرف آرنلڈ کی ہی بات نہیں‘ آپ دنیا کے کسی بھی کامیاب شخص کی بائیو گرافی پڑھ لیں‘ آپ کو جو مشترک چیز نظر آئے گی وہ خواب ہو گی۔انسان وہی کچھ بنتا ہے جس کی وہ خواہش رکھتا ہے اور جو انسان بنا خواہش‘ بنا خواب کے چلتا ہے‘ وہ پھر قسمت کے تھپیڑوں اور غیر یقینی کی لہروں میں بہتا چلا جاتا ہے۔ آج تک جتنی بھی بڑی ایجادات ہوئی ہیں‘ جتنے بھی بڑے موجد اور بڑے نام گزرے ہیں انہوں نے اپنی زندگی کے اوائل میں کبھی نہ کبھی کوئی نہ کوئی خواب ضرور دیکھا تھا۔عجیب بات یہ ہے کہ ان میں سے ننانوے فیصد کے حالات پسماندہ تھے‘ حتیٰ کہ کئی تو جسمانی اور نفسیاتی طور پر بھی معذور تھے لیکن انہوں نے محنت کی‘ مسلسل کی اور اپنا نام بنا لیا۔
ہم سب مسٹر بین کے شو دیکھ چکے ہیں۔ بچپن میں اس کی زبان میں لکنت تھی‘ وہ ایک خصوصی تعلیم کے سکول میں داخل ہوا‘ اس کی نفسیاتی تربیت ہوئی‘ وہاں اسے ایک آئیڈیا آیا‘ اس نے ایک تھیڑ میں ایک مزاحیہ کردار نبھایا اور ایک دن مسٹر بین جیسی مقبول سیریز کا ہیرو بن گیا۔ اسی طرح تھیڈور روزویلٹ پیدائشی طور پر مرگی کا مریض تھا‘ اس کی بصارت تقریباً نہ ہونے کے برابر تھی اور اسے دمے کی بھی شکایت تھی لیکن یہی شخص‘ بیالیس سال کی عمر میں امریکہ کا صدر بن گیا۔آئزک نیوٹن کو بھی مرگی کے دورے بھی پڑتے تھے اور یہ عام لوگوں سے میل جول بھی نہیں رکھ سکتا تھا لیکن اسی شخص نے کششِ ثقل اور حرکت کے تین اہم قوانین دریافت کئے اور تاریخ میں ہمیشہ کیلئے زندہ ہو گیا۔فرینکلین روزویلٹ کا پولیو کی وجہ سے نچلا دھڑ مکمل طور پر مفلوج ہو گیاتھا لیکن یہ امریکہ کا صدر بن گیا اور اس تقریباً نابینا صدر کے دور میں امریکی معیشت نے بے پناہ ترقی کی ۔جیکوب بولٹن بصارت سے محروم تھا لیکن یہ دنیا کی تاریخ کا پہلا نابینا ڈاکٹر بنا۔ تھامس ایڈیسن کی سماعت بچپن میںزائل ہو گئی تھی لیکن یہ شخص امریکہ کی تاریخ کا روشن ستارہ بنا‘ یہ صحتمند لوگوں سے آگے نکل گیا‘ اس نے بلب ایجاد کیا اور اس بلب نے ساری کی ساری دنیا روشن کر دی‘ دیگر ہزار کے قریب ایجادات اس کے علاوہ ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جو کسی نہ کسی جسمانی معذوری کا شکار تھے لیکن انہوں نے خواب دیکھے اور ان کی تعبیر کے لئے دن رات ایک کر دیا۔
آج ہمارے نوجوانوں کے پاس کیا کچھ نہیں۔ انٹرنیٹ‘ موبائل‘ کمپیوٹر‘ بہترین ذرائع آمدورفت... اس کے باوجود یہ کوئی نہ کوئی رونا روتے رہتے ہیں۔یہ ایک دن ایک ماہ یا زیادہ سے زیادہ ایک سال کے اندر کامیابی چاہتے ہیں۔ جبکہ ایک تحقیق کے مطابق کسی بھی بڑی کامیابی کے پیچھے کم از کم بیس سال کی محنت درکار ہوتی ہے۔ لیکن اگر آپ صرف اپنے حالات ہی بہتر کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے بھی پانچ سے دس برس درکار ہوتے ہیں۔ یہ وہ فیز ہے جس سے ہر کسی کو گزرنا پڑتا ہے ۔ہر کسی کی زندگی میں اونچ نیچ آتی ہے۔ دنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں ملے گا جس نے کوئی کامیابی حاصل کی ہو‘ کسی خواب کی تعبیر پائی ہو اور اس کے لئے اس نے کوئی قیمت ادا نہ کی ہو۔ چاہے اداکار ہو‘ سیاستدان ہو یا بزنس مین‘ سبھی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کامیابی کے حصول کیلئے سب سے اہم نکتہ خدا پر یقین اور ایمان ہے ۔ یہ انسان کیلئے کتنا اہم ہے‘ اس کا انسان کو اندازہ ہو جائے تو وہ ساری رات سجدے میں گزار دے۔ ایسے لمحات ہر شخص کی زندگی میں آتے ہیں جب ہر راستہ بند گلی میں جا نکلتا ہے‘ جب مادی وسائل جواب دے جاتے ہیں او رجب عقل کے سمندر کی حد تمام ہو جاتی ہے اور ایسا وقت ہم سب کی زندگی میں آتا ہے‘ ہم رزق کی تنگی کا شکار ہوجاتے ہیں‘ ہم مقروض ہو جاتے ہیں‘ ہم ناجائز مقدمات میں پھنس جاتے ہیں‘ ہمیں اولاد کے لئے مناسب رشتے نہیں ملتے‘ ہماری زمین‘ ہمارے مکان اور ہماری دکان پر ناجائز قبضہ ہو جاتا ہے‘ ہماری قیمتی چیز گم جاتی ہے‘ ہم کسی خوفناک بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں‘ ہمیں کاروبار میں نقصان ہو جاتا ہے‘ ہم اچھا روزگار حاصل نہیں کر پاتے‘ ہم اولاد کی نعمت سے محروم رہتے ہیں‘ ہم بیٹے کو ترس جاتے ہیں‘ ہمارا کوئی کام ہوتے ہوتے رہ جاتا ہے اور ہم بیک وقت کئی مشکلات میں گرفتار ہو جاتے ہیں اور یہ وہ مقام ہوتا ہے جہاں سے انسان کا اصل امتحان شروع ہوتا ہے اور اس امتحان میں جو شخص بھی کوشش ترک کر دیتا ہے‘ جو مایوسی کی دلدل میں پھنس جاتا ہے اور جو خدا سے تعلق کو ترک کر دیتا ہے وہ شخص زندگی میں دوبارہ کبھی نہیں اُٹھ پاتا۔
بعض اوقات قدرت انسانوں کو بہت سی نعمتیں عطا کرتی ہے جس کا وہ شکر ادا نہیں کرتے۔ اس کا خمیازہ بھی انسان کو بھگتنا پڑتا ہے کہ جتنا صبر ضروری ہے اتنا ہی شکر۔لیکن انسان کو ملتا وہی ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے یا جس کا وہ خواب دیکھتا ہے۔ کوئی بڑا خواب دیکھتا ہے تو کوئی چھوٹا۔ اسی لئے تو آرنلڈ جیسا کوئی آسٹریاکے چھوٹے سے گائوں سے نکل کر امریکی ریاست کا گورنر بن جاتا ہے تو کوئی وزیراعظم اور بادشاہ کا بیٹا ہوتے ہوئے بھی ساری زندگی گمنامی میں گزار دیتا ہے۔اسی طرح کچھ لوگ 'جیسے چل رہا ہے چلنے دو‘ کے تحت زندگی گزارتے ہیں۔ وہ اپنے حالات کو بدلنے کی خواہش تک ترک کر چکے ہوتے ہیں اس کے باوجود زندگی سے گلہ بھی کرتے رہتے ہیں۔دنیا کا کوئی انسان ایسا نہیں جسے آگے بڑھنے اور بہتری کا کوئی چانس نہ ملا ہو۔ چانس ہر کسی کو ملتا ہے لیکن رِسک کوئی کوئی لیتا ہے۔ جس طرح ہر پھول کے ساتھ کانٹے ہوتے ہیں اسی طرح ہر کامیابی کے حصول کی راہ میں مشکلات جڑی ہوتی ہیں۔ جو کامیابی کسی مشکل‘ کسی محنت کے بغیر مل جائے وہ کامیابی بہت عارضی اور مصنوعی ہوتی ہے۔ یہ زیادہ دیر برقرار نہیں رہتی۔ اس کے برعکس جو انسان خواب دیکھتا ہے اور اس کے بعد اپنی راہ میں آنے والی ہر مشکل کا مقابلہ کرنے کے لئے تیاررہتا ہے‘ اس کی کامیابی دیرپا ہوتی ہے۔ وہ ایک خواب کے بعد اگلا خواب دیکھتا ہے اور یوں ترقی کی منزلیں طے کرتا چلا جاتا ہے چنانچہ کامیابی کا حصول خواب دیکھے بغیر ممکن نہیں اور جو شخص اپنی زندگی میں کوئی اہداف مقرر نہیںکرتا‘جو خواب نہیں دیکھتا‘ اس کی زندگی یونہی بے ثمر اور رائیگاں چلی جاتی ہے!