اگر آپ پاکستان کے شہری ہیں‘ آپ کے پاس قومی شناختی کارڈ بھی موجود ہے‘ سالانہ ٹیکس فائل کرنے کے ساتھ ساتھ ہر چیز کی خریداری پر سیلز ٹیکس بھی دیتے ہیں اور آپ کے دیے گئے اس ٹیکس سے دیگر محکموں کی طرح محکمہ پولیس کا نظام بھی چلتا ہے‘ پولیس کانسٹیبل سے لے کر سی سی پی او اور آئی جی تک کو تنخواہیں ملتی ہیں‘ تھانوں میں بجلی‘ کھانے‘ پینے‘ حوالات‘ فرنیچر اور دیگر اخراجات بھی ٹیکس کے انہی پیسوں سے پورے کئے جاتے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہ سمجھئے کہ یہ پولیس‘ یہ تھانے اور ان کی سروسز آپ کی حفاظت کے لئے ہیں اور یہ مصیبت پڑنے پر آپ کے کام آئیں گے کیونکہ سیالکوٹ موٹر وے واقعے کے بعد سی سی پی او لاہور نے جو فرمان جاری کیا ہے اس کے مطابق آپ اور آپ کے اہل خانہ کی جان مال اور عزت کا تحفظ پولیس کا نہیں بلکہ آپ کا اپنا فرض ہے اور اگر آپ یہ فرض پورا نہیں کرتے اور آپ کے ساتھ کوئی سنگین واقعہ پیش آ جاتا ہے تو پھر تمام تر نقصان کی ذمہ دار پولیس نہیں صرف اور صرف آپ ہیں۔ اور پاکستان جیسے ملک میں رہتے ہوئے اور یہاں کے حالات کو دیکھتے ہوئے آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ غلطی آپ کی ہو اور تحفظ کی امید آپ پولیس سے لگائیں۔ موصوف نے بالکل درست کہا کہ خاتون کو رات گئے باہر نہیں نکلنا چاہیے تھا کیونکہ رات کو تو ڈکیتوں کے جاگنے اور پولیس کے آرام کرنے کا وقت ہوتا ہے اور کسی کے آرام میں خلل ڈالنا ویسے بھی درست نہیں کیونکہ جب تک پولیس کو آرام نہیں ملے گا تب تک وہ تازہ دم نہیں ہو گی اور تازہ دم نہیں ہو گی تو کام کیسے کرے گی؛ چنانچہ آج سے عوام کو یہ تہیہ کر لینا چاہیے کہ وہ کسی بھی کام کے لئے رات کو گھر سے باہر نہیں نکلیں گے‘ اگر کسی کی طبیعت خراب یا کوئی ایمرجنسی بھی ہو جاتی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ صبح تک انتظار کرے‘ اگر اللہ نے زندگی رکھی ہوئی تو جان بچ جائے گی اور نہ رکھی ہوئی تو آدھی رات کو خطرہ مول لے کر باہر نکلنے سے بھی نہیں بچے گی۔ ویسے اگرا یسا ہوتا ہے تو پہلے تو شہریوں کو یہ بتانا چاہیے کہ آدھی رات کو طبیعت خراب ہوتی کیوں ہے‘ آخر وہ رات کو ایسا کیا کھا لیتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں ہسپتال جانے کے لئے باہر نکلنا پڑ سکتا ہے‘ جب شہری اپنی صحت کی پروا نہیں کریں گے اور ضرورت سے زیادہ یا مضر صحت اشیا کھائیں گے تو اس میں سارا قصور پھر انہی کا ہو گا۔ سی سی پی او نے درست کہا کہ خاتون کو موٹر وے کے بجائے جی ٹی روڈ کا راستہ اختیار کرنا چاہیے تھا کیونکہ اگر خاتون کے ساتھ یہ واقعہ خدا نخواستہ جی ٹی روڈ پر پیش آتا تو پنجاب پولیس ماضی کی ''شاندار‘‘ روایات کے مطابق منٹوں میں موقع پر پہنچ جاتی اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچا دیتی؛ چنانچہ آئندہ سے تمام شہریوں کو چاہیے کہ وہ موٹر وے پر جانا ترک کر دیں کیونکہ یہاں جانے والا خود ذمہ دار ہو گا بلکہ اس سلسلے میں اعلیٰ پولیس افسران کو چاہیے کہ شہریوں کی سہولت کے لئے ان تمام سڑکوں کی فہرست فراہم کر دیں جن پر شہری بلاجھجک سفر کر سکتے ہیں۔
اعلیٰ پولیس افسر نے خاتون پر جو بھی سوالات اٹھائے‘ وہ سب درست ہیں کیونکہ جس خاتون کو یہ معلوم نہیں کہ پاکستان میں تو قانون نام کی کوئی شے ہی نہیں اور جہاں ساہیوال جیسے واقعے میں خود سکیورٹی اہلکار بچوں کے سامنے ان کے والدین کو قتل کر کے باعزت بری ہو جاتے ہیں‘ وہاں پر آدھی رات کو یہ سوچ کر نکلنا کہ وہ اکیلے سفر کرنے کے باوجود محفوظ رہے گی اور خدا نخواستہ کوئی سانحہ پیش آ بھی گیا تو پولیس اس کی حفاظت کو آئے گی‘ انتہائی بیوقوفی کی بات ہے؛ چنانچہ آج سے تمام شہریوں کو چاہیے کہ وہ گھر سے باہر سوچ سمجھ کر نکلیں بلکہ گھر میں بھی سوچ سمجھ کر رہیں کیونکہ اگر گھر میں گھس کر ڈاکوئوں نے نقصان پہنچا دیا تو اس کی ذمہ داری بھی آج سے شہریوں پر ہی عائد ہو گی کہ وہ ایسے گھر ہی کیوں بناتے ہیں جن پر ڈاکوئوں کی نظریں للچائیں۔
لہٰذا اعلیٰ پولیس افسران کے نافذ کئے گئے نئے قوانین کے تحت آج کے بعد اگر کسی گھر میں بھی واردات ہو گئی تو اس گھر کا مالک یا کرایہ دار ہی ذمہ دار ٹھہرے گا، اگر کسی پوش علاقے میں کسی کے گھر ڈکیتی ہو گئی تو وہ اس کا ذمہ دار اس لئے ہو گا کیونکہ اس نے رہائش کے لئے پوش علاقے کا انتخاب کیا اور ظاہر ہے ڈاکوئوں کو پوش علاقوں سے ہی زیادہ مال ملنے کی امید ہوتی ہے اور بالفرض اگر ڈاکو کسی غریب کا گھر لوٹ لیتے ہیں تو اس کا ذمہ دار وہی غریب ہو گا کیونکہ اگر وہ غریب نہ ہوتا تو اپنے گھر ایک دو سکیورٹی گارڈ رکھ لیتا اور ڈاکوئوں کے سامنے مزاحمت تو کرتا اور آج کے بعد کسی راہ چلتی گولی کا نشانہ بننے والوں کو بھی یہ نیا شاہی فرمان سمجھ لینا چاہیے کہ اگر ان کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ پیش آ جاتا ہے تو انہیں پولیس پر ملبہ ڈالنے کے بجائے یہ سوچنا چاہیے کہ وہ اس جگہ سے گزرے کیوں؟ شہر میں آنے جانے کے ہزاروں راستے ہیں‘ جب پتا ہے کہ کہیں بھی دھماکا ہو سکتا ہے‘ کہیں سے بھی گولی آ سکتی ہے تو پھر باہر نکلنے میں خود ہی احتیاط کرنی چاہیے۔
آج کے بعد اگر کسی کے گھر کے باہر کھڑی گاڑی کو چوری کر لیا جاتا ہے یا اس کے شیشے اتار لئے جاتے ہیں تو اس کا ذمہ دار بھی وہ شخص خود ہی ہے کہ اس نے گاڑی گھر میں کیوں نہ کھڑی کی اور اگر گھر میں گاڑی کی جگہ نہیں تھی تو گاڑی خریدی کیوں اور اگر خرید لی تھی تو اس میں تالے اور سکیورٹی سسٹم کیوں نہیں لگوایا اور اگر کوئی سسٹم لگوایا تھا تو اتنا ناقص کیوں لگوایا تھا کہ چور آرام سے لے اڑے‘ ان سوالوں کے بارے میں شہریوں کو اب تیار ہو جانا چاہیے اور ایسے شہری جو صبح واک کے دوران گن پوائنٹ پر لٹ جاتے ہیں‘ انہیں بھی تھوڑی عقل کرنی چاہیے کہ اب واک کے کون سے زمانے ہیں کہ ہر کوئی تو موبائل پر لگا ہے‘ اب اِکا دُکا لوگ واک کریں گے تو ڈاکوئوں کو شہ بھی آئے گی اور ڈکیتیاں بھی ہوں گی اور ویسے بھی یہ شہری واک کرتے کیوں ہیں‘ اگر انہیں اپنی صحت کی اتنی فکر ہے تو پھر یہ اپنے کمروں میں‘ گھروں میں ہی واک کر لیا کریں، آخر کورونا کے دوران بھی تو لوگ گھروں میں زندہ تھے، سب کچھ کرتے تھے تو لاک ڈائون کے بعد بھی صبر کر سکتے ہیں۔ پارکوں میں جاکر لٹنے اور پھر پولیس کو طعنے دینے والے شہری کیوں اپنی جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں؟
اور یہ جو کل ایک روز میں ہی لاہور میں آٹھ ڈاکے پڑے ہیں‘ اس میں بھی کہیں نہ کہیں شہریوں کا ہی قصور ہے کہ ایک واقعے میں تو شہری نے ڈاکو کے ساتھ مزاحمت کرنے کی کوشش بھی کی جبکہ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ ڈاکو اپنے پاس اسلحہ رکھتے ہیں اور فوری گولی چلا دیتے ہیں تو پھر چپ چاپ شہری نے اپنی موٹرسائیکل اور موبائل فون ڈاکو کو کیوں نہ پکڑا دیا اور جن خواتین کے زیورات گزشتہ روز چھینے گئے تو انہیں بھی خدا کا خوف کرنا چاہیے کہ لوگوں کے پاس تو کھانے کے پیسے نہیں اور یہ زیورات پہنے گھوم رہی ہیں اور یہ جن لوگوں سے کل لاکھوں کی نقدی چھینی گئی تو کیا وہ نقدی کے بجائے آن لائن ٹرانزیکشن نہیں کر سکتے تھے؟ چنانچہ پنجاب پولیس کو عوام کی تمام کنفیوژنز دور کر دینی چاہئیں اور پولیس کے اس اعلیٰ افسرکے ''فرمودات‘‘ کی روشنی میں بچوں کے نصاب ‘ درسی کتب ‘چوکوں چوراہوں اور بل بورڈز پر یہ لکھ دینا چاہیے کہ آج سے ہونے والی ڈکیتیوں‘ قتل اور چوریوں کی سو فیصد ذمہ داری شہریوں پر عائد ہوتی ہے‘ شہریوں کو خود ہی اپنا خیال رکھنا ہے اور پنجاب پولیس سے تحفظ کی ذرا بھی امید نہیں کرنی چاہیے۔ جو ایسا کرے گا وہ اپنے نقصان کا خود ذمہ دار ہو گا۔