بدقسمتی اگر انسان کے ساتھ ہو تو الماریوں میں رکھے درجنوں ایوارڈز بھی انسان کے کام نہیں آتے۔ ہمارے ملک کے ایک سینئر اداکار کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔وہ پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ بھی حاصل کر چکے ہیں اور پاکستان کے جس گھر میں بھی ٹیلی وژن موجود ہے وہ گزشتہ چار دہائیوں سے اس گھر کے مکین ہیں۔ گزشتہ دنوں ان کی سوشل میڈیا پر ایک وڈیو سامنے آئی جس میں انہوں نے چھ سو بیس روپے کا ایک چیک دکھایا جو انہیں سرکاری ٹی وی کی طرف سے ایک پروگرام میں کام کرنے کے معاوضے کی صورت میں بھیجا گیا تھا۔ یہ بلاشبہ اس قدر سینئر اداکار کے ساتھ زیادتی تھی اور اس پر ان کے لئے سوشل میڈیا‘ الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا نے بھرپور آواز اٹھائی جس پر سرکاری ٹی وی کی طرف سے معذرت کی گئی۔ انہوں نے یہ معذرت قبول کر لی اور معاملہ ختم ہو گیا۔ لیکن اس ایک واقعے نے یہ ثابت کر دیا کہ آپ جتنے مرضی ایوارڈز‘ جتنے مرضی میڈل اور سرٹیفکیٹ حاصل کر لیں‘ بالآخر وقت کے ساتھ انسان کا زوال آ ہی جاتا ہے۔ ادارے وہی ہوتے ہیں لیکن پرانے لوگوں کی جگہ نئے لوگ لے لیتے ہیں اور آپ کی اہمیت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ ہم آئے روز ایسے لوگوں‘ ایسے کھلاڑیوں کو دیکھتے ہیں جو ایوارڈز لے کر سڑک پر بیٹھ جاتے ہیں‘ حکومتی عدم توجہی پر احتجاج کرتے ہیں اور اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھاتے ہیں۔ اگر ان کی قسمت اچھی ہو اور کوئی میڈیا چینل ان کا نوحہ نشر کر دے تو کچھ نہ کچھ نوٹس لے لیا جاتا ہے ورنہ بات آئی گئی ہو جاتی ہے۔ ایک خاص وقت گزرنے کے بعد ایوارڈز کی اہمیت صرف الماری پر سجے گلدانوں کی سی ہو جاتی ہے۔
اصل سوال یہ ہے کہ ایوارڈ زیادہ اہم ہیں یا کام۔ وہ زمانے لَد گئے جب آپ اپنے سی وی میں حاصل کردہ ایوارڈز کی فہرست لکھ کر معقول روزگار حاصل کر لیتے تھے۔ آج مگر زمانے کے ساتھ چلنا زیادہ ضروری ہے۔ آپ خود دیکھیں کہ آپ کو کوئی بندہ اس لئے یاد ہے کہ اس نے فلاں وقت فلاں معرکہ مارا تھا یا اس لئے کہ اس کی الماری میں اتنے ایوارڈز پڑے ہیں۔ آپ یہ مانیں گے کہ آپ کو جاوید میانداد کسی ایوارڈ کی وجہ سے نہیں بلکہ اُس چھکے کی وجہ سے یاد ہے جو انہوں نے شارجہ میں مارا تھا‘ آپ کو ماننا پڑے گا آپ کو عبدالقادر اس لئے پسند ہیں کہ یہ اتنی خطرناک گگلی کرواتے تھے کہ بیٹنگ کرنے والا ششدر رہ جاتا تھا کہ بال کہاں سے آئی اور کہاں گئی۔ آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا میڈم نور جہاں آپ کو اس لئے پسند نہیں کہ انہیں فلاں صدر نے فلاں ایوارڈ سے نوازا تھا بلکہ اس محبت کی بنیاد ان کا پینسٹھ کی جنگ میں ''ایہہ پتر ہٹاں تے نئیں وکدے‘‘ گانا تھا جس نے کروڑوں دلوں کو نیا حوصلہ دیا تھا‘ آپ مانیں گے آپ کو عالمگیر سے اس لئے محبت ہے کہ انہوں نے یادگار ترین قومی ترانے گائے‘ آپ کو وارث ڈرامہ کسی صدارتی ایوارڈ کی وجہ سے پسند نہیں بلکہ اس لئے پسند ہے کہ سکرپٹ سے لے کر ایکٹنگ تک‘ ایک ایک سین آج بھی آپ کی یادوں میں پیوست ہے‘ آپ مانیں گے آپ کو جہانگیر اور جان شیر اپنے خوبصورت شاٹس اور کھیل کی وجہ سے پسند ہیں‘ آپ کے دل کو احمد فراز‘ فیض احمد فیضؔ کی خوبصورت شاعری نے موہ لیا ہوا ہے اور وطن کے لئے شہادت کی وجہ سے ہی راشد منہاس آپ کا ہیرو بنا ہے اور آپ کو قائداعظم اور علامہ اقبال اس لئے پسند ہیں انہوں نے آپ کو آزادی کی چاشنی چکھنے کا موقع دیا‘ آپ کو آپ کی شناخت دلائی‘ آپ کے فرشتوں کو بھی معلوم نہ ہو گا کہ ان سب لوگوں کو کب کب کون سے اور کتنے ایوارڈ ملے تھے۔ یہ باتیں صرف اس شخص کے لئے مخصوص مدت تک کارآمد رہتی ہیں۔ اس کے بعد ایوارڈ حاصل کرنے والا خود بھی بھول جاتا ہے کہ اسے کتنے ایوارڈز ملے۔ بعض اوقات تو یہ ایوارڈز گرد‘ مٹی کی نذر ہو جاتے ہیں‘ الماری کے کسی کاٹھ کباڑ کا حصہ بن جاتے ہیں یا پھر ردی کی ٹوکری میں چلے جاتے ہیں۔انتونیر مینوز جرمنی کا بہت بڑا کار ریسر تھا۔ اس نے کار ریسنگ کے کئی مقابلے جیتے اور سینکڑوں ایوارڈز حاصل کئے۔ لیکن ایک کار حادثے میں وہ شدید زخمی ہو گیا اور سونگھنے اور چکھنے کے حواس تک کھو بیٹھا۔ اب انتونیو اگر ہمارے لوگوں کی طرح سڑک پر اپنے ایوارڈ لے کر بیٹھ جاتا اور حکومت سے امداد اور مدد کی اپیل کرتا تو کس نے اس کی بات سننا تھی؟ انتونیو نے مگر ہار نہیں مانی اور اپنی فیلڈ بدل لی۔ اس نے کاروبار کی کوشش کی مگر ناکام ہوا۔ اداکاری کے میدان میں قدم رکھا اور بالآخر اپنا نام بنا لیا۔ ایک وقت آیا کہ انتونیو ٹی وی کے پندرہ سیکنڈ کے کمرشل کا پانچ لاکھ ڈالر معاوضہ وصول کر رہا تھا‘ وہ کار حادثے میں سونگھنے اور چکھنے کے حواس بہت پہلے کھو چکا تھا لیکن حقیقت میں وہ زندگی کی اصل خوشبو سونگھنے اور زندگی کا اصل ذائقہ چکھنے میں ماسٹر تھا اور اس کی یہی خوبی اسے ایک کامیاب انسان بنا گئی۔ آپ انتونیو کو دیکھئے اور اس کا اپنی زندگی سے موازنہ کیجئے‘ آپ کو پانچ بنیادی فرق دکھائی دیں گے: پہلا‘ انتونیو وہی کام کرتا تھا جو اس کے دل کو لگتا تھا‘ جس سے اسے عشق تھا اور جس کی اس میں صلاحیتیں موجود تھیں۔ دوسرا‘ انتونیو کی کامیابی سے علم ہوتا ہے کہ انسان کو بنیادی طور پر جنونی ہونا چاہیے‘ اسے اپنے کام سے جنون کی حد تک محبت ہونی چاہیے۔ تیسرا‘ حادثے انسان کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے‘ انسان چاہے تو انہیں عبور کر سکتا ہے۔ چوتھا‘ انسان ایک سے زیادہ شعبوں میں بھی اعلیٰ ترین کارکردگی دکھا سکتا ہے۔ پانچواں‘ انسان کو پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا چاہیے‘ جب انسان ایک کام کر رہا ہو تو اس کی نظر اگلے منٹ‘ اگلے کام اور اگلی منزل کی جانب ہونی چاہیے۔
یہ انتونیو کی زندگی تھی‘ لیکن ہم کیا کرتے ہیں‘ یہ بھی دیکھ لیجئے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سب ڈاکٹر‘ انجینئر بن رہے ہیں‘ ہم بھی اپنے بچوں کو یہی بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب وہ ڈاکٹر انجینئر نہیں بن پاتے تو پھر ساری زندگی انہیں لعنت ملامت کرتے رہتے ہیں۔ ہم جو بھی کام کرتے ہیں‘ بے دلی‘ بے دھیانی اور بے حسی سے کرتے ہیں۔ ہماری نظر صرف اور صرف تنخواہ پر ہوتی ہے؛ چنانچہ ہم نو سے پانچ تک خچر کی طرح کام کرتے ہیں اور اس کے بعد تنخواہ کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ ہمیں ذرا سا زکام ہو جائے‘ ہماری کمر میں بل پڑ جائے یا بادل ذرا گہرے ہو جائیں‘ ہم فوراً چھٹی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ ہم اگر ایک شعبے میں کارکردگی نہ دکھا سکیں تو ساری عمر اُسی میں سر نیچے کر کے گزار دیتے ہیں‘ روکھی سوکھی کھا لیتے ہیں لیکن جاب اور میڈیم تبدیل کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ ہم پیچھے مڑ مڑ کر دیکھنے کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ ہماری نظریں ہمارے مقصد پر فوکس ہی نہیں ہو پاتیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انتونیو زندگی کے فیصلے خود کرتا تھا لیکن ہم جیسے لوگ اپنی زندگی کے ہر قدم‘ ہر جنبش اور ہر حرکت کیلئے دائیں بائیں دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں اور ہر کام کیلئے سہارے کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ہماری اس سے بھی بڑی غلطی ماضی کی دلدل میں دھنسے رہنا ہے۔ جب تک ہم حال اور مستقبل میں جینا نہیں سیکھتے‘ معاشرہ ہمیں عزت نہیں دے سکتا۔
درحقیقت لوگوں کی محبت‘ لوگوں کی چاہت سے بڑا ایوارڈ کوئی نہیں ہوتا‘ آپ جو بھی ہیں آپ اپنے کام میں نئی جدت نئے زاویے پیدا کر لیں‘ اپنے سامعین‘ ناظرین‘ قارئین اور کسٹمرز کی امیدوں پر پورا اتر جائیں‘ آپ دیکھیں گے لوگ آپ کو اتنی محبت دیں گے کہ آپ کو اس محبت کے سامنے دنیا کے سارے ایوارڈ‘ سارے انعامات ہیچ لگنے لگیں گے۔ لوگ آپ کو دو سو سال تک اپنے دل میں بسا لیں گے اور آپ کی محبت نسل در نسل منتقل ہونے لگ جائے گی؛ چنانچہ انسان چاہے کسی فیلڈ میں ہو‘ یہ شاعر ہو‘ بڑھئی ہو‘ فنکار ہو‘ بزنس مین ہو‘ اینکر ہو‘ ادیب ہو یا کچھ بھی ہو‘ یہ بڑا تب بنتا ہے جب یہ لوگوں کے دلوں میں بستا ہے اور کامیابی کو برقرار رکھنا سیکھ لیتا ہے کیونکہ کامیابی حاصل کرنا شاید اتنا مشکل نہیں جتنا کامیابی کا تسلسل برقرار رکھنا‘ اور جو یہ گُر سیکھ لیتا ہے وہ کامیابی کا قیمتی ترین راز پا لیتا ہے۔