گزشتہ برس وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جس جوشِ خطابت سے مقبوضہ کشمیر سمیت دیگر عالمی مسائل کو اجاگر کیا تھا‘ اس پر ناقدین بھی تالیاں بجانے پر مجبور ہو گئے تھے۔ خود بھارت کے اندر اس وقت ہلچل مچ گئی جب وزیراعظم نے کشمیر کے مسئلے پر بھارتی غاصبانہ ایجنڈے کو بے نقاب کر دیا تھا۔ بھارت کا شاید یہی خیال تھا کہ پاکستان کی جانب سے لکھی پڑھی تقریر کی جائے گی لیکن وزیراعظم کا انداز بالکل ایسا تھا جیسے کوئی بیٹسمین آخری اوورز میں بیٹنگ کے لئے میدان میں اترے اور ہر جانب چوکے چھکوں کی برسات کر کے ناممکن کو ممکن بنا دے۔ خان صاحب ویسے بھی سیاسی خطابات میں کرکٹ کی مثالیں دیتے رہتے ہیں لیکن اس خطاب میں ان کی کرکٹ کی شاندار اننگ کی جھلک دیکھنے کو ملی۔ ابھی بھارت گزشتہ برس کے ان زخموں کو بھول نہ پایا تھا کہ گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 75ویں اجلاس میں ایک اور جارحانہ اور مدلل خطاب سے دنیا کو گرما دیا۔ یہ خطاب آن لائن یعنی وڈیو لنک کے ذریعے کیا گیا اور ظاہر ہے اس کی وجہ کورونا وبا تھی جس نے امریکہ سمیت دنیا کے بیشتر ممالک کو ابھی تک اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ کورونا کی وجہ سے اس بار ویسا اِکٹھ نہیں کیا گیا جیسا ہر سال ہوتا ہے۔ ایک لحاظ سے تو یہ اچھی بات تھی کہ ہر ملک کے کروڑوں روپے اس اجلاس میں شرکت کے لئے خرچ ہوتے تھے اور وقت الگ صرف ہوتا تھا۔ ٹیکنالوجی کی جدت نے نہ صرف معمولاتِ زندگی کو جاری رکھا ہوا ہے بلکہ انہیں آسان‘ کم قیمت اور مزید مؤثر بھی بنا دیا ہے۔ ابلاغ کے جدید ذرائع نے کم وقت میں دنیا تک اپنی بات پہنچانے کا راستہ آسان کر دیا ہے جس کا فائدہ زیادہ سے زیادہ اٹھایا جانا چاہیے۔وزیراعظم عمران خان کی جماعت تحریک انصاف ویسے بھی سوشل میڈیا پر بہت زیادہ متحرک ہے۔ الیکشن کے دنوں میں اس نے دیگر جماعتوں کو بھی جدید پلیٹ فارم استعمال کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ آج اسی پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے وزیراعظم دنیا کو درپیش عالمی چیلنجز سے آگاہ بھی کر رہے ہیں اور خبردار بھی۔ سب سے اہم مسئلہ جو نہ صرف پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کا ہے بلکہ یہ خطے حتیٰ کہ پوری دنیا کے لئے ایک حساس مسئلہ بن چکا ہے‘ اس بارے وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے بھارتی حکومت کو پیغام دیا کہ اگربھارت کی فسطائی حکومت نے پاکستان کے خلاف کوئی جارحیت کی تو بھرپور جواب دیا جائے گا۔ بین الاقوامی برادری کشمیر میں سنگین خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرے تو سچ کھل کر سامنے آ جائے گا مگر بھارت اس معاملے میں بھی پردہ پوشی کرنے میں لگا ہے؛ تاہم سوشل میڈیا پر بھارت کی مکمل دسترس نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر کشمیر میں مظالم سامنے آنے سے بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہونا شروع ہو چکا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت تقریباً تمام بین الاقوامی معاہدوں کی کھلے عام دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے معاہدے برائے نام ہی کئے جاتے ہیں اور حقوق کی فراہمی کے لئے کوئی بھی سنجیدہ کوشش نہیں کی جاتی۔ دوسری جانب اسلحے کی نئی دوڑ نے دنیا کا توازن بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ کچھ قوتیں طاقتور ممالک کو اسلحے کے بے دریغ استعمال پر اکساتی ہیں۔ اس مقصد کے لئے نت نئی ٹیکنالوجی پر مبنی اسلحہ متعارف کروایا جاتا ہے‘ اس کی خریداری کے لئے بھاری قرضے دیے جاتے ہیں اور پھر ملکوں کو آپس میں نوک جھونک کے لئے الجھا دیا جاتا ہے مگر پاکستان ہمیشہ سے یہی موقف اپناتا آیا ہے کہ جنگیں کسی مسئلے کا مستقل حل نہیں ہوتیں۔ امریکا نے افغانستان میں انیس سال ضائع کر دیے‘ اب واپسی کیلئے کوشاں ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا مقصد بھی ہمیشہ ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات اور مسائل کا بات چیت سے حل رہا ہے اور پاکستان نے کبھی بھی جنگ میں پہل نہیں کی؛ البتہ دشمن کی ہر ناپاک حرکت کا دلیری سے جواب ضرور دیا ہے۔ دنیا بھی پاکستان کے اس مؤقف کو مان چکی ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل ہوتا تو اب تک یہ حل ہو چکا ہوتا۔ اسی طرح کشمیری بھی گزشتہ ستر برس سے زائد عرصے سے محبوس ہیں۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنی فوج میں مزید اضافہ کئے جا رہا ہے۔ اس کا یہ پاگل پن خود اسے لے ڈوبے گا۔
جہاں تک کورونا وبا پر قابو پانے کی بات ہے تو وزیراعظم عمران خان کے اس خطاب سے قبل ہی دنیا پاکستان کی معترف ہو چکی تھی کیونکہ پاکستان نے ترقی پذیر ملک اور صحت کے کمزور ترین انفراسٹرکچر کے باوجود کورونا سے ملک کو نجات دلائی۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کورونا کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی اور سٹرٹیجی کا بھی ذکر کیا۔ وہ تو کورونا کے آغاز سے ہی اس بات پر زور دیتے تھے کہ پاکستان مکمل لاک ڈائون کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ کوونا نے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی غریب اور نادار افراد کو سخت متاثر کیا ہے۔ پاکستان نے سمارٹ لاک ڈائون کی پالیسی اپنائی‘ کہ یہاں اگر سخت لاک ڈائون کیا جاتا تو اس کے بھیانک نتائج سامنے آ سکتے تھے جیسے بھارت میں روزانہ کی بنیاد پر آج بھی اسّی‘ نوے ہزار نئے کیس رپورٹ ہو رہے ہیں۔ اس عالمگیر وبا نے غریب ممالک کی معاشی حالت کو مزید ابتر کر دیا ہے‘ لاک ڈائون سے دنیا میں کساد بازاری ہوئی اور تمام ممالک غریب تر ہوئے۔ پاکستان نے کئی ذہانت آمیز فیصلے کئے جن میں سے ایک زراعت کے شعبے کو فوری کھولنا تھا۔ اس کے بعد تعمیراتی شعبے کو بھی کھول دیا گیا اور ون ونڈو آپریشن کے تحت تعمیراتی سرگرمیوں کو مزید آسان بنایا گیا۔اس خطاب کا ایک اہم نکتہ ماحولیات تھا جس پر وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت ایک عرصہ سے زور دیتی آ رہی ہے اور خاص طور پر خیبر پختونخوا میں کو آلودگی سے پاک کرنے کے لئے گزشتہ دور میں ان کی جماعت نے بارہا درخت لگانے کی مہمیں چلائیں، اب موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے کے لئے پورے ملک میں اگلے تین برسوں میں دس ارب درخت لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو اس لئے بھی اہم ہے کہ ایک تو زمین کا درجہ حرارت تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے اور دوسرا سموگ جیسے نئے موسم سامنے آ رہے ہیں جو ماحو ل کے ساتھ ہماری نئی نسل کیلئے بھی خطرہ ہیں۔
اپنے خطاب میں وزیراعظم نے اسلامو فوبیا کے حوالے سے جو کچھ کہا عالمی دنیا کو بھی اسے سمجھنے اور قبول کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کوئی آج کی بات نہیں بلکہ ہر چند ماہ و سال بعد ہمارے مقدس مزارات کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پیغمبر اسلامﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کی جاتی ہے‘ کبھی قرآن پاک کی بے حرمتی کی جاتی ہے اور بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ آزادیٔ اظہار کے نام پر کیا جاتا ہے۔ چارلی ہیبڈو نے گستاخانہ خاکے دوبارہ شائع کرنے کی بات کی‘ یہ اس کی ایک حالیہ مثال ہے۔ اگر دنیا خود کو مہذب اور جدید مانتی ہے تو یہ سلسلہ فی الفور بند ہونا چاہیے۔ کسی بھی مذہب کی دل آزاری جائز نہیں۔ اسی لئے وزیراعظم نے یہ بات ٹھوک بجا کر کی کہ دنیا میں بھارت واحد ملک ہے جہاں ریاست کی معاونت سے اسلامو فوبیا ہے اور ظاہر ہے اس کی وجہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے نظریات ہیں جو بدقسمتی سے بھارت میں حکمران جماعت ہے۔وزیراعظم نے غریب ممالک پر قرضوں کے بوجھ سے ریلیف دینے کی بات کی جو آج تمام ترقی پذیر ممالک کا بیک زبان مطالبہ ہے کیونکہ کورونا کی وجہ سے معیشت کی کمر دہری ہو چکی ہے‘ اوپر سے قرضوں کی ادائیگی اور ان پر بے تحاشا سود مسائل میں بے پناہ اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ قرضوں کی ادائیگی کیلئے دسمبر تک ریلیف مل جائے تو پاکستان کی معاشی حالت میں بحالی کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔آج دنیا کو جن خطرات کا سامنا ہے ان میں سے اہم ترین مسائل پر وزیراعظم نے اپنا مؤقف واضح کر دیا‘ کشمیر‘ افغانستان اور فلسطین کے ایشو کو بھی اجاگر کیا‘ منی لانڈرنگ کے قوانین کو سخت کرنے کی بات بھی کی اور عالمی امن اور سکیورٹی پر بھی روشنی ڈالی اور سب سے اہم یہ کہ اقوام متحدہ پر ایسی اصلاحات کرنے پر زور دیا جو آج کے وقت کی بنیادی ضرورت ہیں اور جن پر عمل کر کے ہی صحیح معنوں میں جمہوریت‘ خود احتسابی‘ شفافیت اور بہتر کارکردگی جیسے عالمی مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اب بال اقوام متحدہ کی کورٹ میں ہے کہ وہ ان عالمی مسائل کو حل کرنے میں واقعتاً سنجیدہ کردار ادا کرتی ہے یا پھر خاموش تماشائی بنے رہنا چاہتی ہے۔