فرانسیسی صدر کی ہرزہ سرائی کے بعد فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ وہ فوری اور موثر ردعمل ہے جو مسلمان پوری دنیا میں دے سکتے ہیں۔ اس ردعمل کا مثبت نتیجہ اس لئے نکل سکتا ہے کہ فرانس سمیت کوئی بھی ملک معاشی طور پر تنہا ہونے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔دنیا میں ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمان موجود ہیں۔ پچاس کے قریب اسلامی ملک ہیں۔ فرانس کے کپڑوں سے لے کر خوشبوئوں تک‘ سب کچھ دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے۔ ایک مہینے کے لئے بھی بائیکاٹ کر دیا گیا تو فرانس گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے گا۔ مسلمان ممالک میں ترکی اور پاکستان نے سب سے زیادہ بولڈ ردعمل دیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے فرانسیسی صدر کے بیان کی شدید مذمت کی ہے جبکہ ترکی نے فرانس کا معاشی بائیکاٹ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اگرچہ اسے یورپی یونین سے لگنے والی پابندیوں کا سامنا ہو سکتا ہے لیکن ترکی ڈٹ چکا ہے۔ وہ ناموس رسالت ؐ کی حفاظت کے لئے ہر قسم کا نقصان برداشت کرنے کو تیار ہے۔
سعودی ردعمل بھی سامنے آ چکا ہے۔ جلد ہی فرانسیسی صدر کو اپنی غلطی کا احساس ہو جائے گا؛تاہم یہ تعجب کی بات ہے کہ جب بھی آپﷺ کی ولادت کا دن آتا ہے‘ ایسی ہرزہ سرائیاں سامنے آنے لگتی ہیں جس سے یہ تاثر زور پکڑتا ہے کہ یہ سب جان بوجھ کر کسی پلان کے تحت کیا جاتا ہے۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ فرانس میں اسلام انتہائی تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن چکا ہے، فرانسیسی بڑی تعداد میں مسلمان ہو رہے ہیں چنانچہ فرانسیسی صدر کی یہ ناپاک جسارت اس امر کے پیش نظر کی گئی ہے۔ جو بھی ہو مسلمان کی قیمتی ترین متاع ایک ہی ہے اور وہ ہے حب ِ رسولؐ۔ ایک سچا اور کھرا مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے‘ وہ اپنے ماں باپ بیوی بچوں کو دی جانے والی گالی بھی برداشت کر سکتا ہے لیکن رسول کریمؐ کے خلاف ایک حرف بھی قابل قبول نہیں ہو سکتا؛تاہم نبی اکرمﷺ سے محبت کا ایک پہلو اور بھی ہے اور وہ یہ کہ کیا ہم محض زبان سے نبیﷺ سے محبت کا اظہار کرتے ہیں یا پھر عملی طور پر بھی ان کے احکامات پر عمل کرتے ہیں۔ رسول کریمﷺ کو دنیا کے لئے مثال بنا کر بھیجا گیا تھا، کیا ہم ان کے بتائے گئے راستے پر حقیقتاً عمل بھی کرتے ہیں یا پھرہماری محبت صرف زبانی جمع خرچ تک ہی محدود ہے۔ جب بھی نبی کریمﷺ کی ولادت کا دن آتا ہے‘ ہم چراغاں کرتے ہیں‘ جلوس نکالتے ہیں‘ پہاڑیاں بناتے ہیں‘ دیے جلاتے ہیں‘ آتش بازی بھی کرتے ہیں اور آپﷺ کی خدمتِ اقدس میں گلہائے عقیدت بھی پیش کرتے ہیں لیکن کیا ہم وہ سب کرتے ہیں جو نبی اکرمﷺ نے کیا؟ یا آپﷺ نے کرنے کا حکم دیا؟ کیا ہم نے نبی کریمﷺ کی رفتار، نبی کریمﷺ کی گفتار، نبی اکرمﷺ کی چال ڈھال اپنانے کی کوشش کی؟
آپ نبیﷺ کی رہائش سے شروع کر لیجئے اور ان کے اندازِ گفتگو‘ اندازِ حکمرانی اور ان کے حسن سلوک تک چلے جائیے‘ اس کے بعد اپنی زندگی ‘ اپنی عادات اور اپنی اطوار کو دیکھ لیجئے‘ آپ پر واضح ہو جائے گا آپ کو نبی اکرمﷺ کے اُمتی ہونے کا حق صحیح معنوں میں ادا کرنا چاہیے۔جہاں تک رسول اللہﷺ سے محبت کا سوال ہے تو ارشاد ہوا ''تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنی اولاد، اپنے والدین اور باقی تمام لوگوں سے زیادہ مجھ سے محبت نہ کرتا ہو‘‘۔ (بخاری و مسلم) عبداللہ بن ہشام روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ آنحضرتﷺ سے کہنے لگے: آپؐ میرے لئے، میری جان کے علاوہ ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب تک میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں تم مومن نہیں ہوسکتے۔ سیدنا عمرؓ نے عرض کی: اللہ کی قسم! اب آپؐ میرے نزدیک میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں تو آپ ؐنے فرمایا: اَب، اے عمر! (یعنی اب تم صحیح مسلمان ہو)۔ (فتح الباری)۔
آج دنیا میں رہائش کے لئے ہر کوئی اعلیٰ ترین ہائوسنگ سوسائٹی میں بڑے بڑے محل اور بنگلے بنانا چاہتا ہے لیکن آپ نبیﷺ کی رہائش ملاحظہ کیجئے جس کے سارے حجروں میں کھجور کے تنوں‘ ٹکڑوں‘ پتوں اور مٹی کے سوا کسی دوسرے عمارتی سامان کو استعمال نہیں کیا گیا‘ ان کے حجروں کی چھتیں سات فٹ سے زیادہ اونچی نہ تھیں اور وہ دن بھی آیا جب مسجد نبویﷺکی توسیع کی گئی تو یہ حجرے مسجد میں شامل کر دیے گئے‘ اس موقع پر لوگ بری طرح رو دئیے اور کہنے لگے '' کاش یہ حجرے گرائے نہ جاتے تاکہ مدینہ اور باہر سے آنے والے لوگ دیکھتے دنیا کے خزانوں کی کنجیوں کے مالک کن مکانوں میں رہتے تھے اور کن چیزوں پر اکتفا کرتے تھے۔ ہم رسول اللہﷺ کے لباس سے بھی واقف ہیں‘ آپﷺ ہر ایسے لباس کو نا پسند کرتے جس سے تعیش کی بو آتی تھی‘ آپﷺ سادہ کپڑے زیبِ تن فرماتے۔کھانا انسان کی سب سے بڑی پہچان ہوتی ہے‘ ایک بار سیدہ فاطمہ ؓ روٹی کا ایک ٹکڑا لے کر رسول اللہﷺ کے پاس آئیں‘ رسول اللہﷺ نے پوچھا '' یہ کیسا ٹکڑا ہے‘‘ حضرت فاطمہؓ نے عرض کیا '' یہ روٹی کا ٹکڑا ہے ہمیں اچھا نہ لگا ہم آپ کے پاس لائے بغیر کچھ کھائیں‘‘ رسول اللہﷺ نے فرمایا'' فاطمہؓ،یہ پہلا لقمہ ہے جو تین دن کے بعد تمہارے باپ کے حلق سے اُترا ہے‘‘ (بیہقی‘ شعب الایمان) آپﷺ نے فرمایا '' تمہیں تمہارا رزق کمزوروں کے صدقہ میں ملتا ہے‘ تمہاری مدد انہی کے سبب ہوتی ہے اور تمہاری کامیابی کا دامن انہی سے بندھا ہے‘‘ (صحیح بخاری) آپﷺ جھوٹ سے سخت نفرت کرتے تھے‘ فرمایا '' جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے اور برائی جہنم میں پھینک دیتی ہے ‘‘ (سنن ابی دائود) آپﷺ وعدہ کرتے تو پورا کرتے اور فرمایا '' قیامت کے دن وعدہ پورا کرنے والے اللہ کے بہترین بندے شمار ہوں گے‘‘ آپﷺ نے صلہ رحمی اور رشتہ داروں کے حقوق کی حفاظت پر بہت زور دیا‘ فرمایا '' جو یہ چاہتا ہے اللہ اس کے رزق کو بڑھائے اور اس کی عمر میں اضافہ کرے‘ اسے چاہیے کہ وہ صلہ رحمی سے کام لے‘‘۔
تاریخ شاہد ہے آپﷺ نے ایک شاندار معاشرہ تخلیق کیا‘ اس معاشرے میں لوگ ایک دوسرے کے کام بھی آتے‘ ایک دوسرے سے محبت بھی کرتے‘ اگر ایک بھوکا ہوتا تو دوسرا اس کا پیٹ بھرتا‘ اگر ایک ننگا ہوتا تو دوسرا اس کا تن ڈھانپتا‘ قوی کمزور کو سہارا دیتا‘ تندرست بیمار کی تیمارداری کرتا‘ کوئی کسی کو حقیر نہ سمجھتا‘ کسی سے نفرت نہ کرتا‘ باپ بیٹے سے اور بیٹا باپ سے محبت کرتا‘یہ دنیائے تاریخ کا سب سے بہترین معاشرہ تھا۔آج ہمیں بھی ایسے ہی معاشرے کی ضرورت ہے اور اگر ہم نبیﷺ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں اور ناموس رسالتﷺ کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں تو پھر یہ جان لیجئے کہ اتباعِ سنت اور اطاعت ِرسولؐ صرف چند عبادات تک محدود نہیں بلکہ اطاعت ِرسولؐ ساری کی ساری زندگی پر محیط ہے۔ نماز کی ادائیگی میں جس طرح اتباع سنت مطلوب ہے اسی طرح اخلاق و کردار میں بھی اتباع سنت درکار ہے۔ اسی لئے آج زبانی دعووں سے زیادہ عمل کے میدان میں اترنے کی ضرورت ہے‘ دو جہانوں کے سردارﷺ کے احکامات پر عمل کیے بغیر اگر یہ زندگی بیت گئی تو حقِ محبت شاید ادا نہ ہوا۔