سود کو قرآن حکیم میں اللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف اعلانِ جنگ قرار دیا گیا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان سمیت اسلامی دنیا ابھی تک اس حوالے سے کوئی واضح اور ٹھوس پالیسی نہیں اپنا سکی۔ اسلامی بینکنگ کو جس شکل میں متعارف کروایا گیا ہے اس پر بھی تمام مذہبی اور غیر مذہبی طبقات کا اجماع نہیں ہے۔گزشتہ دنوں پریس کونسل برائے بین الاقوامی امور کے زیراہتمام سود کے موضوع پر ایک علمی و فکری تقریب اور مباحثے کا اہتمام کیا گیا جس میں ملک کے جید علما کرام‘ ماہرینِ معیشت اور سینئر صحافی شریک ہوئے۔ نائب امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر فرید احمد پراچہ‘مذہبی سکالر حافظ عاطف وحید‘سابق چیف اکانومسٹ ڈاکٹر طاہر پرویز‘ سینئر صحافی مجیب الرحمن شامی اور اسداللہ غالب نے اپنے خطاب میںاس مسئلے پر جو آراء دیں ان میں مشترکہ نکتہ بھی یہی تھا کہ اب تک اس مسئلے پر جتنا کام ہو چکا ہے‘ اسے مزید آگے بڑھایا جانا چاہیے۔ ڈاکٹر فرید پراچہ نے کہا کہ اب تک دو سو سے زائد کتابیں اس موضوع پر لکھی جا چکی ہیں۔ سینکڑوں ریسرچ پیپرز آ چکے ہیں۔ مختلف اسلامی تنظیموں نے اس پر بہت سا کام کیا ہے۔ جسے آگے بڑھایا جانا چاہیے۔حافظ عاطف وحید نے جسٹس وجیہ الدین کے ایک اہم فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے اس سے رہنمائی حاصل کرنے کی تجویز دی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن کے علاوہ احادیث کی کتب میں بھی سود کی حرمت کے واضح احکامات موجود ہیں۔ہر مسلمان چاہتا ہے کہ یہ مسئلہ حل ہو تاکہ روزِ قیامت اسے کسی ندامت کا سامنا نہ کرنا پڑے؛ تاہم یہ ذمہ داری بہر حال حکومتی اور مذہبی سطح پر آتی ہے کیونکہ انفرادی طو رپر شہری صرف آواز اٹھا سکتے ہیں لیکن عملی طور پر قوانین کا نفاذ ان کے ہاتھ میں نہیں۔سودی نظام نے اس وقت مغرب سے زیادہ اسلامی دنیا کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ جن قوموں نے سود کو پوری دنیا میں پھیلایا وہ خود اس کے چنگل سے نکل رہی ہیں۔ جاپان جیسے ملک میں آج سے پانچ سال قبل منفی شرح سود کو اپنا لیا تھا۔ منفی 0.1فیصد شرح سود کا مطلب یہ تھا کہ مرکزی بینک کمرشل بینکوں سے ان کے کھاتوں پر 0.1فیصد کی شرح سے وصولیاں کرے گا۔ اس سے قبل یورپ کے مرکزی بینک کی شرح سود بھی منفی تھی لیکن جاپان میں پہلی مرتبہ ایسا کیا گیا۔جاپان نے یہ قدم اس لئے اٹھایا کہ مرکزی بینک میں سرمایہ جمع رکھنے پر شرح سود دینے کے بجائے وصول کرنے سے بینک قرضے دینے پر راغب ہوں گے۔ اس سے مقامی سطح پر خرچ کرنے کا رجحان پیدا ہو گا اور سرمایہ کاری بھی بڑھے گی۔اس کا ایک اور مقصد افراطِ زر میں اضافہ بھی ہے جو لوگوں اور تجارتی اداروں کے لیے بچت کرنے کے بجائے خرچ کرنے کا ایک اور حیلہ بنے گا۔ اپنے خطاب میں تنظیم کے ممبر افتخار سندھو نے بتایا کہ یہود ی ایک دوسرے کا راستہ نہیں کاٹتے بلکہ ایک یہودی دوسرے یہودی کی مدد کرتا ہے۔ ساری دنیا کو انہوں نے سود در سود کے چکر میں پھنسایا ہوا ہے، مگر ایک یہودی جب دوسرے یہودی کو قرض دیتا ہے تو ایک پیسے کا بھی سود نہیں لیتا، چاہے کتنے عرصے میں ہی رقم کی واپسی ہو۔ ہم لوگ چین ‘ امریکا اور دیگر ممالک کو سودی کہہ کر اپنے دل ٹھنڈے کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ لوگ سود سے نجات پا رہے ہیں اور ہم سود کی دلدل میں دھنس چکے ہیں۔چلیں سود پر ہم اکٹھے نہیں ہو سکے، یہ مسئلہ حل نہیں کر سکے لیکن ہم تو علم اور ترقی کی راہ پر بھی چلنے کیلئے ایک پیج پر نہیں آ سکے۔ ہر ایجاد کی مسلم دنیا میں پہلی نفی کی جاتی ہے، جی بھر کے تنقید کی جاتی ہے اور بعد ازاں اسے تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ چاہے وہ لائوڈ سپیکر ہو‘ ٹی وی ہو‘ کمپیوٹر‘ ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا مسئلہ ہو یا کچھ اور۔ مغرب پر اندھا دھند تنقید کی جاتی ہے لیکن چین اور جاپان کی طرح علم حاصل نہ کرنے یا ترقی نہ کرنے پر کسی کو شرمندگی نہیں۔ اس پر کہیں سے کوئی آواز نہیں اٹھتی بلکہ ایسے موقع پر شتر مرغ کی طرح سب ریت میں سر دے دیتے ہیں۔ہم تویہ تک نہیں جان سکے آخر ایک کروڑ چالیس لاکھ یہودی‘ ڈیڑھ ارب مسلمانوں پر حکمرانی کے قابل کیسے ہوئے اور کب تک ہم مٹھی بھر اقلیت کی غلامی کرتے رہیں گے۔یہودی صرف موت کی فیکٹریاں لگانے کے ہی ماہر نہیں بلکہ دنیا کا کوئی بھی شعبہ لے لیں‘ یہ ہر شعبے میں ٹاپ پوزیشنوں پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ طب کا شعبہ لے لیں۔طب کے شعبے کی گیارہ عظیم ترین ایجادات یہودیوں کے ہاتھوں ہوئیں۔ اگر جانس سالک پولیو ویکسین ایجاد نہ کرتا تو دنیا بھر میں روزانہ پندرہ لاکھ بچے پیدائش کے پہلے تین سالوں میں معذور ہو جاتے‘ اگر بروچ بلومبرگ ہیپاٹائٹس بی کا علاج دریافت نہ کرتا تو سالانہ دو کروڑ لوگ اس بیماری سے جان گنوا بیٹھتے‘اگر بینجمن روبن سرنج ایجاد نہ کرتا تو مریضوں کو انجکشن لگانا ممکن نہ ہو پاتا اور اگر ولیم کوف گردوں کی ڈائلیسز مشین ایجاد نہ کرتا تو آج ہر ساتواں شخص گردے فیل ہونے پر زندگی کی بازی ہار جاتا۔ گزشتہ ایک سو بیس سالوں میں 229یہودیوں نے نوبیل پرائز حاصل کیا ہے جبکہ صرف دو مسلمان سائنس میں نوبیل پرائز کے حقدار ٹھہرے۔ یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا‘ تاریخ کو بدلنے والی ایجادات بھی یہودیوں کے ہاتھوں ہوئیں۔ اگرسٹینلے میزر مائیکروپروسیسر نہ بناتا تو آج کمپیوٹر کا نام و نشان نہ ہوتا‘ایسے درجنوں شعبے گنوائے جا سکتے ہیں جہاں یہودیوں نے اپنا سکہ اپنی محنت کی وجہ سے منوایا اور ہم نے اپنی کام چوری کی وجہ سے اپنی عظمت تک گنوا دی۔
پاکستان میں بلاسود قرضے اخوت کی تنظیم دے رہی ہے جس کی بنیاد ڈاکٹر امجد ثاقب نے سترہ اٹھارہ برس قبل رکھی تھی۔ یہ ماڈل اب تک انتہائی کامیاب رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے نیا پاکستان ہائوسنگ سکیم میں اخوت کو بھی شامل کیا ہے اور ہزاروں خاندان اخوت کے ذریعے گھر حاصل کر رہے ہیں۔یہ بلاشبہ بڑی خدمت ہے۔ بنگلہ دیش میں مائیکرو فنانس کا یہ ماڈل گرامین بینک کے ڈاکٹر یونس نے شروع کیا تھا لیکن اس میں سودی شرح تیس سے چالیس فیصد تک تھی۔ پاکستان میں غربت کے خاتمے کا واحد حل بلاسود بینکاری ہے۔ چھوٹے چھوٹے قرضے کم مدت کے لئے دینا اور ان کی واپسی بھی آسان ہے۔ آج ہم جیسے جیسے سودی جال میں جکڑتے جا رہے ہیں مزید بدحال ہو رہے ہیں۔ پھر علم اور ٹیکنالوجی کو اولین ترجیح نہ دینا اس سے بھی بڑی غلطی ہے جس کی وجہ سے ہماری تباہی کی آخری کسر بھی پوری ہو گئی ہے۔ ایسے میں عباسی حکمران ہارون الرشید کا دور یاد آتا ہے کہ جب رعایا خوشحال اور سلطنت ترقی کی طرف گامزن تھی اورسڑکوں پر کوئی بھوکا‘ کوئی سائل ڈھونڈنے سے نہ ملتا تھا۔ ہارون الرشید کا تئیس سالہ دور جمہوری نہیں بلکہ شخصی حکمرانی کا دور تھا۔ شخصی حکومت میں بڑے عیب ہوتے ہیں مگر شخصی حکمران ہارون جیسا وسیع الظرف‘ عالم‘ مجتہد اور عوام کا خیرخواہ ہو تو شخصی حکومت جمہوریت پر بازی لے جاتی ہے۔ کوئی بھی حکمران ہارون الرشید کے راستے پر چلے تو عوام اسے سرآنکھوں پر بٹھا لیں گے۔ ہارون الرشید کی کامیابیوں کی بنیادی وجہ علم دوستی‘ غریب پروری اور انصاف پسندی تھی۔ اُس کے زمانے میں جگہ جگہ محتاج خانے کھلے ہوئے تھے‘ جہاں مفلوک الحال اور معذور افراد مستقل طور پر رہائش رکھتے۔ہر شہر میں بیوائوں اور یتیموں کی الگ الگ تربیت گاہیں تھیں جن کے سارے اخراجات حکومت کے ذمہ تھے۔ اس کے ذاتی محتسب ملک کے ہر ضلع‘ ہر تحصیل اور ہر حصے میں پھیلے ہوئے تھے اور اگر کبھی کسی غریب کے ساتھ کوئی زیادتی ہوتی تو اس کی آواز ہارون کے کانوں تک پہنچے بغیر نہ رہتی۔ ہارون اس وقت تک کھانا نہ کھاتا جب تک محل کے آس پاس رہنے اور جمع ہونے والوں کو کھانا نہ مل جاتا۔سب سے بڑی بات یہ تھی کہ اس کے زمانے میں شہریوں پر زکوٰۃ، عشر اور محاصل کے علاوہ کوئی ٹیکس عائد نہ تھا۔ آج بھی وہ دور واپس آ سکتا ہے لیکن آج اگر ہم یہ سوچ کر سود کو قبول کر لیں گے کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں اور ساتھ ہی ٹیکنالوجی اور علم کے حصول کو بھی پس پشت ڈال دیں گے تو پھر رسوائی یونہی ہمارا مقدر بنی رہے گی۔