پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر ہر پندرہ دن بعد نظرثانی کی جاتی ہے۔ عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت بڑھ جائے تو اوگرا کی جانب سے پٹرول‘ ڈیزل وغیرہ کی قیمتیں بڑھانے کی سفارش کی جاتی ہے جس کے بعد وزیراعظم کا اختیار ہوتا ہے کہ چاہیں تو سفارش کے مطابق بڑھا دیں‘ تھوڑی بڑھائیں یا پھر بالکل ردوبدل نہ کریں۔ جیسے ہی مہینے کا وسط یا آخری ایام آتے ہیں‘ اگر اوگرا کی جانب سے قیمتیں بڑھانے کی سمری تیار ہو جائے تو ہر جانب واویلا مچ جاتا ہے۔ ہم بھی اس پروپیگنڈے کا شکار ہو جاتے ہیں کہ شاید ہمارے ملک میں ہی تیل کی قیمتوں پر نظرثانی ہوتی ہیں یا قیمتیں بڑھتی ہیں۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ بھارت میں روزانہ تیل کی قیمتوں میں ردوبدل ہوتا ہے اور روزانہ صبح چھ بجے پٹرولیم کی قیمتوں میں نظرثانی کی تجاویز دی جاتی ہیں۔
دنیا میں کل 167 ملک ہیں جن کی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا ڈیٹا روزانہ انٹرنیٹ پر اپ ڈیٹ ہوتا ہے۔ ہر شخص حقیقت خود جان سکتا ہے۔ ڈیڑھ سو سے زائد ان ممالک میں سب سے سستا پٹرول وینزویلا میں مل رہا ہے جو اعشاریہ صفر دو ڈالر یا پاکستانی روپوں میں تین روپے فی لٹر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وینزویلا دنیا کے سب سے زیادہ تیل کے ذخائر رکھنے والا ملک ہے۔ یہ امریکہ کو چالیس فیصد خام تیل‘ چین کو دس فیصد اور بقایا پچاس فیصد دیگر دنیا کو برآمد کرتا ہے۔ اس کا رقبہ پاکستان سے تھوڑا زیادہ لیکن آبادی صرف تین کروڑ ہے۔ دوسرے نمبر پر ایران ہے جہاں پاکستانی کرنسی کے مطابق ساڑھے نو روپے لٹر تیل مل رہا ہے۔ ایران بھی تیل سے مالامال ہے۔ اگر ہم اس فہرست کو دیکھتے جائیں تو پہلے بیس پچیس ممالک ایسے ہیں جو تیل کی پیداوار میں خود کفیل ہیں۔ اس کے باوجود یہ اپنے شہریوں کو مفت تیل نہیں دے رہے کہ دنیا میں کہیں فری لنچ کا تصور نہیں۔ آگے چلیں تو سعودی عرب‘ یو اے ای اور عمان اس فہرست میں بالترتیب انیسویں‘ بیسویں اور اکیسویں نمبر پر نظر آتے ہیں۔ یہ بھی تیل سے مالامال ہیں لیکن یہاں پٹرول پچاسی روپے فی لٹر مل رہا ہے۔ اس فہرست میں چھ سات ممالک کو کراس کریں تو آپ کو انتیسویں نمبر پر پاکستان کھڑا دکھائی دے گا۔ پاکستان خلیجی ممالک کی طرح تیل کے ذخائر نہیں رکھتا‘ لیکن یہاں پٹرول کی قیمت ایک سو بارہ روپے کے قریب ہے جبکہ ایک سو اڑتیس ممالک ایسے ہیں جو اس سے کہیں زیادہ مہنگا پٹرول بیچ رہے ہیں۔ آپ کو اس فہرست میں آخری نمبر پر ہانگ کانگ جیسا جدید ملک بھی مل جائے گا جہاں تین سو ستاسی روپوں میں ایک لٹر پٹرول ملتا ہے۔ آپ چین کو بھی دیکھ لیں جو اس فہرست میں ایک سو پینسٹھ روپے فی لٹر کے ساتھ 92ویں نمبر پر ہے۔ میں قیمتیں روپوں میں اس لئے بتا رہا ہوں کہ موازنہ کرنے میں آسانی رہے۔ باقی آپ خود بھی گلوبل پٹرول پرائسز کی ویب سائٹ پر جا کر کرنسی تبدیل کر سکتے ہیں۔ اگر آپ دو ہزار آٹھ سے اب تک کا ڈیٹا دیکھیں تو وہ بھی حیران کن معلومات لاتا ہے۔ اس دوران پہلے پیپلزپارٹی اور پھر نون لیگ وارد ہوئی۔ اگر ہم آج کے ڈالر ریٹ پر موازنہ کریں تو دو ہزار اٹھارہ سے اب تک پٹرول کی زیادہ سے زیادہ قیمت ایک سو سترہ روپے تک گئی تھی لیکن نوازشریف کے دور میں یہ ایک سو ستر اور آصف زرداری کے دور میں ایک سو اسی روپے سے زیادہ بنتی ہے۔ اس وقت ڈالر ریٹ کم تھا لیکن تیل کی عالمی مارکیٹ اور افراط زر کے حساب سے موازنہ کریں تو یہ قیمتیں آج سے کہیں زیادہ ہیں۔ پاکستان میں اعشاریہ اکہتر ڈالر فی لٹر پٹرول مل رہا ہے جو بھارت چین اور دیگر ممالک سے کہیں کم ہے۔ اوگرا نے گزشتہ ماہ کے آخر میں سولہ روپے فی لٹر بڑھانے کی سمری بھیجی تھی جسے وزیراعظم عمران خان نے رد کر دیا۔ اسی طرح پندرہ مارچ کو بھی چھ روپے فی لٹر پٹرول بڑھانے کی سمری آئی لیکن صرف لائٹ ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمت میں معمولی اضافہ کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ جب پاکستان یا کوئی ملک باہر سے مہنگا خام تیل خریدے گا تو اپنے ملک میں سستا کیسے بیچے گا۔ اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ یہ بوجھ عوام پر نہ ڈالا جائے اور کسی اور مد سے پیسے نکال کر اس سے خام تیل خرید کر ملکی ضروریات کو پورا کیا جائے۔ اس کے علاوہ تو کوئی طریقہ نہیں یا پھر تیل خریدنا ہی بند کر دیا جائے۔ ایسا ہوا تو ٹرانسپورٹ‘ صنعتیں اور زندگی کیسے چلے گی؟ بجلی کیسے پیدا ہو گی؟ دنیا اس وقت پٹرولیم مصنوعات سے جان چھڑانے کی کوششیں کر رہی ہے۔ اس کے لئے توانائی کے متبادل ذرائع پر بھی زور دیا جا رہا ہے۔ پاکستان بھی الیکٹرک وہیکل پالیسی اپنا رہا ہے‘ لیکن سوال پھر وہی ہے کہ جس بجلی سے گاڑی نے چارج ہونا ہے وہ بجلی کہاں سے آئے گی؟ ملک میں بجلی کی تمام پیداوار تو ہائیڈل سے ہو نہیں رہی۔ تیل سے جو پاور پلانٹس چل رہے ہیں وہ بند کئے گئے یا ان میں کمی آئی تو پھر سے لوڈشیڈنگ شروع ہو جائے گی جو تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ لوڈشیڈنگ شروع ہوئی تو بجلی سے چلنے والی گاڑیاں اور چارجنگ سٹیشنز کا کیا بنے گا؟ اب یہاں پٹرول وینزویلا کی طرح تو سستا ہو نہیں سکتاکہ نہ یہاں تیل کے اتنے کنوئیں ہیں کہ جن کا تیل بیچ بیچ کر پیسے کمائے جائیں اور عوام کو گھروں میں بٹھا کر پالا جائے۔
غور کریں تو اس ملک کا اصل تیل اس کے تیس سال سے کم عمر باسٹھ فیصد نوجوان ہیں۔ یہ کمال دکھائیں تو تیل برآمد کرنے والے خلیجی ممالک سے بھی کہیں زیادہ آمدنی ہو سکتی ہے۔ گوگل پچیس سال کی عمر کے دو نوجوانوں سرجی برن اور لیری پیج نے بنایا تھا۔ اس کے صرف آٹھ سال بعد 2006 میں گوگل نے یوٹیوب کو ایک ارب پینسٹھ کروڑ ڈالر میں خریدلیا تھا۔ اس وقت کسی کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ یوٹیوب کا مستقبل کیا ہے اور گوگل نے یہ ڈیل کیوں کی ہے۔ گوگل پر شدید تنقید ہوئی تھی کہ اس نے اتنی مہنگی خرید کیوں کی۔ آج وہی گوگل اسی یوٹیوب کے ذریعے ایک ارب پینسٹھ کروڑ ڈالر ہر تین ہفتے میں کما لیتا ہے۔ امریکہ کی سیلیکون ویلی میں یہ معمول بن چکا ہے کہ سٹارٹ اپ ایسا منفرد کام کرتے ہیں‘ ایسی زبردست ویب سائٹ‘ پورٹل یا ایپ بناتے ہیں کہ چند ہی ماہ میں کروڑوں اربوں ڈالر میں فروخت ہو جاتی ہے یا پھر اس سے بے تحاشا ریونیو آنے لگتا ہے۔ دنیا بدل چکی ہے۔ ہم تیل کی قیمتوں پر رونے میں لگے ہیں۔ ہم اپنا معیار زندگی بلند کریں‘ زیادہ محنت کریں زیادہ کمائیں تو چاہے پٹرول کی قیمتیں جتنی مرضی ہو جائیں تب بھی ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ہماری آمدنی بڑھ چکی ہو گی‘ لیکن ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے اور صرف اس انتظار میں رہیں گے کہ کہیں سے کوئی ایسی خبر آئے جسے منفی بنا کر ہم پروپیگنڈا کر سکیں اور اپنی نااہلی اور کام چوری کا بوجھ کسی اور پر ڈال سکیں تو پھر چاہے پٹرول دس روپے لٹر ہو جائے تو وہ بھی ہمیں مہنگا ہی لگے گا۔ یہ قدرت کا اصول ہے۔ ہر چیز کی قیمت وقت کے ساتھ بڑھنا ہے۔ آپ جس علاقے میں بھی رہتے ہیں وہاں پوچھ لیں وہاں ایک کنال کا پلاٹ تیس چالیس سال قبل پچاس ہزار روپے میں مل جاتا ہو گا آج کیوں نہیں ملتا؟ گوشت پچاس روپے کلو تھا‘ آج کیوں نہیں ملتا؟ عمرہ دس ہزار میں ہوجاتا تھا آج کیوں نہیں ہوتا؟ اس کا جواب ہے وقت‘ حالات اور ڈالر۔ جیسے جیسے ان میں تبدیلی آئے گی‘ مہنگائی بھی بڑھے گی۔ ہم ماضی میں رہنے والی قوم ہیں۔ رہتے ہم اکیسویں صدی میں ہیں‘ خواب بائیسویںصدی کے دیکھتے ہیں اور چیزیں دو سو سال پرانی قیمت میں خریدنا چاہتے ہیں۔ قیمتوں کے ردوبدل بارے حقائق جانے بغیر بلا وجہ ٹینشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ آج اگر ہانگ کانگ میں پٹرول چار سو روپے لٹر مل رہا ہے تب بھی وہاں کے لوگ نہیں چیختے‘ وہ افورڈ کر لیتے ہیں کیونکہ وہ محنتی ہیں‘ وہاں ہر بندہ سالانہ اٹھاون ہزار ڈالر کما رہا ہے‘ بہترین لائف سٹائل جی رہا ہے۔ ہم نے نہ محنت کرنی ہے نہ ہماری زمینیں تیل اُگلتی ہیں پھر بھی ہم ترقی ہانگ کانگ سے زیادہ اور پٹرول کی قیمت وینزویلا سے بھی کم چاہتے ہیں‘ ہم کیسے لوگ ہیں؟؟؟