زندگی اتنی بے اعتبار اور بے وفا کبھی نہ تھی جتنی گزشتہ ایک ڈیڑھ سال میں ہو گئی ہے۔ ایک دوست نے انتہائی افسوسناک خبر سنائی۔ ان کے کسی عزیز کے گھر میں کورونا حملہ آور ہوا‘ پہلے والد صاحب چل بسے، پھر والدہ اور کچھ ہی ہفتوں بعد اس کا بیٹا۔ یہ قیامت سے پہلے قیامت جیسا منظر تھا۔ کورونا ایک اَن دیکھا دشمن ہے جو بعض واقعات میں انتہائی تیزی سے انسانی زندگیاں چاٹ رہا ہے۔ کورونا سے قبل دنیا کے مختلف ممالک مختلف اوقات میں قدرتی آفات کی زد میں رہتے تھے‘ اجتماعی طور پر دنیا اس قدر عالمی سطح کی تباہی کا شکار نہیں ہوئی تھی۔ جس طرح سورج‘ چاند کا نکلنا معمول ہے ویسے ہی زمین کے کچھ حصے تو مسلسل طوفانوں‘ زلزلوں‘ سونامیوں اور سیلابوں کی زد میں رہتے ہیں۔ جہاں زلزلے آتے ہیں وہاں سونامی کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ امریکا میں آئے روز طوفان آتے رہتے ہیں۔ ہزاروں گھر تباہ ہوتے ہیں۔ انسان تو انسان‘ مضبوط تر انفراسٹرکچر بھی تنکے کی طرح بہہ جاتا ہے۔ برف باری جن علاقوں میں مسلسل ہوتی ہے وہاں زندگی تبھی محسوس ہوتی ہے جب آسمان سے روشنی کی کوئی کرن زمین کو چھونے میں کامیاب ہو جائے۔ کینیڈا اور روس کے کئی شہر سارا سال منفی تیس چالیس درجہ حرارت کی زد میں رہتے ہیں۔ نقطہ انجماد سے نیچے ان علاقوں میں زندگی کی رونقیں کم ہی دکھائی دیتی ہیں۔ ایشیا کے کئی ممالک کی توانائیاں تو سونامیوں کا مقابلہ کرتے گزر جاتی ہیں۔ قاتل لہریں سوچنے سمجھنے کا موقع بھی نہیں دیتیں اور گھروں اور گاڑیوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جاتی ہیں۔ گلوبل وارمنگ پہ کورونا نے سونے پر سہاگا کا کام کیا ہے۔ اس وقت زمین کا درجہ حرارت ہر سال گزشتہ کی نسبت تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ پاکستان کو ہی دیکھ لیں جہاں گرمیاں کبھی مئی‘ جون میں شروع ہوتی تھیں، مئی کے آخر میں جا کر ایئرکنڈیشنر چلنا شروع ہوتے تھے اور مارچ‘ اپریل تک بہار کا موسم رہتا تھا اب وہاں فروری‘ مارچ میں بھی گرمی کی تپش محسوس ہونے لگتی ہے۔ بارشیں بھی کم ہو گئی ہیں اور جب ہوتی ہیں تو اتنی شدت سے کہ کئی کئی دن تک تھمنے کا نام نہیں لیتیں۔
دنیا کے تمام جدید اور بڑے ممالک بجٹ بناتے وقت ماحول کو اتنی ہی اہمیت دیتے ہیں جتنی معیشت‘ دفاع اور تعلیم کو۔ گلوبل وارمنگ بڑھانے میں صرف کارخانے‘ صنعتیں‘ گاڑیاں اور اینٹوں کے بھٹے وغیرہ ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ مجموعی طور پر انسانی طرزِ زندگی یا لائف سٹائل بھی اس کی بڑی وجہ بن رہا ہے۔ گلوبل وارمنگ زمین کے اوسط درجہ حرارت میں بتدریج اضافے کا نام ہے۔ زمین کے ماحول میں گیسز قدرتی طور پر نہیں بلکہ زمین پر ہونے والے مختلف قسم کے عوامل کے نتیجے میں ہماری آب و ہوا کا حصہ بنتی ہیں۔ خاص طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین کے آب و ہوا میں شامل ہونے سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ ہوا میں ان گیسز کے اضافے کی ذمہ داری بھی کافی حد تک ہم انسانوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔ ایندھن کو جلانے‘ درختوں کی کٹائی اور صنعتی انقلاب کا دور شروع ہوتے ہی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اضافہ ہونے لگا تھا۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا ماحول میں بلا روک ٹوک اضافہ ایسی تبدیلیوں کا باعث بن رہا ہے جنہیں بدلا نہیں جا سکتا۔ اس کے علاوہ اے سی ریفریجریٹرز وغیرہ سے خارج ہونے والی گیس اوزون کی تہہ کو تباہ کرنے کا باعث بن رہی ہے جو سورج سے نکلنے والی مضرِ صحت شعاعوں کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ غرض زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کا ذمہ دار بہت حد تک انسان اور اس کی ایجادات ہی ہیں۔
گلوبل وارمنگ سے دنیا کے بعض حصوں میں خشکی اور بعض میں نمی کی مقدار میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے دنیا کے اکثر ممالک‘ جن میں پاکستان بھی شامل ہے‘ میں موسم گرما میں گرمی کی شدت میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ پاکستان میں اگر گلوبل وارمنگ سے پیدا ہونے والے اثرات پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ پاکستان وہ واحد ملک ہے جس کا گلوبل وارمنگ کا باعث بننے والی گیسز کے اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن گلوبل وارمنگ پر قابو پانے کے لئے کم ٹیکنالوجی کے باعث یہ اس سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ گلیشیرز کے پگھلنے سے پاکستان کے دریائوں میں پانی کی سطح میں اضافے کا خطرہ بدستور قائم رہتا ہے جس سے بارشوں کے دوران ساحلی علاقوں میں سیلاب آنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس وقت درجہ حرارت کے بڑھنے سے پاکستان کے بنجر اور نیم بنجر علاقوں میں زرعی پیداوار متاثر ہو رہی ہے۔ آب و ہوا میں تیزی سے ہونے والی تبدیلی جنگلات، پودوں اور درختوں کو نقصان پہنچانے کا باعث بھی بن رہی ہے۔ گلوبل وارمنگ سے ہونے والے ان تمام نقصانات کی وجہ سے پاکستان میں خوراک اور توانائی کے بحران کا خدشہ بھی جنم لے رہا ہے۔ گزشتہ مہینے‘ مارچ کے اواخر میں کراچی سے جو خبر آئی‘ اس کے مطابق کراچی میں درجہ حرارت پینتالیس ڈگری سینٹی گریڈ کو چھو چکا تھا۔ یہ درجہ حرارت آج سے بیس سال قبل جون میں ہوا کرتا تھا۔ یورپ میں درجہ حرارت تیس ڈگری سینٹی گریڈ کے قریب چلا جائے تو لوگوں کی سانسیں اکھڑنے لگتی ہیں۔ ان کیلئے یہ درجہ حرارت لُو کے برابر ہے جس سے بے شمار لوگ زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔
ہم بنیادی طور پر مصنوعی زندگی کے عادی ہو چکے ہیں۔ ہر چیز پلک جھپکتے ہوئے چاہیے‘ پلاسٹک کی پیکنگ میں ملے یا کسی بھی چیز میں‘ بس جلد ملے۔ ڈسپوز ایبل کے بجائے دوبارہ قابل استعمال مصنوعات کا انتخاب کرکے اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ گزشتہ سال شاپنگ بیگز پر پابندی لگی تو لوگ گھروں سے اپنا تھیلا لے کر جانے لگے۔ یہ سلسلہ ایسے ہی چلنا چاہیے۔ آہستہ آہستہ عادت پکی ہو جائے گی، البتہ اس سے ماحول کو بہت فائدہ ہو گا۔ کم سے کم پیکیجنگ کے ساتھ مصنوعات خریدنا بھی اہم ہے۔ جتنا ہو سکے‘ کاغذ، پلاسٹک، اخبار، شیشے اور ایلومینیم وغیرہ کو ری سائیکل کیا جائے۔ معدنی ایندھن‘ درختوں کی بے جا کٹائی اور فیکٹریوں کے حد سے زیادہ دھویں نے بھی ماحول کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان گلوبل وارمنگ سے متاثرہ دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے۔ پاکستان میں شدت کے ساتھ ہونے والی موسمیاتی تبدیلی، سیلاب اور اناج کی کم پیداوار ماحولیاتی مسائل کے ہی سبب ہے ۔ انہی مسائل کی وجہ سے پولٹری، گوشت اور دودھ کی پیداوار میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔ مویشیوں پر پڑنے والے اثرات نے ڈیری اشیا مہنگی کر دی ہیں۔
یہاں قلیل مدت کی منصوبہ بندی کی وجہ سے کئی اہم مسائل جیسے گلوبل وارمنگ کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ بڑھتے موسمی مسائل مستقبل میں پاکستان کی سیاست اور معیشت کے لیے نہایت خطرناک ثابت ہوں گے۔ حکومت کو موسمی مسائل کو اولین ترجیح دیتے ہوئے مناسب منصوبہ بندی کی ضرورت ہے تاکہ ملکی سلامتی کو درپیش خطرات سے بچایا جا سکے۔ پے درپے سیلابوں سے نہ صرف سطح سمندر میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ گھروں میں استعمال ہونے والا تازہ پانی بھی سمندروں میں ضائع ہونے کی وجہ سے نقصان پہنچ رہا ہے‘ یہی چیز زمینی کٹائو کا سبب بھی بن رہی ہے۔ اس وقت ایک طرف پاکستان سمیت پوری دنیا کو کورونا جیسے وبائی عفریت کا سامنا ہے تو دوسری طرف ماحولیاتی مسائل نے مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ گلوبل وارمنگ سے صرف انسان ہی متاثر نہیں ہو رہے بلکہ چرند‘ پرند اور آبی حیات بھی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ کرۂ ارض پر انسان‘ حیوانات اور نباتات تینوں کی بقا اور بھلائی اسی میں ہے کہ گلوبل وارمنگ کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جائے۔ سکولوں سے لے کر کارپوریٹ اداروں تک‘ اس مسئلے سے متعلق آگاہی پیدا کی جائے اور پلاسٹک اور ڈسپوز ایبل کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی جائے اور پلاسٹک کے بجائے سٹیل کے اور دوبارہ قابل استعمال برتنوں کا رجحان پیدا کیا جائے۔ جس طرح کورونا سے بچائو کیلئے احتیاط ضروری ہے اسی طرح ماحول کو لاحق اس سنگین مسئلے پر ان چھوٹی چھوٹی کوششوں سے ہی قابو پایا جا سکتا ہے۔