کورونا نے ایک طرف پوری دنیا کی معیشت کا بھٹہ بٹھا دیا تو دوسری جانب دنیا میں ہر 17 گھنٹے بعد ایک نئے ارب پتی کا اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی جریدے فوربز میں شائع ہونے والی 2021ء کی فہرست میں 493 نئے ارب پتی افراد شامل ہوئے ہیں۔ ان میں سے 210 کا تعلق چین‘ ہانگ کانگ اور 98 کا تعلق امریکا سے ہے۔ 2020ء کی فہرست میں جگہ بنانے والے 61 افراد اس فہرست سے خارج ہو گئے ، جن میں میک اپ بنانے والی کمپنی کا نام بھی شامل ہے۔ فہرست کے مطابق کورونا جیسی وبا کے باوجود دنیا کے امیر ترین افراد کی دولت 13 کھرب 10 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ گزشتہ سال کی نسبت اس میں 8 کھرب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ فہرست میں ایمیزون کے مالک جیف بیزوس 177 ارب ڈالر کے ساتھ سرفہرست ہیں۔ اس سال ان کی دولت میں ایمیزون کے حصص کی قیمت بڑھنے سے 64 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ دوسرے نمبر پر ٹیسلا اور سپیس ایکس کے مالک ایلون مسک ہیں۔ ان کی دولت میں ایک سال کے عرصے میں 126 ارب 60 کروڑ ڈالر کا اضافہ ہوا۔ ایک سال پہلے یہ 24 ارب 6 کروڑ ڈالر کے ساتھ 31ویں نمبر پر تھے۔ اس تیزی سے ان کی دولت بڑھنے کی اہم وجہ ٹیسلا کے حصص کی قیمتوں میں ہونے والا 705 فیصد اضافہ ہے۔ مشہور فرنچ پروڈکٹس کے مالک برناڈ آرنلٹ تیسرے نمبر پر ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں ان کی دولت میں دو گنا اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ ایک سال میں ان کی کمپنی کے حصص کی قیمتوں میں86 فیصد اضافے کی وجہ سے ان کی دولت 76 ارب سے بڑھ کر 150 ارب ڈالر ہو گئی۔ مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس 124 ارب ڈالر کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہیں۔ پانچویں نمبر پر فیس بک کے بانی مارک زکر برگ ہیں۔ فیس بک کے حصص کی قیمتوں میں80 فیصد اضافے کے بعد ان کی دولت 42 ارب 30 کروڑ سے بڑھ کر 97 ارب ڈالر ہو گئی ہے۔ اسی طرح ایک اور عالمی میگزین 'ہورن‘ کی جانب سے جاری کی گئی 2021ء گلوبل رِچ لسٹ بھی سامنے آئی ہے جس کے مطابق چین امریکا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ایک ہزار سے زیادہ ارب پتی شخصیات والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے۔ 2021ء کے آغاز میں ہی چین میں مجموعی طور پر ایک ہزار 58 ایسی شخصیات موجود ہیں جن کی دولت ایک ارب امریکی ڈالر سے زیادہ ہے۔ چینی ارب پتیوں کی یہ تعداد گزشتہ سال کے مقابلے میں 24 فیصد زیادہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکا کے ساتھ تجارتی جنگ کے باوجود چین میں 259 ارب پتیوں کا اضافہ ہوا ہے۔ چین امریکا، بھارت اور جرمنی سمیت دیگر ممالک کو شکست دے کر اب ایک ہزار سے زیادہ ارب پتیوں کے ساتھ دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے اور دنیا بھر میں ارب پتیوں کی کل تعداد تین ہزار 22 تک پہنچ گئی ہے ۔
گزشتہ سال کروڑ پتی سے ارب پتی اور ارب پتی سے کھرب پتی بننے والی شخصیات اور کمپنیوں کی فہرست کا پوسٹ مارٹم کریں تو آپ کو علم ہو گا کہ دنیا میں اس وقت ٹیکنالوجی کمپنیوں کی اجارہ داری ہے۔ پہلے پانچ امیر ترین افراد میں سے چار کا تعلق ٹیکنالوجی سے ہے۔ میک اپ‘ فیشن‘ رئیل اسٹیٹ اور مشروب ساز ادارے‘ جو عشروں تک ٹاپ ٹین کی فہرست پہ راج کرتے رہے‘ اب تیزی سے ان کے رینک میں کمی آ رہی ہے۔ ان حقائق کے باوجود اگر آج کوئی ٹیکنالوجی کی اہمیت اور اسے اپنانے سے عاری ہے تو پھر اسے کسی اچھے نفسیاتی معالج سے رجوع کرنا چاہیے۔ آپ ارب پتی اور کھرب پتیوں کو چھوڑیں‘ اپنے ملک میں دیکھیں‘ آج وہ نوجوان جو گلی محلوں میں نشہ کرتے‘ ون ویلنگ کرتے اور راہگیروں کو چھیڑتے دکھائی دیتے تھے‘ اب ڈاکٹروں اور انجینئروں سے کہیں زیادہ کما رہے ہیں۔ کیسے؟ اسی ٹیکنالوجی کی وجہ سے۔ کوئی ٹک ٹاک سے کما رہا ہے، کوئی یوٹیوب سے‘ کوئی انسٹا گرام سے تو کوئی ایمیزون سے‘ کوئی فری لانسنگ اور اس سے متعلقہ شعبوں سے۔ دنیا میں اس وقت ساڑھے چار ارب سے زائد انٹرنیٹ صارفین ہیں اور ان میں سے دو ارب سے زائد وٹس ایپ استعمال کرتے ہیں۔ چار ارب چالیس کروڑ افراد روزانہ گوگل استعمال کرتے ہیں۔ صرف امریکا میں چوبیس کروڑ انٹرنیٹ صارفین ہیں۔ پاکستان میں براڈ بینڈ استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد 10 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ گزشتہ ایک برس کے دوران دنیا بھر کی طرح پاکستا ن میں بھی کورونا کے باعث انٹرنیٹ کا استعمال بڑھا ہے۔ لاک ڈائون کی وجہ سے دکانوں کے اوقات محدود ہوئے اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے اور ٹرانسپورٹ کی بندش کے باعث لوگ سٹیشنری سے لے کر کھانے‘ کپڑوں اور جوتوں تک سبھی کچھ آن لائن منگوا رہے ہیں۔ پیسے ٹرانسفر کرنے والی عالمی کمپنی 'پے یو نیر‘ کے مطابق گزشتہ تین برس میں پاکستانیوں نے ساٹھ ارب روپے پاکستان منگائے اور یہ پیسے آن لائن کام کر کے کمائے گئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اگلے تین سے پانچ برسوں میں ہر وہ چیز آن لائن منتقل ہو جائے گی جو ہو سکتی ہے، وہ چاہے تعلیم ہو‘ ڈاکٹر سے نسخہ لکھوانا ہو یا دفاتر کا کام ہو‘ سب کچھ اس لئے آن لائن ہو گا کیونکہ ایک تو آن لائن پلیٹ فارم بڑی تعداد میں لوگوں کو سروسز فراہم کر سکتا ہے‘ اس کیلئے جگہ اور وقت کی قید نہیں ہوتی اور دوسرا، اسے کورونا جیسی بیماریوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ اس طرح کی وبائوں میں تو یہ کام مزید چمک اٹھتا ہے۔
پاکستان میں گزشتہ دو برسوں میں کپڑوں اور جوتوں کے متعدد ایسے عالمی برانڈ آئے‘ جہاں جوتوں اور کپڑوں کی قیمت پندرہ سے بیس ہزار سے شروع ہوتی ہے۔ انہیں کون خریدتا ہے؟ اس کے خریدار وہی ہیں جو باہر سے ڈالروں میں کمائی کر رہے ہیں اور یہاں عیش کی زندگی گزار رہے ہیں۔ کئی ایسے نوجوان جو گزشتہ تین برسوں کے دوران بیرون ملک نوکری اور ڈالر کمانے کے خواب لے کر گئے‘ ابھی تک ایک ڈالر نہیں کما سکے اُلٹا ان کے گھر والے انہیں یہاں سے پیسے بھیج رہے ہیں کیونکہ کورونا کی وجہ سے روایتی نوکریاں ختم ہو چکی ہیں اور باہر جانے والے مسلسل قرنطینہ میں ہیں۔ اس کے برعکس وہ نوجوان جو یہاں آن لائن چھوٹا موٹا کام کر رہے ہیں‘ وہ نہ صرف معقول آمدنی کما رہے ہیں بلکہ اپنے ملک میں عزت کی زندگی بھی گزار رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اب دنیا میں جو سرحدیں ہیں وہ برائے نام ہیں کیونکہ جس نے کاروبار کرنا ہے‘ آن لائن کوئی کام کرنا ہے دنیا کی سات ارب آبادی اس کی کسٹمر ہے۔ وہی بندہ جو کسی ایک علاقے میں چھوٹی سی دکان کھول کر اردگرد کی دو تین ہزار کی آبادی کو چیزیں فروخت کرتا ہے‘ وہ چاہے تو اسی دکان کو انٹرنیٹ پر منتقل کر کے پوری دنیا کو گاہک بنا کر ڈالرکما سکتا ہے اور ایسا ہو بھی رہا ہے۔
بل گیٹس اس وقت امریکا کا سب سے بڑا رئیل اسٹیٹ ٹائیکون ہے۔ یہ امریکا کی دو لاکھ بیالیس ہزار ایکٹر اراضی خرید چکا ہے اور اسے سائنسی بنیادوں پر زراعت کے لئے استعمال کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے تاکہ امریکا نہ صرف خوراک کی ضروریات میں خود کفیل ہو سکے بلکہ دنیا کو برآمد بھی کر سکے۔ اس کے مقابلے میں تیل بیچنے والے ممالک زبوں حالی کا شکار ہیں۔ تیل کی قیمتیں اور اس سے جڑے کاروبار زوال پذیر ہیں۔ لوگ اب اس پلیٹ فارم پر جا رہے ہیں جس میں کم وقت اور کم لاگت میں زیادہ لوگوں کو سروس دے کر کمائی کی جا سکے۔ پاکستان کی زیادہ آبادی اس کے لئے نعمت بن سکتی ہے۔ کینیڈا رقبے کے لحاظ سے پاکستان سے دس گنا بڑا ملک ہے لیکن اس کی آبادی پاکستان سے پانچ گنا کم ہے۔ وہ دنیا بھر سے بہترین دماغ لا کر اپنے ملک کو ترقی یافتہ بنانا چاہتا ہے۔ ہمارے پاس قدرتی وسائل‘ بہترین موسم‘ بہترین نہری نظام‘ سیاحتی مقامات اور ان کے ساتھ ساتھ دس بارہ کروڑ نوجوان بھی موجود ہیں‘ ان میں سے آدھے بھی ٹیکنالوجی کے میدان میں اُتر جائیں تو چند ہی برسوں میں ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے‘ قرضے اتر سکتے ہیں‘ خوشحالی آ سکتی ہے اور یہاں کے لوگ بھی دنیا کے امیر ترین کھرب پتی افراد کی فہرست میں شامل ہو سکتے ہیں۔