مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم کے خلاف احتجاج صرف پانچ فروری تک محدود نہیں بلکہ اب تو یہ سلسلہ سارا سال ہی جاری رہتا ہے۔ اس کی وجہ خود بھارت ہے جس نے آزادی کی اس تحریک کو دبانے کیلئے اوچھے ہتھکنڈے اس قدر بھونڈے انداز میں اپنائے کہ یہ تحریک سرعت کے ساتھ پھیلتی چلی گئی۔ بھارت کا نشانہ عام کشمیری عوام ہی نہ تھے بلکہ اس نے جدوجہدِ آزادی کے علمبردار چیدہ چیدہ کشمیری رہنمائوں کو چن چن کر نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ آج‘ اکیس مئی کا دن بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی بربریت کے باعث یاد رکھا جاتا ہے کیونکہ آج سے ٹھیک اکتیس برس قبل 21مئی 1990ء کو معروف حریت لیڈر میر واعظ عمر فاروق کے والد میر واعظ مولوی محمد فاروق کو بھارتی مسلح افراد نے سری نگر میں ان کی رہائش گاہ میں گھس کر گولی مار دی تھی جس سے وہ موقع پر ہی شہید ہو گئے تھے ۔ میر واعظ مولوی فاروق اہم کشمیری رہنما تھے جنہیں تحریک کے آغاز کے بعد شہید کر دیا گیا تھا۔ بھارتی درندگی یہیں تک محدود نہیں رہی تھی بلکہ بھارتی فوجیوں نے اسی دن سری نگر کے علاقے میں ان کے جنازے پر اندھا دھند فائرنگ کر کے 70 سوگواروں کوبھی شہید کر دیا تھا جبکہ ہزاروں افراد زخمی ہو گئے تھے۔ اسی طرح کشمیری رہنما خواجہ عبدالغنی لون کو بھی بارہ برس بعد 2002ء میں 21مئی کے دن ہی نامعلوم حملہ آوروں نے اس وقت شہید کر دیا تھاجب وہ شہدائے سری نگر مزار میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کے بعد واپس آرہے تھے۔ یوں اکیس مئی کا دن غاصب بھارت کے کشمیر پر قبضے اور قتلِ عام کی نسبت سے یومِ احتجاج کے طور پر منایا جانے لگا۔ بھارت جتنا اس تحریک کو دبانے کی کوشش کرتا ہے اتنا ہی یہ تحریک بھڑکتی جا رہی ہے۔
فلسطین ہو یا مقبوضہ کشمیر‘ مظلوم عوام جو روزانہ اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھا رہے ہیں‘ ان کے گھروں کو ملبے کا ڈھیر بنایا جا رہا ہے‘ ان کے بچوں تک کو شہید کیا جا رہا ہے جب وہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کیلئے نکلتے ہیں تو انہیں نہ صرف یہ کہ پُرامن احتجاج کی اجازت نہیں دی جاتی بلکہ ان کے جلوسوں حتیٰ کہ جنازوں پر بھی گولہ باری کی جاتی ہے۔ اسی طرح تحریک آزادی اور اپنے حقوق کی جنگ لڑنے والوں کو انتہا پسند اور دہشت گرد بنا کر پیش کیا جاتا ہے جس کا مقصد صرف یہ ہے کہ اُن کی آواز کو دبایا جا سکے تاکہ وہ ظالم ملک کاچہرہ بے نقاب نہ کر پائیں۔ بھارت اس معاملے میں بھی بری طرح ناکام رہا ہے کیونکہ وہ جھوٹ کی جتنی زیادہ ملاوٹ کرتا ہے اتنا ہی خود اس کا گھنائونا چہرہ اور اس کا جبر دنیا کے سامنے آشکار ہو جاتا ہے۔
آج انٹرنیٹ کا دور ہے۔ پاکستان جو ایک ترقی پذیر ملک ہے‘ کی چوراسی فیصد آبادی کے پاس موبائل فون کی سہولت موجود ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک ترقی پذیر ملک بھی آج معلومات اور کمیونیکیشن میں پیچھے نہیں رہا۔ بھارت میں بھی آدھی سے زیادہ آبادی کے پاس موبائل فون ہے۔ جدید ممالک میں تو یہ شرح ننانوے فیصد تک ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں یہ سمجھنا کہ وہی ہتھکنڈے کام آ جائیں گے جو آج سے بیس‘ پچیس سال قبل تک آزمائے جا سکتے تھے تو یہ بھارت اور تمام ایسی طاقتوں کے لئے خام خیالی تو ہو سکتی ہے لیکن عملی صورت حال یہ ہے کہ آج دنیا پل پل کی خبر سے واقف ہو رہی ہے۔دنیا کے ایک کونے میں کوئی واقعہ ہوتا ہے تو پلک جھپکتے ہی اس کی خبر نہ صرف جنگل کی آگ کے طرح دنیا کے دوسرے کونے تک پھیل جاتی ہے بلکہ اس پر عام لوگوں کی آرا ‘ تجزیے اور تبصرے بھی سامنے آ جاتے ہیں جنہیں ٹرینڈ کا نام دیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا کے ان ٹرینڈ ز میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ یہ دنیا کے بڑے میڈیا ہائوسز کی فوری توجہ حاصل کر لیتے ہیں اور انہی ٹرینڈز کے اثرات پر حکومتوں کو سرنڈر بھی کرنا پڑتا ہے۔گزشتہ کئی دنوں سے فلسطین کا مسئلہ سوشل میڈیا پر زیربحث ہے۔ فیس بک پر جو صارف بھی فلسطین کے حق میں آواز اٹھاتا ہے‘ اس کا اکائونٹ کچھ دنوں کیلئے بلاک کر دیا جاتا ہے۔ فیس بک کے اس رویے کا خمیازہ اس کے مالک مارک زکربرگ کو یوں بھگتنا پڑا کہ فیس بک کی ایپ کو پانچ کے بجائے پسندیدگی کا صرف ایک سٹار ملنے لگا ہے جس سے اس کی ریٹنگ انتہائی کم ہو چکی ہے۔ جبراً آوازوں اور تحریکوں کو جتنا دبایا جاتا ہے سپرنگ کی طرح ان میں کئی گنا طاقت پیدا ہو جاتی ہے اور یہ پہلے سے کہیں زیادہ طاقت کے ساتھ اپنا ردعمل دیتی ہیں۔کشمیر کے معاملے میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔
بھارت نہ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے کو تیار ہے نہ ہی کشمیری عوام کو ان کے حقوق دینے پر راضی ہے۔ ستر برس سے زیادہ ہو گئے‘ بھارت کو اب بھی سمجھ نہیں آئی کہ اس کی سات یا نو لاکھ فوج کشمیر ی عوام پر جبر کر کے انہیں گزشتہ سات دہائیوں سے اپنے ایجنڈے پر قائل نہیں کر سکی تو آئندہ کیسے کرے گی۔اسے امریکا سے سبق سیکھنا چاہیے جس کی اتحادی فوج بے انتہا نقصان اٹھا کر افغانستان سے واپس جا رہی ہے۔ اتنا خطیر بجٹ اب جنگوں پر لگانا ممکن نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے عوام بھوکوں مر رہے ہیں‘ انہیں روزگار میسر ہے نہ رہنے کو چھت‘اس کے کسان کئی ماہ سے سڑکوں پر ہیں‘کورونا نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے جبکہ اس کا جنگی جنون اسے دیوالیہ بنانے کے قریب ہے۔ بھارت اسرائیل کی طرز پر چل رہا ہے لیکن کب تک ایسا ممکن ہو گا؟ دنیا کو بھی کشمیر کے مسئلہ پر بھارت کو متنبہ کرنا پڑے گا کیونکہ اس مسئلے پر خاموشی کا مطلب انسانیت کے ساتھ دھوکا اور غداری ہو گی۔ مغربی ممالک اور ان کی این جی اوز‘ جو کتوں بلیوں کو بھی ان کے حقوق دلانے کیلئے سرگرداں رہتی ہیں‘ حیرانی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم ان کی نظروں سے اوجھل رہ جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کشمیریوں کی واحد آس پاکستان ہے جو اس مسئلے کے آغاز سے اب تک نہ صرف کشمیریوں کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہے بلکہ اس مسئلے کو پوری دنیا میں سفارتی سطح پر مسلسل اٹھانے میں بھی مصروف ہے۔کشمیری دنیا میں جہاں جہاں موجود ہیں‘ وہ پاکستان کے سفارتکار بن چکے ہیں۔ ہر سال دنیا بھر کے ممالک میں وہ غیر ملکی سفارت خانوں کے سامنے کشمیر پر بھارتی تسلط کے خلاف مظاہرے کرتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی مسئلہ کشمیر کو بڑی شد و مد کے ساتھ اٹھایا ہے اور اپنے سفارت کاروں کو پوری دنیا میں اس مسئلے پر متحرک کیا ہے۔ یہ ذمہ داری ہر اس پاکستانی کی ہے جو مقبوضہ کشمیر میں اٹھنے والا درد اپنے سینے میں محسوس کرتا ہے۔ سوشل میڈیا کے محاذ پربھی جتنا ہو سکے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔ ہم نے پہلی مرتبہ لاک ڈائون کا لفظ مقبوضہ کشمیر سے متعلق سنا تھا ۔ بھارت نے کشمیریوں کو ان کے گھروں میں قید کر دیا تھا۔ انہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم کر کے شاید بھارت سمجھ بیٹھا تھا کہ اس لاک ڈائون کی وجہ سے کشمیری عوام سر پر ہاتھ رکھ کر باہر نکل آئیں گے اور سرنڈر کر دیں گے لیکن بھارت کا یہ حربہ بھی ناکام ہو گیا۔ پھر کورونا آ گیا اور بھارت سمیت پوری دنیا لاک ڈائون کا شکار ہو گئی۔ پھر جا کر دنیا کو علم ہوا لاک ڈائون کس قدر اذیت ناک عمل ہے۔آج اکیس مئی کو ایک مرتبہ پھر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کے خلاف احتجاج کیا جائے گا جبکہ بھارت اس احتجاج کو ہمیشہ کی طرح روکنے کی کوشش کرے گا۔ بھارت نے اُس روز کشمیریوں کے خون سے ہولی کھیلی تھی‘ بے گناہوں کو شہید اور بچوں کو یتیم کیا تھا‘ لیکن ایسا کرتے وقت وہ یہ بھول گیا تھا کہ خدا کے ہاں دیر تو ہو سکتی ہے لیکن اندھیر نہیں‘ ظلم ایک حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے‘ بھارت کو آج نہیں تو کل یہ حقیقت ضرور سمجھ آ جائے گی۔