عالمی سطح پر ماحولیات کا دن ہر سال پانچ جون کو منایا جاتا ہے۔ اس مرتبہ منفرد بات یہ ہے کہ اس دن ہونے والے مرکزی ایونٹ کی میزبانی پاکستان کرے گا۔ اس بات کا فیصلہ اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر نے پاکستان کے ماحولیات کے حوالے سے کئے گئے اقدامات کی وجہ سے کیا۔ عمران خان وزیراعظم بننے سے قبل بھی ماحولیات اور سیاحت کے فروغ پر بہت زور دیتے تھے۔ گزشتہ دور میں تحریک انصاف کو خیبر پختونخوا میں حکومت ملی تھی اور اس دوران ایک ارب سے زائد پودے لگائے گئے۔ وزیراعظم بننے کے بعد خان صاحب کے پاس اس مشن کو آگے بڑھانے کے لیے وسائل بھی تھے اور اقتدار بھی؛ چنانچہ ماحول اور درجہ حرارت میں ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے پورے ملک میں شجرکاری کے منصوبے دیکھنے کو ملے جن کے ثمرات آہستہ آہستہ سامنے آ رہے ہیں۔ شاپنگ بیگز پر پابندی کو ہی لے لیں تو یہ بھی بہت بڑا کارنامہ ہے۔ مجھے یاد ہے ہم بچپن سے اخبارات میں ''لیٹر ٹو ایڈیٹرز‘‘ والے خانے میں ایسے خطوط آئے روز دیکھتے تھے جن میں شاپنگ بیگز کی پابندی پر زور دیا جاتا تھا موجودہ دور میں یہ کام ہم نے اپنی آنکھوں سے ہوتے ہوئے دیکھا۔ کورونا کے بعد اس پالیسی کے نفاذ میں مزید سختی آئی تاکہ جراثیم کے پھیلائو کو روکا جا سکے۔ شاپنگ بیگز اس قدر خوفناک ہیں کہ یہ سمندر میں جا کر بھی کئی سو برس بعد گلتے ہیں۔ اس دوران اگر یہ مچھلیوں کی خوراک بن جائیں تو سمندری حیات کی بقا کے لیے خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ پھر ہر گلی محلے میں شاپنگ بیگز کی بھرمار اور عام استعمال کی وجہ سے سیوریج کی لائنیں بند ہو جاتی ہیں جو تعفن اور بیماریوں کا باعث بنتی ہیں۔ بعض شہروں کی کچھ سڑکوں کو ماڈل قرار دے کر وہاں کچرا‘ تھوک اور پان کی پیک پھینکنے کو بھی ممنوع قرار دیا گیا ہے اور یہ وہی کام ہیں جو جدید ممالک میں بھی ہم دیکھتے ہیں اور واپس آ کر سوچتے ہیں کہ کاش! ہمارے ملک میں بھی صفائی کا ایسا ہی نظام بن جائے۔ یہ تو زمین کی بات تھی لیکن فضا میں اوزون کی تہہ جس بری طرح متاثر ہو رہی ہے اس کا حل وسیع پیمانے پر شجرکاری مہم ہی ہے۔ بہت سے شہری علاقوں میں میواکی جنگل لگائے جا رہے ہیں جن کے ذریعے آلودگی اور درجہ حرارت بڑھنے جیسے مسائل پر قابو پایا جا سکے گا۔ اسی طرح وہ فیکٹریاں اور کارخانے جو دھویں‘ آلودہ پانی اور دیگر ویسٹ میٹریل کے ذریعے ماحولیاتی مسائل میں اضافہ کر رہے ہیں‘ کو بھی جدید ٹیکنالوجی اپنا کر ان مسائل سے نجات حاصل کرنے کی طرف لگایا گیا ہے۔ ماحولیات کا ایشو عالمی ممالک میں بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی تنظیمیں اور ادارے اسے قومی اور بین الاقوامی سطح کی اہمیت دیتے ہیں‘ اس کیلئے پوری ملکی مشینری کو متحرک کیا جاتا ہے‘ خطیر بجٹ مختص ہوتا ہے اور تعلیمی اداروں سے لے کر کاروباری اداروں تک عوام میں اس مسئلے کی پیچیدگی سے آگاہی کیلئے مہمات چلائی جاتی ہیں۔ دس‘ بیس اور پچاس سال کے گول سیٹ کیے جاتے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کے بجائے برقی ٹیکنالوجی پر ٹرانسپورٹ کو منتقل کرنے کے سلسلے میں دنیا کی جدید کمپنیاں نہ صرف تیزی سے کام کر رہی ہیں بلکہ کئی ایجادات تو عملی طور پر زندگی کا معمول اور حصہ بن چکی ہیں۔ روزانہ جو کچرا پیدا ہوتا ہے اسے ٹھکانے لگانے کیلئے نت نئے آئیڈیاز پر کام ہوتا ہے۔ بعض جگہوں پر اسے ننانوے فیصد ری سائیکل کر دیا جاتا ہے۔ اس سے مختلف اشیا بنا لی جاتی ہیں یوں ایک ضائع شدہ چیز سے زرمبادلہ بھی کما لیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ماحولیات کے عالمی دن کی میزبانی کو ملکی ماحول کی بہتری اور آئندہ نسلوں کیلئے ایک شفاف پاکستان کے قیام کی خاطر استعمال کیا جانا چاہیے۔ میڈیا پر تو یہ چیزیں آنی ہی چاہئیں لیکن تعلیمی اداروں اور نجی و سرکاری سطح پر بھی اس کی تشہیر سے عام شخص کو اس مسئلے کی اہمیت کا ادراک ہو گا۔ جیسا کہ گزشتہ چند دنوں سے گرمی کی شدت میں اچانک اضافہ ہوا ہے جبکہ اس سے قبل ملا جلا موسم چل رہا تھا‘ بارشیں جو عموماً جولائی‘ اگست میں ہوتی ہیں وہ بھی یا تو ہر سال کم ہوتی جا رہی ہیں یا پھر دیگر ماہ میں تقسیم ہو گئی ہیں۔ بعض اوقات گندم کی فصل تیار ہوتی ہے تو بارشوں کا سلسلہ چل نکلتا ہے جس سے نہ صرف کسان اور زمیندار بربادی کے دہانے پہنچ جاتے ہیں بلکہ ملک پر خوراک کی کمی کے خدشات بھی منڈلانے لگتے ہیں۔ ان مسائل کا حل غور وفکر میں پوشیدہ ہے۔ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے اور اس کا حل کیا ہے۔ ان باتوں پر غور کرنا صرف حکومت کے کسی ایک ماحولیاتی محکمے کا کام نہیں بلکہ بچوں سے لے کر بوڑھوں تک سبھی کو یہ سوچنا ہو گا کہ وہ ماحول کی بہتری میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ ایسا کام ہے جو عوام کی بھرپور شمولیت کے بغیر ممکن نہیں۔ اس پر لاکھ قوانین بھی بنا لئے جائیں وہ ناکافی ہوں گے جب تک عوام ایک جذبے کے ساتھ اس میں شریک نہ ہوں۔
پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہیں جو گزشتہ بیس برس میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ 2010ء کی دہائی میں آگے پیچھے کئی سیلاب آئے۔ اس قبل 1998ء سے 2002ء تک انتہائی کم بارشیں ہوئیں جس سے تھرپارکر اور چولستان جیسے علاقوں میں قحط کی سی صورتحال پیدا ہو گئی تھی۔ 2015ء میں کراچی اور اگلے برس اسلام آباد طوفانی ہوائوں کی زد میں رہا۔ یہ تمام انڈیکیٹرز اس بات کی طرف توجہ دلانے کیلئے کافی ہیں کہ پاکستان کو حقیقتاً ماحولیاتی مسائل کا سامنا ہے اور اس کی سنگینی کا ادراک اب نہ کیا گیا تو نقصان بڑھ بھی سکتا ہے۔ ایکو سسٹم کی بحالی اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ سانس لینا۔ ویسے بھی سانس تبھی آئے گا جب یہ ایکو سسٹم پوری طرح نارمل ہو گا۔ 2021ء سے 2030ء تک اس مسئلے کو معیشت‘ دفاع‘ تعلیم اور صحت جیسے مسائل جتنی توجہ دینا ہو گی۔
وفاق کی طرح پنجاب میں بھی ماحول کی بہتری پر توجہ دکھائی دے رہی ہے۔ گزشتہ دنوں خدمت آپ کی دہلیز پر ایک پروگرام شروع ہوا جس کے تحت صفائی‘ نکاسی آب اور سرکاری عمارات کی صفائی ستھرائی کیلئے تین ہفتے مختص کئے گئے ہیں۔ خدمت آپ کی دہلیز کے نام سے ایک ایپ بھی صوبائی حکومت نے تیار کرائی ہے جس کے ذریعے شہری کچرے کی موجودگی کی اطلاع دے سکیں گے، اسی طرح ایپ کے ذریعے حکومتی اہلکار یہ دیکھ سکیں گے کہ کہاں پر انتظامات ناقص ہیں اور کہاں بہتری آ چکی ہے۔ شہری اس ایپلی کیشن کے ذریعے مسائل متعلقہ اداروں کے نوٹس میں لا سکیں گے۔ اس طرح کے منصوبوں سے عوام بھی خود کو حکومت کے ساتھ شریک پائیں گے ان میں احساس ذمہ داری پیدا ہو گا اور وہ ماحول کی بہتری میں اپنا کردار ادا کر سکیں گے۔ پاکستان میں ماحولیات کے حوالے سے آئندہ ہفتے پہلی مرتبہ کوئی بڑی عالمی سرگرمی دیکھنے کو ملے گی ۔ اس کانفرنس میں پوری دنیا سے اہم ترین شخصیات کانفرنس شریک ہوں گی جن میں سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوتریس‘ پاپ فرانسس‘ جرمن چانسلر اینجلا مرکل اور وزیراعظم عمران خان شامل ہیں۔ پاکستان اس کانفرنس میں تفصیل سے بتائے گا کہ وہ اس خطے میں ماحول کو صاف رکھنے کیلئے کون سے اقدامات کر چکا ہے اور آئندہ کی پلاننگ کیا ہے۔
صاف پا نی اور صاف ہوا ہر شخص کا بنیادی حق اور بنیادی ضرورت ہے؛ چونکہ یہ مسئلہ پھیل کر کئی ملکوں کو اپنے حصار میں لے چکا ہے اس لیے یہ بنیادی حق اور بنیادی ضرورت تبھی پوری ہو سکتی ہے جب تمام متاثرہ ممالک مل کر اس کے خلاف لڑنے پر آمادہ ہوں۔ کسی ایک ملک یا کسی ملک کے کسی ایک ادارے یا چند لوگوں کی انفرادی کاوشوں سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ سب سے پہلے اس مسئلے کی آگاہی اور شعور ضروری ہے۔ عالمی ممالک اور ان کے عوام کو آگاہی اور شعور آ گیا تو تکنیکی رکاوٹیں اور پیچیدگیاں دور کرنا آسان ہو جائے گا۔ یہ کانفرنس ایک بہتر ماحول کی جانب اہم ترین قدم ہے جسے اجتماعی کاوشو ں سے کامیاب کیا جا سکتا ہے۔