تین روز قبل پنجاب کا آئندہ مالی سال کا 26کھرب 53ارب روپے کا بجٹ کثرتِ رائے سے منظور کر لیا گیا۔پنجاب اسمبلی میں وزیرخزانہ ہاشم جواں بخت نے فنانس بل پیش کیا۔اس بجٹ میں کچھ خاص نکات ایسے تھے جنہیں اپوزیشن نے روایتی شور و غوغا میں نظر انداز کر دیا۔ عموماً بجٹ پیش ہوتا ہے تو اسے اعداد و شمار کا ہیر پھیر اور گورکھ دھندا قرار دیا جاتا ہے۔ یہ پروپیگنڈا اتنی شدت کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ اصل حقائق دب جاتے ہیں۔زیادہ تر لوگ بجٹ دستاویز پڑھنے پر غور نہیں کرتے اور محض موٹی موٹی چند چیزوں کو لے کر بجٹ کے بارے میں ایک امیج قائم کر لیتے ہیں۔ پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ ماضی سے اس کا موازنہ نہیں کیا جاتا۔ الٹا سوشل میڈیا پر ایسے ٹرینڈ چلا دیے جاتے ہیں کہ حکومت نے فلاں اہم شعبے کا بجٹ آدھا کر دیا یا فلاں منصوبے ختم کر دیے۔ اب لوگ سوشل میڈیا پر سنی سنائی باتوں پر یقین کرنے کے عادی ہو چکے ہیں اور چیزیں دھڑا دھڑ آگے فارورڈ بھی کر دیتے ہیں۔ ہم پہلے صحت کی بات کر لیتے ہیں۔ پنجاب کا بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیرخزانہ ہاشم جواں بخت نے واضح طور پر بتایا تھا کہ آئندہ مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں صحت کے لیے 370ارب روپے مختص کیے گئے ہیں‘ شعبہ صحت کے ترقیاتی پروگرام کا مجموعی بجٹ 96 ارب روپے ہے جو رواں مالی سال کے مقابلے میں 182 فیصد زیادہ ہے۔ یہ درست ہے کہ دیگر صوبوں کی طرح پنجاب میں بھی صحت کا شعبہ عالمی معیار کے مطابق نہیں ۔تمام صوبوں کو کئی مسائل درپیش ہیں مثلاً ڈاکٹرز اور ہسپتالوں کی کمی ‘ بیڈز کی قلت‘ اسی طرح وسائل کم ہیں لیکن یہ سب راتوں رات کیسے تبدیل ہو گا‘ اس بارے میں کوئی بات نہیں کرتا۔ یہ اپوزیشن جماعتیں‘ جو آج صحت یا دیگر شعبوں کی حالتِ زار کے بارے میں شور مچا رہی ہے‘ کیا یہ بتائیں گی کہ زرداری صاحب اور نواز شریف کے ادوار میں اس شعبے کا کیا حال تھا؟ کیا اس وقت رکشوں میں بچے نہیں پیدا ہوئے تھے؟ کیا شہباز شریف وزیراعلیٰ تھے تو ایک بیڈ پر دو دومریض نہیں لٹائے جاتے تھے؟ کیا اس وقت ینگ ڈاکٹرز ہڑتالیں نہیں کرتے تھے؟ یہ سب کچھ اس وقت بھی ہوتا تھا‘ حالات تب بھی آئیڈیل نہ تھے۔ یہی اپوزیشن اگر آج حکومت میں آ جائے تو ان مدات میں بجٹ میں کتنا اضافہ کر لے گی؟ شہباز شریف صاحب تین مرتبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں ‘دس سال انہوں نے مسلسل پنجاب پر حکومت کی، ان کی حکومت میں ہر سال معمولی اضافہ ہی ہوتا تھا لیکن اس بار تو ایک سو بیاسی فیصد اضافہ ہوا ہے لیکن چونکہ تنقید برائے تنقید کا کلچر ہے اس لئے بات حقائق یا دلائل کی بنیاد پر کی ہی نہیں جاتی۔ پھر جنوبی پنجاب بارے کہا جاتا ہے کہ پروگرام ختم کر دیا گیا ہے حالانکہ سب جانتے ہیں ملتان اور بہاولپور میں سول سیکرٹریٹ قائم ہو چکے ہیں اوران کی مستقل عمارتوں کی تعمیر کیلئے بھی فنڈزمختص کیے جا رہے ہیں۔
اسی طرح صوبائی وزیرخزانہ کے مطابق‘ صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جنوبی پنجاب کا ترقیاتی پروگرام الگ جاری کیا گیا ہے۔بجٹ میں جنوبی پنجاب کے لیے189ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو پنجاب کے کُل ترقیاتی پروگرام کا 34 فیصد ہے۔یہاں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صرف جنوبی پنجاب کے ترقیاتی پروگرام کیلئے اگر ایک تہائی رقم رکھی جا رہی ہے تو پھر شور مچانے کا مقصد کیا ہے؟ گزشتہ ڈیڑھ برس تو کورونا کی نذر ہو گیا‘ اس دوران وزیراعظم عمران خان نے تعمیراتی شعبے کیلئے جو ریلیف پیکیج دیا اس کا فائدہ تمام صوبوں نے اٹھایا ہے۔دنیا حیران تھی کہ کورونا وبا نے جہاں ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے وہاں پاکستان کی گروتھ چار فیصد سے بھی زیادہ ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے دنیا پاکستان کی معیشت کی بحالی کی معترف ہوئی ہے۔ کورونا وبا میں کاروبار کو ٹیکس ریلیف دیا گیا حالانکہ ترقی پذیر ممالک کیلئے ایسا کرنا ممکن نہ تھا۔
یہ درست ہے کہ اس وقت سب سے بڑا چیلنج مہنگائی ہے لیکن یہ چیلنج ہر دور میں رہا ہے۔گزشتہ دنوں پی ٹی وی کا 1983ء میں پیش کیا جانے والے معروف کامیڈی ڈرامہ ''آنگن ٹیڑھا‘‘ انٹرنیٹ پر دوبارہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس ڈرامے کی ہر قسط میں مہنگائی کا اس طرح سے ذکر ہے جیسے آج ہم روز مرہ کے معاملات میں ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہیں۔گویا یہ مہنگائی کسی ایک دور یا دورانیے یا کسی ایک ملک یا علاقے تک محدود نہیں بلکہ ہر دور میں تھی اور آگے بھی رہے گی۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2200افراد دنیا کی آدھی سے زیادہ دولت کے مالک ہیں،یعنی ان کے پاس جو پیسہ‘ جائیداد اور سونا ہے ہے وہ دنیا کے 4.5ارب افراد سے بھی زیادہ ہے۔اب اگر 2200 افراد سے یہ دولت لے کر ان ساڑھے چار ارب لوگوں میں بانٹ دی جائے تو ہر کسی کے حصے میں 3 سے 4 لاکھ آئیں گے اور ظاہر ہے اس سے ان کے چار مہینے بھی بمشکل گزریں گے۔ پھر آخر اس مہنگائی کا حل کیا ہے؟ کیا حکومتیں انہیں جادو کے ذریعے کنٹرول کر سکتی ہیں؟ کیا امریکا‘ کینیڈا اور یورپ میں مہنگائی نہیں ہے؟ وہاں تو قدم قدم پر اتنے ٹیکس ہیں کہ خدا کی پناہ! ہر سٹیٹ‘ ہر شہر اور ہر علاقے کے اپنے اپنے ٹیکس۔ صبح کے وقت کچھ شام کو کچھ۔اور تو اور پارکنگ فیس اتنی زیادہ ہے کہ بندے کے ہوش اڑ جائیں۔ یہاں پارکنگ کرتے ہوئے تیس روپے کوئی مانگ لے تو ہم اسے خونخوار نظروں سے ایسے دیکھنے لگتے ہیں جیسے اس نے ہم سے ہمارے دونوں گردے مانگ لئے ہوں۔وہاں تنخواہ اگر پانچ ہزار ڈالر ماہانہ ہے تو تین ہزار ڈالر ٹیکسوں میں چلے جاتے ہیں۔ عیاشی آپ نہیں کر سکتے؛ ہاں البتہ جو فرق ہے وہ یہ کہ پھر حکومت انہیں تعلیم‘ صحت‘ ٹراسپورٹ اور دیگر سہولتوں کی صورت میں وہ پیسے واپس کرتی ہے لیکن کیا ہم اپنی تنخواہوں میں سے پچاس سے ساٹھ فیصد ٹیکس کٹوانے کو تیار ہیں؟ ہم چاہتے ہیں مفت اور معیاری تعلیم ایسے اداروں میں جہاں ایئرکنڈیشنر چل رہے ہوں‘ایسے سرکاری ہسپتال جو نجی ہسپتالوں کی طرح ہمارا علاج کریں لیکن ہم سے پیسے نہ مانگیں‘ ایسی ٹرینیں اور بسیں جو آواز کی رفتار سے چلتی ہوں اور ایسی سڑکیں اور پارکس جو جنت نظیر وادی کا منظر پیش کرتے ہوں‘ یہ سب ہماری خواہشیں ہیں لیکن اس کیلئے ہم میں سے کتنے ہیں جو ویسی قربانی دینے کو تیار ہیں جو جدید ممالک کے شہری دیتے ہیں؟جتنا کام وہ دفاتر میں کرتے ہیں کیا ہم اتنا کرتے ہیں یا کرنے کو تیار ہیں؟ اگر ہیں تو پھر ہمیں وہ سب کچھ یہاں بھی مل سکتا ہے جس کے خواب ہم دیکھتے ہیں لیکن وہاں کی اپوزیشن اور حکومتیں ایک دوسرے کے مخالف نہیں چلتیں بلکہ ایک دوسرے سے تعاون کرتی ہیں‘ جہاں جس کو کوئی خرابی یا بہتری کی صورت دکھائی دیتی ہے‘ وہ آگاہ کرتا ہے اور چیزیں بہتر ہوتی جاتی ہیں۔ یہاں صرف اور صرف باری کا انتظار کیا جاتا ہے اور مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی تو ویسے بھی باریوں کی عادی ہو چکی ہیں۔ اس سٹیٹس کو کو توڑنے کی کوشش تحریک انصاف نے کی ہے۔ اس کے سامنے دہرا چیلنج تھا۔ ایک ماضی کے لیے گئے قرضوں اور مہنگے معاہدوں کو سمیٹنا اور ملک کو ترقی کی نئی راہوں پر گامزن کرنا۔ ان دونوں کاموں کیلئے اچھی خاصی رقم درکار ہے اور یہ رقم الہ دین کا چراغ رگڑنے سے نہیں بلکہ ٹیکسوں اور نئے منصوبوں سے ہی آئے گی۔ ٹورازم انڈسٹری اگر چل بھی پڑتی ہے تو اس کے اثرات کے آنے میں کئی سال لگیں گے اس لئے جیسا کہ ہاشم جواں بخت نے کہا کہ تنقید برائے اصلاح ہو تو ٹھیک ہے کہ اس میں تنقید کرنے والے کی نیت کا فتور نہیں ہوتا بلکہ وہ مجموعی طور پر معاشرے کی بہتری چاہتا ہے لیکن اگر صرف پوائنٹ سکورنگ کرنا مقصد ہو تو پھر یہ کام تو گزشتہ تیس چالیس سال سے مسلسل ہو رہا ہے اور اس کا جو حاصل ہے وہ بھی ہمارے سامنے ہے کہ ایک صاحب لندن میں جا کر بیٹھے ہیں اور دوسرے اپنی کرپشن چھپانے میں لگے ہیں ۔ترقی اور خوشحالی ہر کسی کی خواہش ہے لیکن یہ چیزیں قربانیاں مانگتی ہیں اور اپنی دولت بچانے کیلئے ملک سے بھاگنے والے کبھی قربانیا ں نہیں دے سکتے۔