جاپانی قوم دنیا میں سب زیادہ طویل العمر قوم شمار کی جاتی ہے۔ جاپان ٹیکنالوجی کی دوڑ میں بھی آگے رہتا ہے ‘ اس کے ساتھ ساتھ یہ کھیلوں کے عالمی مقابلوں میں بھی سرفہرست رہتا ہے۔ حالیہ ٹوکیواولمپکس میں یہ تیسرے نمبر پر آیا ہے۔ جاپان میں خواتین کی اوسط عمر 87 برس جبکہ مردوں کی عمر 82 برس ہے۔ گزشتہ برس جاپان میں 90 سال کی عمر کو پہنچنے والے افراد کی تعداد 23 لاکھ سے زیادہ تھی۔ صحت‘ کامیابیوں اور طویل العمری کے کئی راز ہیں مثلاً جاپانی لوگ خوراک کے معاملے میں بہت محتاط ہیں۔ وہ زبان کے ذائقے کے بجائے کھانے میں شامل اجزا کے فوائد کو اہمیت دیتے ہیں۔ خوراک کو متوازن رکھتے ہیں۔ مچھلی‘ اُبلے چاول‘ سبزیوں اور سی فوڈ کا بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ وٹامنز اور منرلز سے بھرپور ایسی خوراک کو اپنے کھانوں کا باقاعدہ حصہ بناتے ہیں جو کینسر اور دل کے عارضوں سے محفوظ رکھتی ہوں۔ اچھی خوراک کی وجہ سے جاپانیوں میں موٹاپا نہ ہونے کے برابر ہے۔ جاپان کی صرف 4 فیصد آبادی موٹاپے کا شکار ہے جبکہ اس کے مقابلے میں 28 فیصد برطانوی اور 36 فیصد امریکی شہری موٹاپے کے مرض میں مبتلا ہیں۔ موٹاپا کئی عوارض لے کر آتا ہے جن میں بلڈ پریشر‘ ذیابیطس اور دل کی بیماریاں شامل ہیں۔ جاپان میں غذائی پروگرام سکولوں کی سطح پر ہی شروع ہو جاتے ہیں۔ سکولوں کو گائیڈ لائنز دی جاتی ہیں اور بچوں کو آغاز سے ہی صحت بخش خوراک کھانے کی عادت ڈالی جاتی ہے جو ساری عمر ان کا ساتھ دیتی ہے۔ سکولوں میں بچوں کو وافر پھل اور سبزیاں کھلائی جاتی ہیں تاکہ ان کا معدہ بوجھل نہ ہو اور وہ کام کے وقت سستی اور کاہلی کا شکار نہ ہوں۔ دوسری احتیاط جو جاپانی کرتے ہیں‘ وہ کھانا دھیان سے کھانا ہے۔ بجائے اس کے کہ کھانا کھاتے وقت کوئی فلم لگا لی جائے یا ٹی وی یا موبائل فون پر وڈیوز دیکھی جائیں‘ جاپانی کھانا انتہائی توجہ اور انہماک سے کھاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں اگر آپ خوراک کو توجہ سے کھائیں گے تو وہ آپ کے جسم کا حصہ بنے گی اورآپ ضرورت کے مطابق کھائیں گے لیکن اگر آپ ٹی وی دیکھتے ہوئے یا گپیں مارتے ہوئے کھاتے جائیں گے تو ضرورت سے بہت زیادہ کھا لیں گے جس سے موٹاپا اور دیگر بیماریاں آپ کو آسانی سے دبوچ لیں گی۔ جاپان میں یہ گائیڈ لائنز بہت عام ہے کہ آپ کھانا کھاتے ہوئے اس وقت ہاتھ روک دیں جب آپ کا پیٹ 80 فیصد بھر چکا ہو۔ ویسے یہی باتیں ہمارا دین بھی ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم بھوک رکھ کر کھائیں لیکن ہم کم ہی عمل کرتے ہیں۔ پھر جاپانی لوگ تھوڑا اور آہستہ رفتار سے کھانا پسند کرتے ہیں اس سے کھانا جلدی ہضم ہو جاتا ہے۔ وہ کھانے کو چھوٹے حصوں میں بانٹ لیتے ہیں۔ ہر پلیٹ کے صرف چوتھائی حصے کو بھرتے ہیں اس طرح وہ ضرورت سے زیادہ نہیں کھاتے۔ جاپانی صدیوں سے سبز چائے کے دلدادہ ہیں جو ہاضمے کے لیے ٹانک کا کام کرتی ہے اور جسم کو تازہ دم اور دماغ کو متحرک رکھتی ہے۔ سبز چائے بھی جوان اور دیر تک زندہ رکھنے میں مدد کرتی ہے۔ سبز چائے بالعموم دن میں کئی مرتبہ پی جاتی ہے اور کولڈ ڈرنکس کی جگہ پارٹیوں میں یہی پسند کی جاتی ہے۔ تیسرا اہم فیکٹر جو جاپانیوں کی صحت اور لمبی عمر کیلئے معروف ہے وہ متحرک یعنی ایکٹو لائف سٹائل ہے۔ 98 فیصد کے قریب جاپانی پیدل یا سائیکل پر سکول جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ سائیکل پر ٹرین یا بس سٹیشن تک جاتے ہیں اور وہاں سے ٹرین یا بس پکڑتے ہیں۔ واپسی پر پھر سائیکل لے کر گھر آتے ہیں۔ جاپانی زمین پر بیٹھ کر کھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس طرح ان کی ٹانگوں کے مسلز (پٹھے) لچکدار اور مضبوط رہتے ہیں۔ جاپان میں دنیا کا بہترین ہیلتھ کیئر سسٹم موجود ہے۔ اوسطاً ایک جاپانی شہری ایک سال میں تیرہ مرتبہ ڈاکٹر کے پاس چیک اَپ کیلئے جاتا ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ سال میں تیرہ مرتبہ بیمار ہوتا ہے بلکہ اس لیے کہ اگر کوئی بیماری شروع ہو رہی ہے تو اسے آغاز میں ہی پکڑ لیا جائے۔
جاپان کے بیشتر گھروں میں کچن گارڈننگ کی سہولت موجود ہے۔ اگر گھر چھوٹا ہے تو بھی کچن کی کھڑکی میں بیل دار سبزیاں ضرور دکھائی دیں گی۔ اس کے علاوہ گھروں میں مچھلیاں تک پالی جاتی ہیں۔ تالاب کی جگہ نہیں ہے تو بھی یہ لوگ کشتی کے نچلے حصے کو تالاب کی جگہ دے کر مچھلیاں پال لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ روزانہ کی بنیاد پر سو گرام تک مچھلی کھاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق جاپان میں دل کے امراض کے کم ہونے کے پیچھے بڑی وجہ مچھلی کا استعمال ہے۔ جاپانی لوگوں کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ چلتے نہیں بلکہ بھاگتے ہیں۔ سائیکل ان کی من پسند سواری ہے ہر دوسرا بندہ سائیکلنگ کرتا نظر آتا ہے۔ فٹ پاتھ ان کے ٹریک ہیں‘ جہاں یہ جب چاہیں بھاگ رہے ہوتے ہیں۔ ان کی فٹنس کا راز ان کی بھاگ دوڑ اور متحرک زندگی میں چھپا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک جاپانی دن میں اوسطاً چھ ہزار قدم چلتا ہے۔ ہر جاپانی ہفتے میں تین دن آدھے گھنٹے کی واک ضرور کرتا ہے۔
جاپانی صفائی کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ وہ گھر میں داخل ہونے سے پہلے اپنے جوتے اتار دیتے ہیں۔ اس طرح وہ باہر کی گندگی کو گھر میں داخل نہیں ہونے دیتے اور جراثیموں اور صفائی پر بہت زیادہ وقت اور انرجی خرچ کرنے سے محفوظ رہتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں بھی صفائی ستھرائی کا اعلیٰ معیار برقرار رکھا جاتا ہے مثال کے طور پر نشستوں کی صفائی کیلئے ایک خاص برش میں نمی کا سینسر موجود ہوتا ہے کہ اگر نشست گیلی ہو تو الارم بج اٹھے گا۔ جاپانی افراد نجی اداروں میں نوکریوں کیلئے ریٹائرمنٹ سے دو تین برس قبل ہی اپلائی کرنا شروع کر دیتے ہیں تاکہ جیسے ہی وہ ریٹائر ہوں انہیں دوسری نوکری ڈھونڈنے میں وقت نہ ضائع کرنا پڑے۔ یہ جس دن ریٹائر ہوتے ہیں اس سے اگلے دن دوسری نوکری پر پہنچ جاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں اگر وہ ایک دن بھی گھر بیٹھ گئے تو وہ ڈپریشن سمیت کئی عوارض کا شکار ہو جائیں گے کیونکہ ان کے سانے تیس چالیس برس کی پہاڑ سی زندگی پڑی ہوتی ہے جو گھر میں رہ کر گزارنا ممکن نہیں۔ وہ خود کو متحرک رکھ کر ہی بقایا زندگی صحت مند انداز میں گزار پاتے ہیں۔ یہ طرزِ زندگی بوڑھے لوگوں کو بیماریوں سے بچانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ اسی طرح جاپان میںریڈیو پر نشر ہونے والی مشقیں وسیع پیمانے پر ہوتی ہیں۔ جمناسٹکس وہاں عام ہے۔ ریڈیو مشقوں کی ایک لمبی تاریخ ہے اور بیشتر جاپانی بچے سکول میں ہر روز یہ مشقیں کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ چونکہ مقامی سطح پر اکثر کھیلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے اس لئے دماغی اور جسمانی صلاحیتوں میں نکھار برقرار رہتا ہے۔
جاپانیوں کی طویل العمری جاننے کیلئے بہت سی دنیا کوشش میں رہتی ہے۔ ایک جاپانی محقق نے بیس سالہ تحقیق کے بعد آخرکار جاپانیوں کی طویل عمر کا راز معلوم کر لیا۔ محقق کا کہنا تھا کہ جاپانی عموماً گرم پانی سے لمبا غسل کرتے ہیں۔ ٹوکیو سٹی یونیورسٹی کے پروفیسر اور میڈیکل ڈاکٹر شینیا ہایا ساکا نے دو دہائیوں تک لمبے غسل اور چشموں سے نکلنے والے گرم پانی میں دیر تک نہانے کے طبی فوائد کا مطالعہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ جاپان میں لوگوں کی لمبی اور صحت مند زندگی کی ایک ممکنہ وجہ یہ ہے کہ 80 فیصد جاپانی دیر تک گرم پانی میں لیٹے رہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بیس برس قبل ایک نرس نے ان سے بلڈ پریشر کے مریضوں کو گرم پانی سے غسل دینے سے متعلق استفسار کیا تھا، لیکن اس سلسلے میں کوئی سائنسی تحقیق موجود نہیں تھی، چنانچہ انہوں نے اس سلسلے میں باقاعدہ تحقیق کا آغاز کیا۔ان کا کہنا تھا کہ گرم پانی سے زیادہ دیر تک غسل کے تین بنیادی فائدے ہیں؛ حدت‘ پانی پر جسم کے تیرنے کی صلاحیت میں اضافہ اور ہائیڈرو اسٹیٹک پریشر۔ ان کے مطابق حفظانِ صحت اور صفائی والے فائدے شاور کے نیچے کھڑے ہو کر غسل لینے سے حاصل تو کیے جا سکتے ہیں؛ تاہم طویل العمری کے فائدے صرف گرم پانی میں لیٹنے سے ہی حاصل ہو سکتے ہیں۔ جاپان میں گرم پانی کے ستائیس ہزار چشمے ہیں ۔
پاکستان میں بھی جو لوگ نوے یا سو برس کی زندگی تک پہنچے ہیں انہوں نے بھی تقریباً انہی اصولوں کو اختیار کیا جن پر جاپانی عمل کرتے ہیں؛ چنانچہ سادہ خوراک‘ اچھی نیند‘ باقاعدہ ورزش‘ بازاری کھانوں سے دوری‘ کتب بینی‘ لالچ سے پرہیز اور قدرت سے قربت اختیار کی جائے تو ہر انسان طویل اور صحت مند زندگی گزار سکتا ہے۔