کیا آپ کے ساتھ کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ کسی دوست سے کسی موضوع پر بات کر رہے ہوں‘ یا کسی نئی گاڑی‘ کسی نئی ایجاد یا کسی چیز کی آن لائن شاپنگ سے متعلق کوئی گفتگو کر رہے ہوں تو اسی دن کچھ دیر بعد جب آپ سوشل میڈیا یا ویب سائٹ کھولیں تو آپ کو انہی موضوعات اور چیزوں سے متعلق اشتہارات چلتے نظر آ جائیں جن کے بارے میں آپ گفتگو کر رہے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ نے کبھی غور نہ کیا ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہم سارا دن جو بھی گفتگو کرتے ہیں وہ ہمارے سمارٹ فون کے ذریعے مختلف پلیٹ فارمز پر منتقل ہوتی رہتی ہے جہاں سے انہیں ایڈورٹائزنگ مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہم جب بھی کوئی موبائل ایپ انسٹال کرتے ہیں تو وہ ہم سے موبائل فون کے نمبرز ‘تصاویر اور دیگر چیزوں تک رسائی مانگتی ہے جو ہم بلاجھجک دے دیتے ہیں کیونکہ دوسری صورت میں وہ ایپ انسٹال نہیں ہوتی۔ بعض ایپس تو ضرورت کے مطابق آپ کی ذاتی معلومات تک رسائی مانگتی ہیں جیسا کہ وٹس ایپ کو آپ کے فون نمبرز‘ تصاویر اور ویڈیوز وغیرہ کے فولڈرز تک رسائی درکار ہوتی ہے کیونکہ وٹس ایپ آپ کے فون میں موجود لوگوں کے نام اور نمبرز پر ہی کام کرتا ہے۔ پھر آپ دوسرے لوگوں کو اگر تصاویر بھیجتے ہیں یاآڈیو یا ویڈیو پیغام بھیجتے ہیں تو اس کے لئے بھی رسائی دینا لازم ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ آپ کے مائیکروفون تک بھی رسائی طلب کرتا ہے جو اس لئے ضروری ہے کہ آپ جب کسی کو آڈیو یا ویڈیو کال کریں گے تو آپ کی آواز لامحالہ موبائل کے مائیکروفون کے ذریعے ہی دوسرے صارف تک پہنچ سکے گی۔ کچھ موبائل ایپ ایسی بھی ہیں جو غیرضروری طو رپر آپ کے اہم ڈیٹا تک رسائی مانگ سکتی ہیں جس کے لئے آپ کو خود ہی خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً آپ ایک ایسی موبائل ایپ انسٹال کرنا چاہتے ہیں جس میں گرافک ڈیزائننگ ہوتی ہے تو اس کے لئے تصاویر کے فولڈر تک رسائی دینا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن مائیکروفون کی رسائی مانگی جائے تو دال میں کالا نظر آتا ہے۔ تاہم بعض ایپ میں یہ اس لئے ہوتا ہے کہ اگر آپ بول کر کچھ لکھنا چاہتے ہیں یعنی وائس ٹو ٹیکسٹ ٹائپنگ کرنا چاہتے ہیں تو مائیکروفون استعمال ہوتا ہے ۔ دوسری اہم چیز جو ہماری پرائیویسی سے متعلق معلومات انٹرنیٹ پر پہنچاتی ہے وہ لوکیشن ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہم لوکیشن کو بند کرتے ہیں تو بہت سی ایپس کام کرنا چھوڑ جاتی ہیں جیسا کہ گوگل میپس اور آن لائن رائیڈ یا ٹیکسی بکنگ کروانے والی ایپس‘ جو آپ کی لوکیشن کو دیکھ کر ہی آپ کو ٹیکسی بھیجتی ہیں یا اگر آپ نے اپنے گھر یا دفتر سے کسی مقام کا فاصلہ یا راستہ معلوم کرنا ہے تب بھی آپ کو لوکیشن لازمی آن کرنا پڑے گی۔ چنانچہ اب سمارٹ فون جس طرح سے ڈیزائن کر دیا گیا ہے اور جس طرح اس کی نئی شکل سامنے آ رہی ہے اس میں آپ انٹرنیٹ اور لوکیشن کے ساتھ ساتھ اپنے موبائل فون کے دیگر اہم حصوں تک رسائی دئیے بغیر نہیں رہ سکیں گے کیونکہ بہت سی چیزیں اب آپ کی ضرورت بن چکی ہیں جیسا کہ آن لائن شاپنگ‘ مختلف چیزوں اور سروسز کی آن لائن بکنگ وغیرہ۔بہت سے لوگ اس بارے پریشان رہتے ہیں کہ وہ سارا دن نہ جانے کیا کیا باتیں کرتے رہتے ہیں تو کیا ان کی یہ تمام معلومات چوری ہو رہی ہیں۔ تو اس کا جواب ہاں میں ہے۔ ماہرین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر آپ نے اپنا سمارٹ فون یا سمارٹ ٹی وی بند بھی کر دیا ہے تب بھی یہ آپ کی خفیہ آڈیو ریکارڈنگ کر رہا ہوتا ہے۔بالخصوص سٹینڈ بائی موڈ پر سمارٹ ٹی وی تو مکمل آن ہوتا ہے جبکہ موبائل فون بھی اگر ہم شٹ ڈائون کرتے ہیں تب بھی اس کے کچھ فنکشنز کام کر رہے ہوتے ہیں۔اِلا یہ کہ بیٹری کو ہی نکال دیا جائے لیکن مصیبت یہ ہے کہ سمارٹ فونز میں سے اب بیٹری بھی نہیں نکالی جا سکتی کیونکہ یہ فون کے ڈھانچے کے اندر ہی لگا دی جاتی ہے۔
اس وقت جو نیا ورلڈ آرڈر چل رہا ہے اس کے مطابق ہم انسان یعنی اربوں لوگ جو انٹرنیٹ والی چیزیں استعمال کر رہے ہیں وہ خود چلتی پھرتی پراڈکٹس بنا دئیے گئے ہیں۔ جبھی تو آپ دیکھیں گے کہ گوگل سے لے کر فیس بک تک ہزاروں لاکھوں موبائل ایپس اور ویب سائٹ بظاہر آپ کو مفت سروسز دے رہی ہیں ۔ وٹس ایپ ‘ فیس بک میسنجر‘ ٹک ٹاک کوئی بھی آپ سے ماہانہ یا سالانہ پیسے نہیں لیتا۔ آپ صرف انٹرنیٹ کا پیکیج لگاتے ہیں اور مرضی کی چیزیں دیکھتے رہتے ہیں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ کمپنیاں جو اربوں لوگوں کو سروسز دے رہی ہیں یہ اپنے اخراجات کیسے پورے کرتی ہیں۔ ان کے پاس ہزاروں کی تعداد میں سافٹ ویئرانجینئرز کام کرتے ہیں‘ ہزاروں گرافک ڈیزائنر اور دیگر عملہ ہوتا ہے‘ پھر ہماری تصاویر‘ ویڈیوز اور دیگر مواد کو کسی انٹرنیٹ سرورز پر رکھا جاتا ہے جس کا ماہانہ کرایہ بھی لاکھوں کروڑوں ڈالر میں ہوتا ہے‘ یہ سب ظاہر ہے مفت میں تو کام نہیں کرتے ۔یہ سب اچھا خاصا کماتے ہیں اور انہی کمپنیوں سے وصول کرتے ہیں جن کی سروسز ہم گھر بیٹھے حاصل کرتے ہیں۔آپ دس پندرہ سال پیچھے چلے جائیں تو سوچیں یہ سب کچھ کہاں تھا۔ موبائل فون صرف کال اور ننھے منے پیغام کے لئے استعمال ہوتا تھا لیکن آج آپ کے پاس ایسی موبائل ایپس ہیں کہ آپ ایک وقت میں دس دس لوگوں کے ساتھ دنیا بھر میں ویڈیو کال کر لیتے ہیں ۔آج کے دور میں جب فری لنچ کا کہیں تصور نہیں تو یہ سارا نظام پھر کیسے چل رہا ہے‘ کیسے یہ کمپنیاں ہم سے ماہانہ چند روپے لئے بغیر دنیا کی ٹاپ کمپنیاں بن چکی ہیں؟فوربز کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ٹاپ ٹین امیر ترین افراد میں سے آٹھ کا تعلق آئی ٹی کمپنیوں سے ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے زمانوں میں لوگ چیزیں خریدتے تھے اور اس کا کچھ حصہ کمپنیوں کو منافع کے طور پر چلا جاتا تھا مثلاً دنیا میں ایک کروڑ لوگ اگر روزانہ کولڈ ڈرنک پیتے تھے تو ایک کروڑ بوتلوں کا منافع کمپنی کو مل جاتا تھا ۔ آج مگر دنیا کے اربوں لوگ ان کولڈ ڈرنکس کی بوتلوں کی جگہ لے چکے ہیں۔ یہ جو کچھ دیکھتے ہیں جو کچھ پسند کرتے ہیں‘ یہ اپنا جتنا وقت جس موبائل ایپ جس ویڈیو اور جس ویب سائٹ پر لگاتے ہیں اس وقت ‘ اس معلومات اور پسند ناپسند کو ٹیکنالوجی کی کمپنیاں استعمال کرتی ہیں اور یوں ان کی آمدنی میں سیکنڈز کے حساب سے اضافہ ہوتا رہتا ہے۔آج کل تو اس حوالے سے مصنوعی ذہانت کا استعمال بھی شروع ہو گیا ہے جو ڈیٹا پر بہت سارا کام خود ہی کر دیتی ہے۔ یہ سسٹم آپ کی سرگرمیوں سے ہی اندازہ لگا لیتا ہے کہ آپ کو کس قسم کا اشتہار دکھانا چاہیے۔ اگر آپ سمارٹ فونز کے حوالے سے پوسٹس کو بار بار لائیک کریں تو پھر آپ کو ویسے ہی اشتہارات دکھائے جائیں گے جو سمارٹ فونز اور ان سے متعلقہ مصنوعات کے ہوں گے۔ موبائل فون کی ریکارڈنگ والی حقیقت سے آپ کو اب یہ یقین ہو جانا چاہیے کہ اگر دنیا میں انسانی دماغ ایسی ٹیکنالوجی بنا سکتے ہیں جس کے ذریعے انسان کی ایک ایک حرکت‘ جنبش‘بات چیت دنیا کے دوسرے کونے میں ریکارڈ اور پہنچ رہی ہے تو پھر جس خالق نے اس مخلوق کو بنایا ہے جواس طرح کی ٹیکنالوجی بنا رہی ہے تو اس خالق کے لئے انسانوں کی زندگی کے اعمال کو ریکارڈ کرنا اور روز قیامت سامنے لانا کون سا مشکل ہے۔ آج کی ٹیکنالوجی کمپنیاں تو صرف اس نسل کی ریکارڈنگ کر رہی ہیں جو سمارٹ فون استعمال کر رہی ہے لیکن ایک ذات ایسی ہے جو موبائل فونز بننے سے قبل کے آپ کے اعمال بھی سامنے لے آئی گی‘بلکہ اس وقت کے بھی جب بجلی‘سوئی گیس‘ٹی وی‘گاڑی کچھ بھی ایجاد نہیں ہوا تھا۔ اس لئے پریشان ہونا ہے اور فکر کرنی ہے تو اس دن کی کریں جب ہمارا کیا دھرا سب کچھ ہمارے سامنے لایا جائے گا اور جب ہمیں ہمارے ماں باپ‘ہمارے جگری دوست بھی نہیں بچا پائیں گے!