''وقت نہیں ملتا‘‘۔ یہ جملہ آج آپ کو ہر دوسرا شخص کہتا سنائی دے گا۔ بھلے وہ ایک نوکری کرتا ہو یا دو‘ دو جگہ کام پر جاتا ہو۔ کاروبار کرتا ہو یا پھر تعلیم حاصل کر رہا ہو‘ ہر کوئی یہ گلہ کرتا دکھائی دے گا کہ مصروفیت اتنی بڑھ چکی ہے کہ ضروری کاموں کے لیے بھی وقت نہیں بچتا۔ آپ کسی بھی نوکری پیشہ حتیٰ کہ کسی طالب علم سے پوچھیں کہ آپ نے آخری مرتبہ کون سا کھیل کھیلا تھا‘ کرکٹ یا بیڈمنٹن اور کب؟ کوئی کہے گا کہ بچپن میں اور کسی نے سکول یا کالج کے زمانے میں آخری مرتبہ گیند بلا پکڑا ہو گا۔ کیا واقعی ہمارے پاس وقت کی کمی ہے اور ہمارے کام بہت زیادہ اور اہم ہیں یا پھر یہ صرف بہانے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے آپ دنیا کے امیر ترین افراد کے ایک دن کی روٹین پر نظر ڈال لیں‘ آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ خرابی کہاں ہے۔
دنیا بھر میں فیس بک کو دو ارب پچاسی کروڑ افراد روزانہ استعمال کرتے ہیں۔ اس کمپنی کا مالک مارک زکر برگ دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک ہیں اور مصروف ترین بھی۔ اگر ہمارے پاس سال میں ایک مرتبہ کرکٹ کھیلنے‘ کسی کتاب کو پڑھنے یا کسی پرانے دوست سے ملنے کا وقت نہیں بچتا‘ تو اس حساب سے تو مارک زکر برگ چوبیس گھنٹے جاگتے ہوں گے‘ کچھ بھی کھاتے‘ پیتے نہ ہوں گے‘ بس فیس بک اور اس کے ہزاروں ملازمین کو کنٹرول کرتے رہتے ہوں گے۔ انہیں دیکھ کر سب کو ایسا ہی لگتا ہو گا۔ حقیقت قطعی مختلف ہے۔ مارک عموماً ایک جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس نظر آتے ہیں اور دفتر بھی انہی کپڑوںمیں جاتے ہیں۔ ان کی د وبیٹیاں ہیں۔ انہوں نے اپنے کام اور سوشل لائف کے مابین توازن قائم رکھنے کیلئے کچھ اصول وضع کر رکھے ہیں اور وہ ان اصولوں پر عمل بھی کرتے ہیں۔ وہ روزانہ آٹھ سے دس گھنٹے فیس بک کے لیے کام کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ روزانہ ورزش کرتے ہیں۔ سیاحت کا انہیں جنون ہے۔ ویک اینڈ پر وہ اپنی بیوی اور بچیوں کو لے کر صحت افزا مقامات پر چلے جاتے ہیں۔ ناشتے میں جو بھی مل جائے‘ کھا لیتے ہیں اور اپنا وقت کھانے پینے کے انتخاب میں نہیں ضائع کرتے۔ آج کل وہ چینی زبان سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فارغ وقت کو وہ اپنے علم کا دائرہ وسیع کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ اسی لیے ان کی میز پر آئے روز کوئی نہ کوئی نئی کتاب ضرور نظر آتی ہے۔ وہ ہر مہینے نئے لوگوں سے ملاقات کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے‘ جو وسیع تجربہ اور علم رکھتے ہوں۔
مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس کا لائف سٹائل بھی ایسا ہی ہے۔ یہ صاحب صبح صبح دنیا بھر کی اہم خبروں پر ایک نظر ڈالتے ہیں، ناشتے کے بعد‘ اگلے پانچ منٹ میں وہ پورے دن کا پلان بناتے ہیں۔ سارا دن اپنے ٹاسک کے حساب سے چلتے ہیں۔ دن بھر کی مصروفیت کے باوجود رات کو بل گیٹس گھر کا کام کرتے ہیں اور اپنے کچن کے برتن تک خود دھوتے ہیں۔ بل گیٹس کا کہنا ہے کہ یہ چھوٹے چھوٹے کام آپ کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ آپ کچھ بھی بن جائیں‘ رہیں گے انسان ہی اور انسان کو چاہیے کہ وہ فطرت کے قریب رہے اور زیادہ سے زیادہ کام اپنے ہاتھوں سے کرنے کی کوشش کرے۔
دنیا کے ایک اور کھرب پتی اور ٹیکنالوجی کی دنیا کے بادشاہ ایلون مسک بھی اپنی مصروفیات میں سے سب سے زیادہ وقت اپنی فیملی کو دیتے ہیں۔ اس دوران وہ موبائل فون اور ٹی وی سے دور رہتے ہیں اور پورا وقت بچوں کے ساتھ گزارتے ہیں۔ چھ‘ ساڑھے چھ گھنٹے کی نیند لیتے ہیں۔ صبح سات بجے اٹھتے ہیں۔ تیار ہونے کے بعد کافی اور آملیٹ کا سادہ سا ناشتہ کرتے ہیں۔ بچوں کو سکول بھیجتے ہیں‘ کبھی کبھار خود بھی انہیں چھوڑنے جاتے ہیں۔ دفتر پہنچتے ہیں‘ روزانہ دس سے بارہ گھنٹے کام کرتے ہیں۔ رات کو گھر پہنچ کر بچوں کے ساتھ کچھ وقت بِتاتے ہیں اور اس کے بعد کچھ وقت مطالعہ کے بعد رات ایک بجے سو جاتے ہیں۔ مہینے میں ایک بار فیملی کے ساتھ کسی ٹرپ پر جاتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ مل کر وڈیو گیمز کھیلتے ہیں اور انہیں ٹیکنالوجی اور بزنس کے نئے گُر سکھاتے ہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کو یہ تمام ارب پتی فٹ اور سمارٹ دکھائی دیں گے۔ ان کی بھاری بھرکم توندیں آپ کو کم ہی نظر آئیں گی۔ ان کے چہرے کھلے ہوئے اور تروتازہ ہوں گے جبکہ ہمارے ہاں معاملہ الٹ ہے۔ جو جتنا امیر ہے‘ اس کا حجم اتنا ہی زیادہ پھیل جاتا ہے۔ یہاں لوگ جم جوائن کرتے ہیں‘ تین ماہ کی اکٹھی فیس ادا کرتے ہیں اور تین ہفتے بعد جم کا راستہ بھول جاتے ہیں۔ صبح ناشتے میں اتنا کم کھاتے ہیں جیسے ڈاکٹر نے منع کیا ہو اور رات کو سونے سے ایک گھنٹہ پہلے تک‘ اتنا زیادہ کھاتے ہیں جیسے آخری مرتبہ کھانا کھا رہے ہوں۔ گھر کے برتن دھونا تو دُور کی بات‘ سامنے پانی کا گلاس پڑا ہو تو بھی کچن سے بیگم کو آواز دے کر بلاتے ہیں یا بچوں کو کہتے ہیں کہ انہیں پانی پکڑا دیں۔ کئی کئی گھنٹے موبائل فون پر انگلیاں مارتے رہیں گے لیکن جیسے ہی کوئی کام کرنے کی باری آئے گی‘ کسی کی تیمارداری کو جانا ہو گا تو کہہ دیں گے کہ وقت نہیں ہے۔ دیکھا جائے تو یہ مسئلہ صرف پاکستانیوں کے ساتھ نہیں بلکہ دنیا بھر کے لوگ اس علت کا شکار ہیں۔
بچہ ڈیڑھ‘ دو برس کی عمر کو پہنچتا ہے تو اسے موبائل فون سے متعارف کرا دیا جاتا ہے۔ پہلے مائیں بچوں کو چپ کرانے کے لیے گود میں اٹھاتی تھیں‘ کہانیاں اور لوریاں سناتی تھیں‘ چارپائی سے کپڑا باندھ کر اس میں بچے کو ڈال کر جھولے دیتی تھیں مگر اب مائوں کو خود ڈرامے اور سیزن دیکھنے ہوتے ہیں‘ اس لئے وہ بھی جان چھڑاتی ہیں اور بچے کو ''ڈورے مون‘‘ کے حوالے کر دیتی ہیں۔ بچہ اوائلِ عمری میں ہی ان کارٹونز اور موبائل سکرین کا اتنا عادی ہو جاتا ہے کہ وہ ماں باپ سے زیادہ موبائل فون سے محبت کرنے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب موبائل فون کو ایسے بچے سے دور کیا جاتا ہے تو بچہ چیخنے چلانے لگتا ہے۔ یہ عادت آہستہ آہستہ نشہ بن جاتی ہے اور بچے کی جسمانی اور ذہنی ساخت کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔ نئی جنریشن کے لیے شاید سب سے بڑا چیلنج خود کو اس دور میں نارمل رکھنا ہے۔ سارے کے سارے کام سمٹ کر کمپیوٹر اور موبائل فون پر آ گئے ہیں جو اس بگاڑ کی بڑی وجہ بھی ہیں اور تلخ ترین حقیقت بھی۔ ہم لوگ آٹھ‘ نو گھنٹے کی ایک نوکری کر کے یوں اَدھ موے ہو جاتے ہیں جیسے روزانہ کوئی ایٹم بم چلا لیا ہو۔ پھر کام کے دوران ہم کام سے انصاف بھی نہیں کرتے۔ امریکا‘ یورپ میں اگر کوئی ہفتے میں چالیس‘ پچاس گھنٹے کام کرتا ہے تو اس دوران وہ اِدھر اُدھر نظر نہیں اٹھاتا۔ ویک اینڈ پر البتہ وہ ساری کسر پوری کرتا ہے۔ اِدھر ہمارا ویک اینڈ ہے جو یا تو سو کر گزرتا ہے یا پھر گھر کے کام کاج ہی جان نہیں چھوڑتے۔ یہ لائف سٹائل ہماری زندگیوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ اگر ہم دنیا کے کامیاب اور امیر ترین افراد کی طرح اپنے کچھ گول سیٹ کر لیں تو ہم بھی اپنی صحت‘ اپنی ذات‘ اپنی فیملی اور دوستوں کیلئے وقت نکال سکتے ہیں۔ موبائل فون کو اگر ہم خود زیادہ استعمال کریں گے تو اپنے بچوں کو کیسے روک سکیں گے؟ چاہے تھوڑی دیر ہی سہی لیکن روزانہ اگر ورزش کریں‘ کتابیں پڑھیں‘ ایک دوسرے سے معلومات کا تبادلہ کریں‘ ہر ہفتے نہیں تو مہینے میں کم از کم ایک مرتبہ ہی سہی‘ کھلے میدان میں جا کر کرکٹ‘ فٹ بال یا کوئی اور کھیل کھیلیں تو بچے بھی اس جانب راغب ہوں گے اور ہماری زندگی کے کئی مسائل خودبخود حل ہو جائیں گے۔