امریکہ میںکورونا کی وجہ سے آن لائن خریداری کا رجحان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں سامان کی ترسیل کرنے کیلئے ٹرک ڈرائیورز کم پڑ گئے ہیں۔ اس مسئلے کا حل ایک سٹارٹ اپ کمپنی نے یوں نکالا کہ ٹرکوں کو آرٹی فیشنل انٹیلی جنس کے ذریعے خودکار ڈرائیونگ سے جوڑ دیا جس میں ٹرک ایک شہر سے دوسرے شہر بغیر کسی ماہر ڈرائیور کے جا کر سامان ڈیلیور کر سکتا ہے۔یہ نظام لیول فور ٹیکنالوجی پر چلتا ہے جس میں ٹرک خود سپیڈ بھی آہستہ کرتا ہے‘ بریک بھی لگاتا ہے اور موڑ بھی کاٹتا ہے جبکہ ڈرائیور کا کام صرف مانیٹر کرنا ہوتا ہے؛ چنانچہ اس نظام میں ڈرائیور کو اس طرح تھکان نہیں ہوتی جس کا ایک عام ٹرک میں ڈرائیور کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈرائیور سفر کے دورن کچھ دیر کیلئے آنکھیں بھی بند کر سکتا ہے حتیٰ کہ ڈرائیونگ سیٹ پر سو بھی سکتا ہے۔ ٹرک میں ایک ایسا الرٹ سسٹم موجود ہوتا ہے جو کسی ناگہانی ضرورت کے وقت اسے اٹھا دیتا ہے اور ڈرائیور فوری طور پر مینوئل سٹیئرنگ کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔
دو ہزار پندرہ میں ٹو سمپل نامی کمپنی کے بانی کو یقین ہو گیا تھا کہ آنے والا دور ای کامرس‘ مصنوعی ذہانت اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ اس نے آج سے چھ برس قبل ہی اپنے اس منصوبے پر کام کا آغاز کر دیا تھا۔ کمپنی نے ستر کے قریب ٹرکوں کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کیا۔ پہلے انہیں امریکہ کے شہروں اور ریاستوں کے درمیان چلا کر دیکھا گیا۔ آہستہ آہستہ اس کا دائرہ کار چین اور یورپ تک بڑھا دیا گیا۔اب تک ان ستر ٹرکوں کوسڑکوں پر دو لاکھ میل چلا کر دیکھا گیا ہے تاکہ سفر اور ترسیل کو محفوظ ترین بنایا جا سکے۔امریکہ میں ٹرکوں سے جڑا کاروبار سالانہ آٹھ سو ارب ڈالر پر مشتمل ہے جو درجنوں ممالک کے سالانہ جی ڈی پی سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔ ان دنوں اس شعبے کو ساٹھ ہزار کے قریب اچھے ٹرک ڈرائیورز کی کمی کا سامنا ہے۔ ایک ریاست سے دوسری ریاست کے درمیان ترسیل کا فاصلہ سینکڑوں‘ ہزاروں کلومیٹر ہوتا ہے۔ ڈرائیورز کے کئی دن اور راتیں مسافت میں ہی گزرتی ہیں۔ پھر ان ڈرائیورز کو تنخواہیں بھی دیگر شعبوں کے مقابلے میں کم ملتی ہیں۔ نئے‘ نوجوان ڈرائیورز اس میدان میں انہی مسائل کے باعث قدم نہیں رکھتے کیونکہ اس میں گھر سے کئی کئی ہفتے دور بھی رہنا پڑتاہے۔ ہر وقت ڈرائیونگ کی وجہ سے دماغ گھومنے لگتا ہے اور نیند بھی متاثر ہوتی ہے۔ اس مسئلے کا حل سیلف ڈرائیونگ کی شکل میں ڈھونڈا گیا۔ ٹیکنالوجی کے گُرو اور امریکی بزنس مین ایلون مسک کی کمپنی ٹیسلا اس میدان میں پہلے سے قدم رکھ چکی تھی لیکن اس کا زیادہ فوکس کاروں پر تھا۔ ٹرکوں کو خودکار بنانے کیلئے ٹیسلا قدرے تاخیر سے میدان میں آئی۔ ٹو سمپل کمپنی نے ٹرکوں کو مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی سے منسلک کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ اس کمپنی کا مالک ایک سافٹ ویئر ہائوس میں مصنوعی ذہانت کے شعبے میں ایکسپرٹ مانا جاتا تھا۔ اس وقت اٹھائیس برس کا یہ نوجوان اربوں ڈالر مالیت کی کمپنی کا مالک بن چکا ہے۔ دوسری جانب ایمیزون بھی اس میدان میں قدم رکھ چکی ہے کیونکہ ایمیزون دنیا کی سب سے بڑی آن لائن کمپنی ہے۔ اس کی مارکیٹ ویلیو ایک اعشاریہ سات ٹریلین ڈالر سے بھی بڑھ چکی ہے جو 1750 کھرب روپے بنتے ہیں۔ ایمیزون کا سارا کاروبار ہی سامان کی ترسیل پر کھڑا ہے۔ جتنی جلد ترسیل ہو گی اتنا ہی صارف کا کمپنی پر اعتماد بڑھے گا۔ اس مقصد کیلئے ایمیزون بھی اپنے خودکار ٹرک مارکیٹ میں لا رہی ہے تاکہ کسی دوسری کمپنی پر انحصار کرنے کی بجائے اپنی ہی ٹرک کی صنعت کھڑی کرے اور سارا منافع خود کمائے۔ایمیزون اپنی کمپنی میں تقریباً ایک ہزار آپریٹنگ سسٹمز تیار کر رہی ہے۔ریاست کیلی فورنیا میں واقع اس سنٹر میں اس سسٹم پر کام جاری ہے جس کے ذریعے ٹرک خود کار طریقے سے چلیں گے۔
جہاں مصنوعی ذہانت سے کام لے کر بہت سے فوائد کے حصول کی کوشش کی جا رہی ہے وہیں اس کے خطرناک اثرات بھی سامنے آ رہے ہیں۔ سب سے بڑ انقصان روز مرہ کے کاموں کیلئے انسانی دماغ کا کم استعمال ہے۔ بے روزگاری میں اضافہ دوسرا بڑا خطرہ ہے جو دنیا بھر کے کروڑوں مزدوروں کو لاحق ہو چکا ہے۔ فرض کریں کہ ٹرکوں میں اگر لیول فائیو خودکار نظام لاگو ہو جاتا ہے تو ٹرک میں کسی انسان کی بھی ضرورت نہیں رہے گی اور اس طرح جو لاکھوں ٹرک دنیا بھر میں چل رہے ہیں وہ بھی آہستہ آہستہ ڈرائیورز سے مکمل چھٹکارا پا لیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ مصنوعی ذہانت کا تیزی سے بڑھتا ہوا اثر و رسوخ ہماری زندگی میں انسان کی اہمیت کو گھٹا کر مشینوں کو اس کے متبادل کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ اگرچہ یہ مشینیں انسان کی ہی بنائی گئی ہیں اور بظاہر اسے انسانوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے ہی بنایا جا رہا ہے لیکن اس کے نقصانات کے زیر اثر انسانوں کی کہیں بڑی تعداد آئے گی۔ ویسے بھی دنیا بھر میں لوگ ٹیکنالوجی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا چکے ہیں اور اپنی ذاتی خداداد صفات پر انحصار ترک کرتے جا رہے ہیں مثلاً آپ کسی سے کسی لفظ کا مطلب یا کسی جگہ کا نام پوچھیں وہ فوراً کہے گا ایک منٹ‘ گوگل کر کے بتاتا ہوں۔ اپنے دماغ سے سوچنے کی وہ زحمت ہی نہیں کرے گا۔ اب تو سکول کالج کی اسائنمنٹ ہوں یا کچھ اور‘ چند کی ورڈ لکھے جاتے ہیں اور مطلوبہ نتائج کے ذریعے اپنا مطلب پورا کر لیا جاتا ہے۔معروف برطانوی مفکر اور سائنسدان سٹیفن ہاکنگ نے مصنوعی ذہانت کو انسانیت کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔ اس وجہ سے طلبا کی تخلیقی صلاحیتیں تو ماند پڑ ہی رہی ہیں ان کی خوش خطی‘ عبارت اور لکھنے کی صلاحیت بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اب تو دستخط تک ماضی کا قصہ بنتے جا رہے ہیں۔ان کی جگہ فنگر پرنٹ سنسر نے لے لی ہے جو اب کم قیمت موبائل فونز میں بھی آنے لگے ہیں۔ کوئی ایپ کھولنی ہو یا موبائل کا لاک‘ بس انگوٹھا رکھنے کی دیر ہوتی ہے اور ایک سیکنڈ کے دسویں حصے میں کام مکمل ہو جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایلون مسک جیسے لوگ جو مصنوعی ذہانت کے نفاذ کیلئے اربوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں‘ اس کا فائدہ صرف چند سو لوگوں کو ہو گا کہ انہی کے اکائونٹس‘ بینک بیلنس اور اثاثے بڑھیں گے جبکہ لاکھوں کروڑوں محنت کش بے کار ہو جائیں گے۔ جس طرح کسی جگہ سے درخت کاٹنے پر اس جگہ فوری طور پر نئے درخت لگائے جانے کی تاکید کی جاتی ہے اسی طرح ایسی ٹیکنالوجی جس کی وجہ سے اگر ایک گروہ کا فائدہ ہو رہا ہے تو دوسرے گروہ کے بارے میں بھی سوچا جانا چاہیے جس نے بدلے میں نقصان اٹھانا ہے۔جتنی تیزی کے ساتھ مہنگائی گزشتہ دو برس میں بڑھی ہے اس نے تو اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانوں کے کڑاکے نکال دیے ہیں۔ امریکہ میں بھی بے روزگاری کی شرح روزبروز بڑھ رہی ہے۔ کام وہ کئے جانے چاہئیں جن سے زیادہ لوگوں کا بھلا ہو‘ زیادہ لوگوں کی آمدن بڑھے نہ کہ پہلی بھی ختم ہو جائے۔ترقی کی اس دوڑ میں مگر کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔اب اگر یہ ترقی ہے تو پھر تنزلی کیا ہو گی کہ آج سے بیس تیس برس قبل تک ایک گھر میں ایک کماتا تھا تو دس کو کھلاتا تھا‘ آج دس کے دس کما رہے ہیں لیکن اخراجات پھر بھی پورے نہیں ہوتے۔برطانوی ادارے آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے محض 26ارب پتی دنیا کی آدھی دولت کے مالک ہیں اور یہ تقسیم دنوں نہیں بلکہ گھنٹوں کے حساب سے بڑھتی جا رہی ہے۔ اگر انسان ہی مطمئن نہ ہو سکا تو ایسی ٹیکنالوجی کا فائدہ؟ چنانچہ آج نہیں تو کل‘ مصنوعی ذہانت کے اس سراب کے پیچھے چلنے والوں کو مصنوعی سوچ کے اس حصار سے باہر آنا ہی پڑے گا۔