سیالکوٹ واقعے کی جس کسی نے بھی وڈیو دیکھی یا خبر سنی‘ وہ اس شخص کی زندگی کے خوفناک ترین لمحات تھے۔ میں عموماً اس طرح کی وڈیوز سے احتراز برتتا ہوں لیکن یہ واقعہ چونکہ صبح گیارہ بجے پیش آیا تھا اس لیے یہ خبر سارا دن ٹی وی چینلز پر بھی موجود رہی جسے دیکھ کر اور لوگوں کی طرح میں بھی سخت صدمے میں رہا۔ اس سے پہلے کہ میرا نروس بریک ڈائون ہو تا میں نے موبائل کا انٹرنیٹ بند کر لیااور بستر پر لیٹ کر آنکھیں موند لیں۔ مجھے لگا جیسے میں انسان نہیں کوئی بھوت پریت ہوں اور ایک ایسے جنگل میں ہوں جہاں ہر کوئی ایک دوسرے پر ڈنڈے برسا رہا ہے‘ ایک دوسرے کو جلا رہا ہے اور جو کچھ بھی نہیں کر رہا وہ تماشا دیکھ رہا ہے اور جلنے والے کی وڈیو اور اس کے ساتھ سیلفیاں بنا رہا ہے اورجب کسی زخمی کی چیخیں نکلتی ہیں تمام لوگ خوشی سے نہال ہو جاتے ہیں‘ وہ 'اور مارو، اور مارو‘ کہتے ہیں اور ہجوم پھر سے اس پر پل پڑتا ہے‘ کچھ ہی دیر میں ہر طرف خون ہی خون اور ہڈیاں ہی ہڈیاں بکھر جاتی ہیں اور لوگ ان ہڈیوں کو بھی جلا دیتے ہیں اور جھومتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ مجھے محسوس ہوا میں کوئی ڈرائونا خواب دیکھ رہا ہوں لیکن میری آنکھیں کھلی تھیں‘ میری نظریں چھت پر تھیں اور مجھے اردگرد حرکت بھی دکھائی دے رہی تھی۔ کچھ دیر تک میں بے حس و حرکت پڑا رہا اور پھر یہ یقین کر لینے کے بعد کہ میں زندہ اور محفوظ ہوں‘ میں نے کروٹ بدلی اور ذہن کو نارمل کرنے کیلئے اپنا سر تکیے کے نیچے چھپا لیا مگر حالت یہ تھی کہ میں آنکھیں بند کرتا تو سامنے پریانتھا کمارا کی روح بلبلاتی اور بین کرتی ہوئی دکھائی دیتی اور کھولتا تو واپس سیالکوٹ کے پہنچ جاتا تھا جہاں موت کا رقص ابھی تلک جاری تھا اور میں بھی ہجوم میں کھڑا تماشا دیکھ رہا تھا۔
پریانتھا کمارا کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس کی وجہ سے ہم کئی عشرے پیچھے جا چکے ہیں۔تین دسمبر سے قبل سیالکوٹ کی وجۂ شہرت سپورٹس انڈسٹری تھی لیکن اب یہ شہر ایک مرتبہ پھر درندگی‘سفاکی اور وحشیانہ پن میں پوری دنیا میں مشہور ہو چکا ہے اور اس کا سہرا انہیں جاتا ہے جو پریانتھا کمارا کی موت کا رقص دیکھنے کے لیے وہاں موجود تھے اور سوائے ایک دو لوگوں کے وہاں کوئی بھی انسان نہ تھا اور کسی نے بھی انہیں بچانے کی کوشش نہیں کی۔یہ لوگ موت کا ناچ دیکھ کر کئی گھنٹوں تک تالیاں بجاتے اور جھومتے رہے۔
میری زندگی کا کچھ حصہ گوجرانوالہ کے سیٹلائٹ ٹائون میں گزرا تھا لیکن اب میں خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ میں گوجرانوالہ یا سیالکوٹ کا رہائشی نہیں تھا ورنہ آج ان مناظر کو برداشت نہ کر پاتا۔ ہم نے اس سے قبل ایسے واقعات روانڈا اور صومالیہ کی حقیقی فوٹیج میں دیکھے ہیں جہاں نسلی اور سیاسی فسادات ہوئے تو مخالف عورتوں‘ بوڑھوں اور بچوں کو لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے مار مار کر زندہ جلا دیا گیا۔ ایسی ہی ایک فلم میں چند بپھرے ہوئے نوجوان ایک بزرگ اور ایک ادھیڑ عمر خاتون پر ڈنڈے برسا رہے تھے۔ یہ دونوں معافیاں مانگ رہے تھے‘ دہائیاں دے رہے تھے اور موت خود ظالموں کے پائوں میں ماتھا رکھ کر گڑگڑا رہی تھی لیکن مارنے اور دیکھنے والوں کو ذرا ترس نہیں آرہا تھا‘ ان کی اَنا پر چوٹ تک نہیں لگ رہی تھی اور ان کی انسانیت تک جاگنے کو تیار نہ تھی‘ وہ مارتے مارتے انہیں مٹی کے ایک گڑھے میں دھکیل رہے تھے اور ان کے اوپر درختوں کی ٹہنیاں پھینک رہے تھے۔ ان کے جسم کی ایک ایک ہڈی کا سرمہ بنانے کے بعد بھی یہ لوگ بس نہیں ہوئے اور ایک شخص دونوں پر پٹرول چھڑکنے لگ گیا‘ پاس کھڑے ایک اور شخص نے ان پر جلتی ہوئی دیا سلائی پھینک دی‘ ایک دھماکے کے ساتھ آگ بھڑک اٹھی اور دونوں کاغذ کے ٹکڑے کی مانند جلنے لگے۔ ہجوم نے انہیں اسی پر معاف نہیں کیابلکہ جلتے ہوئے جسموں پر بھی لاٹھیاں اس وقت تک برساتے رہے جب تک دونوں کے جسم جل کر راکھ نہیں ہو گئے۔
سیالکوٹ صومالیہ یا روانڈا نہیں بلکہ پاکستان میں واقع ہے۔ بارہ تیرہ برس قبل سیالکوٹ میں دو بھائیوں کی جان لی گئی ابھی تک تو ان کے خون کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی۔ اس درندگی نے ہماری اخلاقیات کو پوری دنیا کے سامنے ننگا کر کے رکھ دیا ہے۔ آپ بے حسی کی انتہا دیکھئے کہ پریانتھا کی لاش جل رہی ہے اور ایک شخص اس موقع پر بھی سیلفی لینے سے باز نہیں آ رہا۔ اسی ہجوم میں فیکٹری کا منیجر ملک عدنان بھی تھا جس نے اپنی جان کی پروا کیے بغیر سری لنکن شہری کو بچانے کی بھرپور کوشش کی۔ ہجوم کے ساتھ مذاکرات بھی کیے حتیٰ کہ پریانتھا پر برسنے والے مکے‘ لاتیں اور ٹھڈے بھی برداشت کیے۔ عدنان نہ ہوتا تو شاید یہ ثابت ہو جاتا کہ اس ملک میں ایک فیصد طبقہ بھی ایسا نہیں جو غلط کو غلط کہنے اور ظلم کے آگے کھڑا ہونے کے لیے تیار ہے۔عدنان نہ ہوتا تو آج ہم سب اسی گروہ میں شمار کیے جا رہے ہوتے جس گروہ نے پریانتھا کمارا کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارا اور پھر اس کی لاش کو بھی جلا دیا۔ عدنان نہ ہوتا تو ہماری اخلاقی روح بھی پریانتھا کے ساتھ ہی پرواز کر گئی ہوتی اور پاکستان کو ایک انتہا پسند ملک قرار دے دیا جاتا۔
وزیراعظم عمران خان نے ملک عدنان کے لیے تمغۂ شجاعت کا اعلان کیا ہے۔ میں کہتا ہوں عدنان کو اور دوسرے شخص کو جس نے پریانتھا کو بچانے اور اس کی لاش کی بے حرمتی نہ کرنے کے لیے ہجوم کے سامنے ہاتھ جوڑے‘ ان دونوں کو سونے میں تولا جانا چاہیے۔ ملک عدنان نے ہماری عزت‘ہماری لاج رکھ لی ہے۔ شاید ہم اسے سونے میں تول کر بھی اس کا حق ادا نہیں کر سکتے لیکن ہم دنیا کو یہ پیغام تو دے سکتے ہیں کہ ہم ظالموں کے ساتھی‘ ان کے ہمدرد نہیں ہیں۔ہم دنیا کو یہ تو جتلا سکتے ہیں کہ ہم آج بھی حق اور اخلاقیات کی بات کرتے ہیں اور ہم ظلم کے خلاف ڈٹ جانے والوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
سری لنکا نے دنیا کے مختلف ممالک کو 83ہزار کارنیا عطیہ کیے ہیں۔ پاکستان سری لنکا کے کارنیا کے عطیات کا سب سے بڑا وصول کنندہ ہے جس نے ان میں سے 40 فیصد وصول کیے ہیں۔سپنسر آئی ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ اور سری لنکا آئی ڈونیشن سوسائٹی کے رکن ڈاکٹر نیاز احمد کے مطابق سری لنکا سے پاکستان کو ملی آنکھوں کے عطیات کی تعداد تقریباً35 ہزار ہے مگر اس واقعہ نے ظاہر کیا کہ ہم پھر بھی بصارت کھو چکے ہیں۔ان 35 ہزار کارنیا کے عطیات میں سے 30 ہزار تو کراچی میں دیے گئے۔ سری لنکا آئی ڈونیشن سوسائٹی کی جانب سے پاکستان کو دیے جانے والے عطیات کا سلسلہ 1967ء سے جاری ہے۔پاکستان میں سب سے پہلا کارنیا ٹرانسپلانٹ سپنسر آئی ہسپتال میں ڈاکٹر ایم ایچ رضوی نے کیا تھا جو سری لنکا نے ہی عطیہ کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ آج جس طرح سری لنکا کے احسانات کا بدلہ ہم نے ایک جلی ہو مسخ شدہ لاش کی صورت میں دیاہے کیا ہم انسان اور مسلمان کہلانے کے حق دار ہیں‘کیا خدا ہمیں معاف کردے گا؟