کورونا کا پانچواں سیزن زور پکڑرہا ہے۔ چند ہی دنوں میں روزانہ سامنے آنے والے کیسز کی تعداد چار ہزار کو چھونے لگی ہے۔ ماہرین کے مطابق اومیکرون انتہائی تیزی سے پھیلتا ہے لیکن یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ زیادہ خطرناک نہیں۔ اس کے باوجود کورونا کی وجہ سے گزشتہ دنوں درجنوں شہری جان کی بازی ہار گئے۔ اگر یہ کورونا کی پرانی قسموں کی طرح زیادہ جان لیوا نہیں ہے‘ تب بھی عام بخار‘ فلو اور کھانسی میں یہ پھر بھی لوگوں کو مبتلا کر دیتا ہے اور اگر ایسے مریض بیک وقت بڑی تعداد میں ہسپتالوں کا رُخ کرتے ہیں تو پھر ہمارے ہیلتھ سسٹم پر غیرمعمولی دبائو آ سکتا ہے جس کو سہنے کی اس میں صلاحیت موجود نہیں۔ویسے بھی شدید سردی کا موسم ہے۔ وہ لوگ جو دمے‘ پھیپھڑوں یا ایسے کسی اور مرض میں مبتلا ہیں‘ ضعیف العمر اور چھوٹے بچے ہیں‘ کورونا کی یہ قسم ان کیلئے قدرے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ اس لیے اسے کم جان لیوا کہنا بھی مناسب نہیں کیونکہ اس طرح ہمارے لوگ جو پہلے ہی ایس او پیز سے جان چھڑاتے ہیں‘ وہ یہی کہیں گے کہ جب یہ خطرناک ہی نہیں ہے تو پھر احتیاطی تدابیر اختیار کیوں کریں۔ کورونا کے حوالے سے‘ پہلی لہر سے لے کر پانچویں تک‘ زیادہ تر دعوے اور اندازے غلط ہی ثابت ہوئے ہیں۔
شروع میں اسے وزیراعظم صاحب نے خود معمولی نزلہ قرار دیا اور وہ خود بھی سرکاری میٹنگز میں ماسک کے بغیر ہی نظر آتے تھے لیکن بعدازاں حقیت کھلی تو انہوں نے بھی اسے سنگین مسئلہ مان لیا۔کورونا نے ایک ڈیڑھ سال سے تباہی مچائی ہوئی ہے معیشت کو تباہ حال کر دیا ہے اور مہنگائی کو آسمان پر پہنچا دیا ہے۔ لوگ ایس او پیز کے نام پر کاروباروں کی بندش سے پہلے ہی پریشان ہیں؛ تاہم کاروبار بند کرنا کچھ اور چیز ہے اور ایس او پیز کے ساتھ کاروبار جاری رکھنا دوسری چیز۔ دنیا بھر میں لاک ڈائون لگے ہیں لیکن جہاں جہاں لوگوں نے زیادہ احتیاطی تدابیر اختیار کی ہیں وہاں نقصان کم ہوا ہے اور کاروباروں کو بھی نسبتاً کم گھاٹا اٹھانا پڑا ہے۔اب مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک نہ صرف زیادہ سخت لاک ڈائون نہیں برداشت کر سکتا بلکہ کورونا کے مریضوں کی غیرمعمولی تعداد کو سنبھالنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا‘ اس لیے جو بھی قدم اٹھائے جائیں سوچ سمجھ کر اٹھانے چاہئیں۔ صحت بہر حال پہلی ترجیح ہونی چاہیے کیونکہ جان ہے تو جہان ہے۔
یہ آفات اور بحران تو زندگی کا حصہ ہیں۔ منافع اور گھاٹے بھی چلتے رہتے ہیں لیکن جان چلی جائے تو واپس نہیں آ سکتی۔ کورونا کی پہلی‘ دوسری ویکسین کے بعد اب بوسٹر شاٹس بھی لگ رہے ہیں اور یوں دکھائی دیتا ہے کہ جیسے اب ہر لہر کے ساتھ نئے بوسٹر شاٹس بھی لگوانا پڑیں گے۔ ابھی تک تو ویکسین کے کوئی غیر معمولی یا نقصان دہ اثرات سامنے نہیں آئے لیکن کسی بھی دوا یا ویکسین کے اثرات جاننے کے لیے ایک‘ دو سال کی مدت بہت کم ہوتی ہے۔ ایسی ادویات اور ویکسینز جنہیں عالمی پیمانے پر استعمال کیا جانا ہو‘ کئی عشرے کے بعد اور لاکھوں لوگوں کے تجربات اور مشاہدات کا جائزہ لینے کے بعد ہی انہیں مفید یا تسلی بخش قرار دے کر عام کیا جا سکتا ہے۔ فی الوقت ویکسین اگر اتنی جلد تیار ہو کر پوری دنیا میں پھیل گئی ہے تو یہ سب ایمرجنسی کی صورت میں ہوا اور اس سے کروڑوں لوگوں کی جانیں بچائی گئی ہیں ورنہ جس طرح امریکہ‘ اٹلی اور بھارت میں لوگ پروانوں کی طرح زمین پر بکھرے پڑے تھے اور جس طرح آکسیجن سلنڈر ناپید ہو گئے تھے‘ اس سے کئی گنا بڑا سانحہ رونما ہو چکا ہوتا۔
کورونا حکومت کے ساتھ ساتھ ہر شعبے اور ہر انسان کیلئے نئے چیلنج اور مشکلات لے کر آیا ہے۔ نقصان بچوں کو بھی ہوا ہے۔ اب پھر تعلیمی اداروں کو بند کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ خدانخواستہ ہلاکتیں بڑھ جاتی ہیں تو پھر تعلیمی ادارے تو کیا سب کچھ ہی بند کرنا پڑ سکتا ہے؛ تاہم پہلے طلبہ اور والدین کو اعتماد میں لیے بغیر بہت سے فیصلے کیے گئے مثلاًمیٹرک اور ایف ایس سی کے پورے سلیبس سے آئندہ امتحانات لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ صرف اس وجہ سے کیا گیا کہ سکول اور کالج پوری طرح کھل چکے تھے لیکن یہ اس لیے عجلت پر مبنی اور غیردانشمندانہ فیصلہ تھا کہ بچوں نے پچھلے ایک دو برسوں میں سمارٹ سلیبس پڑھا تھا۔ اب نئے سلیبس میں بہت سا مواد اور بہت سی چیزیں ایسی تھیں جو انہوں نے پچھلے دو سال میں دیکھی تک نہیں تھیں۔ اب یکایک سکول‘ کالج کھلنے کے بعد ان پر دہرا بوجھ آن پڑا ہے۔ انہیں ماضی کی کمی کو بھی پورا کرنا ہے اور موجودہ سلیبس کو بھی سمیٹنا ہے جبکہ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کیلئے اس بار پریکٹیکل امتحان بھی لازمی قرار دے دیے گئے ہیں۔ امتحانات میں تین چار ماہ رہ گئے ہیں اور اب جبکہ کورونا کی پانچویں لہر کا شور مچ رہا ہے‘ طلبہ پریکٹیکل کریں گے‘ ماضی کا کورس کور کریں گے یا موجود سلیبس کو مکمل کریں گے؟ یہ بوجھ طلبہ کیلئے اٹھانا آسان نہیں ہو گا۔جلدی جلدی میں سلیبس کور کرنے کے چکر میں کوئی بھی مضمون ٹھیک طرح سے تیار نہیں ہو سکے گا۔ یہاں پہلے ہی نمبروں کی دوڑ چل رہی ہے‘ پورے سلیبس کا امتحان لینے سے طلبہ پر ذہنی بوجھ مزید بڑھ جائے گا۔
کہا جا رہا ہے کہ بارہ سال سے زائد عمر کے طلبہ‘ جن کی ویکسی نیشن ہو چکی ہے‘ سکول آتے رہیں گے، اس طرح تو اکثریت آبادی کی ویکسی نیشن ہو چکی ہے لیکن اب تک متعدد کیسز ایسے بھی سامنے آ چکے ہیں جن میں دو مرتبہ ویکسین لگوانے والوں کو بھی او میکرون ہو گیا بلکہ بعض کیسز میں تو بوسٹر لگوانے والوں کو بھی اس نئے وائرس نے معاف نہیں کیا۔ جس طرح عام فلو یا شدید زکام میں لوگ ایک دوسرے سے دور رہتے ہیں‘ کورونا کی ان نئی نئی قسموں سے بھی اسی طرح سے نمٹنا پڑے گا۔ یہ جو دور چل رہا ہے اس میں عوام کو مہنگائی اور بیروزگاری جیسے مسائل کا سامنا تو ہے ہی لیکن اب صحت کو برقرار اور بحال رکھنے کیلئے الگ سے جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ کورونا میں قوتِ مدافعت کم ہو جاتی ہے اور یہ قوت مقوی غذا سے حاصل ہوتی ہے مثلاً گوشت‘ دودھ‘انڈے‘ ڈرائی فروٹ عام لوگ جنہیں افورڈ نہیں کر سکتے۔ پانچ ہزار کا نوٹ جیسے ہی تڑوایا جاتا ہے یوں ختم ہوتا ہے جیسے پاپ کارن۔ بیکری‘ پھل اور چند ادویات خریدیں پانچ ہزار کا نوٹ گھل جاتا ہے۔ کورونا نے زندگی اجیرن بنا دی ہے سوائے اُن لوگوں کے جو کسی آن لائن کاروبار سے وابستہ ہیں یا جن کا کوئی رشتہ دار باہر سے پیسے بھیج رہا ہے۔ باقی سب زندگی کی گاڑی کو صرف دھکا ہی لگا رہے ہیں۔