وہی ہوا جس کا خدشہ میں نے گزشتہ کالم کی آخری سطور میں ظاہر کیا تھا۔ایک اور خاندان ''پب جی‘‘ گیم کی بھینٹ چڑھ گیا۔
ایک ہفتہ قبل لاہور کے علاقے کاہنہ میں ایک افسوس ناک واقعہ پیش آیا جس میں ایک لیڈی ہیلتھ ورکر کو تین بچوں سمیت سر میں گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔ اس ہیلتھ ورکر کا ایک بیٹا دوسرے پورشن پر ہونے کی وجہ سے زندہ بچ گیا تھا۔ اس واقعے نے پوری قوم کو غم زدہ کر دیا تھا۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے واقعے کا نوٹس لے کر اس کی فوری تحقیقات کا حکم دیا تھا ۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق لیڈی ہیلتھ ورکر کے خاوند کی دو شادیاں تھیں جس پر سابق شوہر کو شاملِ تفتیش کیا گیا۔ ایک سی سی ٹی وی فوٹیج میں گھر کے باہر رات گئے ایک گاڑی آ کر پارک ہوتی دیکھی گئی‘ یوں تفتیش کا دائرہ کچھ دیر انہی دو چیزوں کے گرد گھومتا رہا؛ تاہم اب اس کیس کا ڈراپ سین ہو گیا ہے اور یہ اتنا بھیانک ہے کہ سوچ کر بھی خوف آتا ہے ۔ وہی بچہ جس کے لیے ماں نے نو ماہ تک حمل کی تکلیف برداشت کی‘ اسے پالا پوسا‘ دن رات دیکھ بھال کر کے بڑا کیا اور اب جب وہ جوانی کی دہلیز پر پہنچ گیا تو جس ماں کو اس نے خوشیاں دکھانا تھیں‘ اپنے تعلیمی اور عملی میدان میں کامیابیوں کے ذریعے ‘اسی بچے نے نہ صرف اپنی لیڈی ہیلتھ ورکر ماں بلکہ معصوم بہنوں اور ایک بڑے بھائی کو بھی اپنے ہاتھ سے گولیاں مار کر موت کی وادی میں اس لیے دھکیل دیا کہ اس کی ماں اسے موبائل گیم پب جی کھیلنے سے منع کرتی تھی جس پر طیش میں آ کر اس نے یہ انتہائی قدم اٹھایا۔ابھی اس لڑکے کی عمر محض اٹھارہ سال ہے اور اس کے ہاتھ اپنے ہی خاندان کے چار افراد کے ہاتھ سے رنگے ہوئے ہیں۔دورانِ تفتیش ملزم نے بتایا کہ پب جی گیم میں بار بار شکست کی وجہ سے وہ ذہنی دباؤ میں تھا اور اس نے یہ سوچ کر اپنے بھائی، بہنوں اور والدہ پر گولیاں چلائیں کہ گیم کی طرح یہ سب لوگ دوبارہ زندہ ہو جائیں گے۔
چار مزید لوگوں کی اس نشہ آور گیم کے ہاتھوں موت سے یہ بحث پھر زندہ ہو گئی ہے کہ اس گیم کو جاری رکھنے کی اجازت دینی چاہیے یا اسے بند کر دینا چاہیے۔اس واقعے کے ڈراپ سین کی بازگشت اسمبلی کے ایوانوں تک جا پہنچی ہے اور پب جی گیم کو پاکستان میں بند کرنے کی قراردادیں پیش کرنے کی بات چل نکلی ہے۔کچھ دیر تک یہ سلسلہ چلے گا اور ممکن ہے یہ گیم کچھ عرصہ کے لیے ایک بار پھر بند ہو جائے لیکن پھر پاکستان میں گیم مافیا کے ایجنٹ اس بار پھر سٹے لینے میں کامیاب ہو جائیں گے اور اس خونیں گیم کو ایک مرتبہ پھر مزید گھر اجاڑنے کیلئے کھول دیا جائے گا۔ اس گیم نے لاہور میں ایک گھر کو ہی نہیں اجاڑا بلکہ پورے معاشرے کی شہ رگ کو کاٹ کر رکھ دیا ہے ۔
سمارٹ موبائل فون گیم پب جی دنیا بھر میں اپنے پنجے گاڑ چکی ہے۔ یہ آئے روز آمدنی کے ریکارڈ بھی اپنے نام کرتی رہتی ہے مگر زیادہ تر یہ گیم کھیلنے والوں پر ہونے والے نفسیاتی اثرات کی وجہ سے خبروں کی زینت بنتی ہے۔ اب یہ صرف ایک گیم نہیں رہی بلکہ ایک ایسا مافیا بن چکی ہے جسے کنٹرول کرنا شاید کسی ملک کے بس میں نہیں رہا۔جس طرح کولڈ ڈرنکس کی صنعت نے پوری دنیا میں اپنا شکنجہ کسا ہوا ہے اور یہ کھیلوں سے لے کر سیاست تک ہر جگہ اپنی بنیادیں مضبوط کر رکھی ہیں حالانکہ ماہرین صحت ایسے مشروبات کو صحت کے لیے کھل کر نقصان دہ قرار دیتے ہیں لیکن اس مافیا کو پنپنے سے آج تک کوئی نہیں روک سکا‘ کیونکہ ان کی مالی پوزیشن اس قدر مستحکم ہے کہ ان کے لیے ہر بند دروازہ کھلتا چلا جاتا ہے‘ کچھ اسی طرح کا معاملہ اب ٹک ٹاک‘ پب جی اور ان جیسی دوسری سوشل میڈیا ایپس‘ سائٹس اور گیموں نے ہمارے ساتھ کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہ ہمارے گلے کا ایسا کانٹا بن چکی ہیں جسے اگلنا ممکن ہے نہ نگلنا۔
پب جی کو دنیا کی سب سے زیادہ کمانے والی گیم کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ایک بین الاقوامی ٹیکنالوجی فرم ''سینسر ٹاور‘‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ پب جی دسمبر 2021ء میں سب سے زیادہ آمدنی والے گیم قرار پائی۔گزشتہ ماہ اس گیم کے دیوانوں نے پب جی پر مجموعی طور پر 244 ملین ڈالر خرچ کیے جو گزشتہ سال اسی مدت کے دوران خرچ کی جانے والی رقم سے 36.6 فیصد زائد ہے۔رپورٹ کے مطابق پب جی نے سب سے زیادہ ریونیو اپنے ملک چین سے حاصل کیا جو 68.3 فیصد رہا؛ چین میں اسے ''گیم فار پیس‘‘ کے نام سے مقامی رنگ دیا گیا ہے۔اس کے علاوہ پب جی کا 6.8 فیصد ریونیو امریکا اور 5.5فیصد ترکی سے حاصل ہوا۔ گیموں کے ریونیو کی فہرست میں دوسرے نمبر پر رہنے والے گیم ''جین شائن امپیکٹ‘‘ہے جس کی آمدنی 134.3 ملین رہی۔ایک رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر گیم مارکیٹ نے دسمبر 2021ء میں تقریباً7 ارب 40 کروڑ ڈالر کمائے۔
ماضی میں جو گیمیں ہوتی تھیں وہ چند گھنٹوں میں ختم ہو جاتی تھیں‘ یعنی پہلی سٹیج سے مشکل ترین آخری سٹیج تک‘ ان گیموں کو کوئی ماہر پلیئر دو تین گھنٹوں میں عبور کر لیتا تھا اور یوں گیم کا خاتمہ ہو جاتا تھا لیکن اب گیم مافیا نے ‘جو انڈر ورلڈ سے بھی زیادہ خطرناک بنتا دکھائی دے رہا ہے گیمز کو لامحدود وقت تک کھیلنے کے لیے ڈیزائن کرنا شروع کر دیا ہے۔ پہلے نیٹ ورک گیمنگ بھی عام نہیں تھی‘ زیادہ سے زیادہ دو لوگ آپس میں گیم کھیل سکتے تھے؛ تاہم گیمنگ جب سے آن لائن ہوئی ہے‘ تب سے پچاس‘ پچاس بلکہ سو‘ سو پلیئر بھی آپس میں کھیلنا شروع ہو گئے ہیں اور یہ پوری دنیا میں پھیلے ہوتے ہیں اور آپس میں یوں لڑ بھڑ رہے ہوتے ہیں جیسے کسی حقیقی عالمی جنگ میں جان کی بازی لگا رہے ہوں۔
نشہ کسی بھی چیز کا ہو‘ وہ انسان کو ککھ کا نہیں چھوڑتا۔ ماضی کی نسبت آج کے والدین کے لیے مسائل بہت بڑھ گئے ہیں۔ وہ ایک طرف بچوں کی تعلیم‘ ان کی رہائش‘ خوراک‘ صحت‘ لباس‘ ٹرانسپورٹ اور دیگر معاملات زندگی چلانے کے لیے دن رات مزدوری کی چکی میں پستے رہتے ہیں ‘ دوسری طرف ان کی اولادیں ہیں جو ان کی بات سننے یا ماننے کو تیار ہی نہیں۔عجیب بات یہ ہے کہ بچوں اور نوجوانوں کی بڑی تعداد قتل و غارت اور مار دھاڑ والی فلموں‘ڈراموں اور ویڈیو گیموں کو پسند کرتی ہے اور ان میں نہ صحت ہے نہ علم اور نہ ہی اخلاقیات‘ صرف گولیاں‘خون‘ وقت اور اخلاقیات کی تباہ کاریاں ہیں جو آئے روز اپنے رنگ دکھا رہی ہیں۔ کئی واقعات میں بچوں نے اپنی جان صرف اس لیے لے لی کہ وہ پب جی یا دیگر کسی گیم میں اپنا کوئی مشن مکمل کرنے میں ناکام رہے تھے یعنی ان کے لیے حقیقی زندگی وہ ہے جس سے وہ ایک مشین کے ذریعے مصنوعی طور پر منسلک ہیں اور جن کے ساتھ اُ ن کا حقیقی رشتہ ہے‘ ان کی اُنہیں پروا ہے نہ فکر۔
اب پھر ہم ایک دوراہے پر آن کھڑے ہوئے ہیں۔ آگے کیا ہو گا؟ کیا بلی چوہے کا یہ کھیل یونہی چلتا رہا گا یا پھر ہم کوئی مستقل قومی پالیسی بنا کر تمام اداروں کو آن بورڈ لیں گے‘ یہ سب آنے والے دنوں میں سامنے آ جائے گا۔ فی الوقت حکومت‘ ادارے ‘والدین اور اساتذہ اتنا سمجھ لیں کہ یہ ایسا خطرناک ٹائم بم ہے‘ جو ہر اس گھر میں نصب ہو چکا ہے جہاں آن لائن گیمیں کھیلی جا رہی ہے اور اگر آج ہم نے اس بم کو ناکارہ کرنے کیلئے کوئی قدم نہ اٹھایا ‘ آج اس کی ٹِک ٹِک کی آواز کو نظر انداز کر دیا تو پھر اگلا بم کبھی بھی‘ کہیں بھی پھٹ سکتا ہے!