کچھ دن قبل ''ملے جو کہکشاں میں‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب دیکھی جس کے سرورق پر برصغیر پاک و ہند کے معروف گلوکاروں اور موسیقاروں کی تصاویر تھیں۔ یہ کتاب بنیادی طور پر مصنف امجد علی کے ان عظیم گلوکاروں کے انٹرویوز پر مبنی تھی جو انہوں نے جرمنی میں اپنی سکونت کے دوران کیے اور پھر انہیں ایک مجموعے کی شکل دے دی۔ ان میں میڈیم نور جہاں‘ استاد نصرت فتح علی خان‘ نوشاد‘ محمد رفیع اور دیگر کے ساتھ لتا منگیشکر کا ایک تفصیلی انٹرویو بھی شامل تھا۔ استاد نصرت فتح علی خان ہر سال جرمنی جاتے تھے اور مختلف شہروں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔ ان تمام فنکاروں‘ موسیقاروں اور نغمہ نگاروں کے انٹرویوز پڑھنے کے بعد جو بات اُبھر کر سامنے آئی وہ یہ تھی کہ اکثر فنکاروں نے اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے روایت سے بغاوت کی‘ سکول کی تعلیم میں محض واجبی سی دلچسپی لی‘ گھر والوں کی ناراضی مول لی اور اگر کسی کو گھر بھی چھوڑنا پڑا تو اس سے بھی گریز نہیں کیا۔ وہ فٹ پاتھوں پر سوئے‘ گاڑیوں اور ورکشاپوں میں کام کیا اور کئی کئی مہینے بلامعاوضہ کام کرنا پڑا‘ تو وہ بھی کیا اور یوں صرف محنت اور سچی لگن کے ساتھ ہی وہ تمام اپنی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
جس روز ملکہ ترنم نور جہاں کا انتقال ہوا تھا‘ اس روز بھارت کی شہرہ آفاق گلوکارہ لتا منگیشکر کولہاپور میں تھیں۔ کتاب کے مصنف نے ریڈیو پروگرام کے ذریعے ملکہ ترنم نورجہاں کی وفات پر ان کے تاثرات کے لیے ان سے رابطہ کیا تو وہ فوراً میڈیم سے متعلق بات کرنے پر تیار ہو گئیں۔ ملکہ ترنم کے بارے میں لتا منگیشکر کا کہنا تھا کہ انہیں ہمیشہ سے ان کے گانوں سے پیار تھا۔ ان کی نورجہاں سے پہلی ملاقات کولہاپور انڈیا میں ہی ہوئی تھی۔ وہاں لتا ایک کمپنی میں نوکری کرتی تھیں جہاں ان کی پکچر ''بڑی ماں‘‘ بنی تھی۔ اس فلم میں ملکہ ترنم میڈیم نور جہاں نے ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا جبکہ لتا کے مطابق‘ ان کا کوئی چھوٹا موٹا کردار تھا۔ لتا اس وقت بہت کم عمر تھیں۔ دوسرے دن وہ میڈیم سے ملنے سٹوڈیو گئیں تو ماسٹر عنایت نے میڈیم کو بتایا کہ یہ لڑکی لتا منگیشکر ہے‘ بڑا اچھا گاتی ہے۔ میڈیم نے انہیں کہا کہ اچھا بیٹا! کچھ سنائو۔ اس پر لتا نے ان کی فرمائش پر تھوڑا سا گنگنا کر سنا دیا تو میڈم بہت خوش ہوئیں اور کہا جیتی رہو! دل لگا کر ریاض کرنا اور کسی چیز کی پروا نہ کرنا‘ سنگیت بہت بڑی چیز ہے۔ اس کے بعد میڈم نور جہاں اسی سال پاکستان آ گئیں۔ لتا کی ان سے اگلی ملاقات کچھ سال بعد ہوئی۔ دونوں نے واہگہ بارڈر پر ملنے کا پلان بنایا اور بارڈر پر پہنچ گئیں۔ جیسے ہی نور جہاں نے بارڈر پر لتا کو دیکھا تو وہ دوڑتی ہوئی گئیں اور لتا کو زور سے گلے لگا لیا۔ دونوں کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ نور جہاں لاہور سے کھانا بنا کر لائی تھیں‘ جس میں مزیدار بریانی بھی شامل تھی۔ لتا کے مطابق: ہم سب نے ان کے ساتھ بیٹھ کر وہاں کھانا کھایا۔ واہگہ بارڈر پر ''نو مین لینڈ‘‘ میں ہوئی نور جہاں اور لتا کی یہ ملاقات بہت یادگار تھی اور اس دوران دونوں اطراف کے فوجی بھی رونے لگے تھے۔ یہ غالباً 1952ء کی بات تھی۔
پھر 1983ء میں ایک مرتبہ دوبارہ ان کی ملاقات ہوئی۔ اس بار میڈم ممبئی گئی تھیں۔ انہوں نے ایک میوزک شو میں گانا گایا۔ وہاں سے لتا انہیں ہوٹل میں آ کر ملیں‘ بڑے ہی پیار سے‘ میڈیم نور جہاں لتا کو اپنی چھوٹی بہن مانتی تھیں۔ دوسری جانب لتا کا بھی یہ کہنا تھا کہ انہوں نے میڈم نور جہاں سے بہت کچھ سیکھا‘ ان کے ریکارڈ سُن سُن کر سیکھا کہ کیسے آواز کو اونچا نیچا کرنا ہے‘ کون سا بول کیسے بولنا ہے‘ فلم کے لیے کیسے گانا ہے۔ میڈیم نور جہاں کے انتقال پر لتا کے تاثرات کچھ یوں تھے کہ جانا تو سبھی کو ہے لیکن وہ ہمیشہ اپنے سُروں کے ساتھ اس دنیا میں رہیں گی۔
اتوار کے روز لتا منگیشکر بھی اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئیں۔ ان کو پہلے کورونا اور پھر نمونیا نے آ لیا‘ جس کے بعد دل نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ ان کی عمر بانوے سال تھی۔ مختلف زبانوں میں کل ملا کر انہوں نے تیس ہزار گانے گائے۔ ان کے انتقال پر بھارت میں دو روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ لتا کی آواز میں جادو تھا جو سننے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتا تھا۔ دنیا کے ہر اس کونے میں‘ جہاں اردو؍ ہندی بولی اور سمجھی جاتی ہے‘ لتا کے مداح موجود ہیں۔
لتا منگیشکر کے والد کا انتقال 1942ء میںہوا تھا۔ ان کی ایک ڈرامہ کمپنی تھی اور اس میں ان کا بہت نام تھا۔ لتا شروع میں اپنے والد کے ساتھ سٹیج پر کلاسیکل گایا کرتی تھیں۔ ان کے والد ڈرامے میں گاتے تھے، جو کلاسیکل ہی ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ بھی ان کے اسی طرز کے پروگرام ہوتے تھے‘ جیسے کوئی بیٹھک ہوتی تھی یا کوئی جلسہ، اس میں لتا اپنے والد کے ساتھ بیٹھ کے گایا کرتی تھیں اور کلاسیکل ہی گاتی تھیں۔ یہ انہیں بہت پسند تھا۔ 1942ء میں جب ان کے والد کی اچانک وفات ہوئی تو پوری فیملی کی ذمہ داری لتا پر ہی آن پڑی ۔ والدہ ‘چار بہنیں اور ایک بھائی۔ لتا کے مطابق‘ والد کی وفات کے بعد مجبوراً انہیں فلموں میں اداکاری کے لیے آنا پڑا اور ابتدا میں انہوں نے چھوٹے چھوٹے کردار نبھائے۔ وہاں سے پھر جن لوگوں نے انہیں گاتے سنا تھا‘ دو انہیں بار بار بلاتے اور سنتے۔ اس طرح وہ فلموں میں آئیں۔ پہلے کولہاپور اور وہاں سے بمبئی چلی گئیں۔ بمبئی جانے کے بعد لتا نے فلموں میں پلے بیک سِنگنگ شروع کی۔ یہ 46ء اور 47ء کا زمانہ تھا۔ وہاں شروع شروع میں چھوٹی چھوٹی فلموں میں ایک ایک‘ دو دو گانے گائے۔ کولہاپور میں جس کے پاس وہ کام کرتی تھیں، وہ ماسٹر ونا ک تھے۔ جب فلم ''بڑی ماں‘‘ بنی تو ماسٹر وناک اپنی پوری کمپنی کو لے کے کولہاپور سے بمبئی آ گئے۔ یہیں کچھ عرصے بعد ماسٹر وناک کا انتقال ہو گیا۔ ان کی وفات کے بعد‘ لتا کو ایک بار پھر ایسے لگا جیسے ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے ۔ نوکری بھی چلی گئی تھی‘ کچھ نہیں بچا تھا‘ اب دوبارہ سوچا کہ کیا کر یں؟ اسی دوران ایک شخص فلموں میں گانے کے لیے انہیں ماسٹر غلام حیدر صاحب کے پاس لے گیا۔ ماسٹر غلام حیدر صاحب نے انہیں سنا اور ایک فلم میں ہیروئن پر فلمائے جانے والے گانے انہیں گانے کا کہا۔ یہیں سے لتا کا نام پھیلنا شروع ہوا۔
لتا نے روسی زبان میں بھی گایا‘ فجی زبان میں بھی‘ 20 سے زائد زبانوں میں گانا گایا۔ لتا منگیشکر کا جب بھی انٹرویو کیا گیا‘ وہ ایک بات ضرور کہتی تھیں کہ میں بس یہی چاہتی ہوں کہ دنیا میں جو آج کل سب چل رہا ہے‘ یہ مار پیٹ‘ لڑائیاں‘ جنگیں‘ یہ سب بند ہو جائیں۔ سب بھائی بھائی ہیں‘ سب کو ایک دن چلے جانا ہے دنیا سے۔ کیا کریں گے اس طرح سے دشمنی کر کے۔ میں چاہتی ہوں دنیا میں سب کے درمیان بھائی چارہ بڑھے۔ انہیں اپنا گیت ''نینوں میں بدرا چھائے‘‘ بہت پسند تھا۔ انہیں 1960ء سے 1980ء کے درمیان اپنے گائے ہوئے گیت زیادہ پسند تھے۔ بہت سے گلوکار ان کے بعد آئے لیکن ان کا کیریئر بہت پہلے ختم ہو گیا۔ لتا منگیشکر نے سب سے طویل اننگز کھیلی۔ 1990ء میں جب انہوں نے شاہ رخ کی بلاک بسٹر فلم 'دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ کے گانے گائے تو کسی کو یقین نہیں آیا کہ یہ وہی لتا منگیشکر ہیں جو ستر برس کی عمر پار کر چکی ہیں، ان کی آواز کا جادو اس وقت بھی سر چڑھ کر بول رہا تھا جس عمر میں بزرگ ٹھیک طرح سے کھانس بھی نہیں سکتے۔ بہرحال لتا منگیشکر کے بارے میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ان کے جیسا گلوکار شاید ہی کبھی سامنے آئے۔ ایسا کوئی نہیں ہے جو ان کا خلا پُر کر سکے۔