"ACH" (space) message & send to 7575

بغیر کچھ کیے بچ جائیں گے؟

بہت سی چیزیں یا عوامل ایسے ہیں جو انسان کے دائرۂ اختیار سے باہر ہیں اور جن کا آنا یا ہوتے رہنا یقینی ہے، مثلاً نیند‘ بڑھاپا‘ بیماری‘ بارش‘ طوفان‘ پریشانی‘ نیند‘بھوک وغیرہ۔ انسان ان چیزوں کو نہیں روک سکتا۔ وہ لاکھ کوشش کر لے‘ دنیا جہاں کی دولت خرچ کر لے‘ وہ اپنی صحت کچھ بہتر کر سکتا ہے‘ جوانی کا دورانیہ چند سال بڑھا سکتاہے لیکن بڑھاپے کو آنے سے روک سکتا ہے نہ ہی موت کا وقت ٹال سکتا ہے۔ اسی طرح ہر انسان کم یا زیادہ‘ بیمار ضرور ہوتا ہے اور پھر اللہ کے حکم سے شفایاب بھی! زندگی ہے تو پریشانیاں اور دبائو بھی‘ یہ سب ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ کوئی ایسا نہیں ہو گا جسے ٹینشن نہ ہوتی ہو‘ جسے اپنے ماضی‘حال اور مستقبل کی فکر نہ ستاتی ہو۔ اسی طرح ہر انسان کو بھوک لگتی ہے اور پیاس بھی۔ وہ کم کھا کر زندہ تو رہ سکتا ہے لیکن بغیر کھائے یا پئے زندگی نہیں جی سکتا۔ اسی طرح اس کی تقدیر میں جو کچھ لکھا ہے‘ اسے بھی وہ بدل نہیں سکتا۔ وہ صرف کوشش کر سکتا ہے اور اس کوشش کا نتیجہ اس کی نیت‘ جذبے اور سمت پر منحصر ہوتا ہے۔ نیت صاف‘ جذبہ توانا اور سمت درست ہو گی تو کوشش کارگر ثابت ہونے کا امکانات بھی اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔
بہت سے لوگ ایسی چیزوں کے بارے میں پریشان رہتے ہیں جو ان کے دائرۂ اختیار سے باہر ہیں اور جنہیں ہو کر ہی رہنا ہوتا ہے۔بعض اوقات انسان اپنے طور پر تمام امور بہترین انداز میں سرانجام دیتا ہے لیکن کسی تیسرے شخص یا ایسے عوامل کی وجہ سے اس کا کام خراب ہو جاتا ہے جو براہِ راست اس کے بس میں نہیں ہوتے؛ تاہم اگر وہ ہمت کرے تو مشکل سے مشکل بھنور یا گرداب سے بھی نکل سکتا ہے۔ہم کورونا وبا کی مثال لیتے ہیں۔ لگ بھگ دو سا قبل جب کورونا کی وبا آئی تو بہت سے کاروبارٹھپ ہو کر رہ گئے۔ بالخصوص اندرونی اور بیرونی سیاحت تو بالکل ہی معطل ہو کر رہ گئی۔ ایئرپورٹس پر فلائٹس محدود ہو گئیں اور بہت سے ممالک نے اندرونی و بیرونی آمد و روانگی پر مکمل پابندی لگا دی۔ دنیا کی نوے فیصد آبادی کئی ماہ کے لیے گھروں پر بیٹھ گئی۔ ایسے میں بہت سے لوگوں کی نوکریاں چلی گئیں‘ تنخواہوں میں کٹوتی ہوئی یا پھر کاروباروں پر مکھیاں بھنبھنانے لگیں۔ ایسے لوگوں کی تعداد ہزاروں یا لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں میں تھی۔ ان میں سے وہ لوگ‘ جو اس موقع پر دل چھوڑ بیٹھے‘ مزید نقصان اور دبائو کا شکار ہو گئے جبکہ وہ لوگ جنہوں نے اس مصیبت میں سے امید کا راستہ تلاش کیا اور ہمت کر کے اس کا مقابلہ کرنے چل پڑے‘ نقصان سے بھی نکل آئے اور دبائو سے بھی۔
کورونا میں ریسٹورنٹس‘ تعلیمی ادارے‘ اکیڈمیز کے شعبے بھی متاثر ہوئے‘ مزدور‘ دکاندار اور نوکری پیشہ افراد بھی؛ تاہم ان میں سے جن لوگوں نے اپنے حواس کوبرقرار رکھا اور اس مشکل سے نکلنے کیلئے ہاتھ پائوں مارے‘ وہ ڈوبنے سے بچ گئے۔ ان لوگوں نے دیکھا کہ کورونا میں ایسے شعبے اور ادارے بھی ہیں جن کا منافع راکٹ کی طرح آسمان کی طرف بڑھنے لگا ہے۔ کورونا میں جہاں بہت سی چیزوں کی طلب کم ہوئی‘ وہاں کچھ ایسی اشیا اور سروسز بھی تھیں جن کی طلب میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ یہ چیزیں اور سروسز آن لائن پلیٹ فارم سے جڑی تھیں، مثلاً یہ کہ کورونا میں لوگ گھروں میں محصور ہو گئے تھے مگر انہیں بچوں کا خشک دودھ‘ کھانے پینے کی اشیا‘ ادویات اور دیگر لازمی چیزیں درکار تھیں۔ ایسے میں وہ دکانیں اور وہ کاروبار‘ جو کسی نہ کسی آن لائن پلیٹ فارم سے منسلک ہو گئے‘ جنہوں نے فوری طور پر موبائل ایپس بنا لیں یا کسی مستند آن لائن گروسری شپنگ کمپنی کے ساتھ اشتراک کر لیا‘ وہ نہ صرف گھاٹے سے نکل آئے بلکہ ان کا کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگا۔ ان کی فروخت میں اس قدر اضافہ ہوا کہ انہیں راتوں رات اپنے سٹاف کی تعداد میں اضافہ کرنا پڑا۔ سب سے زیادہ ڈیمانڈ موٹرسائیکل رائیڈرز کی تھی کیونکہ یہ لوگ دکانوں سے آرڈر اٹھا کر گھروں میں پہنچاتے تھے۔ امریکا‘ کینیڈا اور دیگر جدید ممالک میں آج بھی بڑی تعداد میں لوگ ڈِلیوری بوائے کے طور پر کام کرتے ہیں اور اپنا دال دلیا کرتے ہیں۔اسی طرح جن تعلیمی اداروں نے آن لائن موبائل پورٹل بنا لیے یا موبائل ایپلی کیشنز وضع کیں‘ ان کے طلبہ و طالبات کا تعلیم کا زیادہ حرج نہیں ہوا بلکہ اس بہانے انہوں نے کمپیوٹر اور آن لائن ایجوکیشن کو بہتر طور پر استعمال کرنا سیکھ لیا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی ایسی موبائل ایپس بن گئیں جن کی وجہ سے طلبہ کو ٹیوشن سنٹرز جانے سے بھی نجات مل گئی اور ان مفت ایپلی کیشنز کی وجہ سے ان کی کئی طرح سے بچت ہوئی۔ اکیڈمیوں میں آنے جانے کے اخراجات کی بھی بچ گئے۔ ایک طرف کیڈمیوں کی فیسوں کی بچت ہوئی اور دوسری طرف وہ وقت بچ گیا جو آنے جانے میں صرف ہوتا تھا۔
عالمی وبا نے لوگوں کی سوچ سے بھی پردے ہٹائے اور لوگوں نے پہلی بار اپنے دماغ کو استعمال کر کے سوچنا شروع کیا کہ اگر اس طرح کے مشکل حالات پیش آجائیں تو کیا کچھ کیا جا سکتا ہے۔ بہت سی ایسی ایپس بن گئیں جن کے ذریعے لوگوں کو روز مرہ کی مشکلات کا حل بتایا گیا، مثلاً یہ کہ کرائے پر رہنے والوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے سامان شفٹ کرنا ہوتا ہے اور اس کے لیے انہیں کسی جگہ سے پک اَپ‘ لوڈر یا ٹرک وغیرہ لانا ہوتا ہے‘ پھر اس سامان کو پیک کرنے اور لوڈنگ کے لیے مزدور بھی درکار ہوتے ہیں۔ جن گھروں میں مرد زیادہ تعداد میں ہوتے ہیں‘ وہ تو یہ کام ازخود کر لیتے ہیں لیکن جہاں بچے چھوٹے ہوتے ہیں‘ یا خاوند کے پاس دفتری یا کاروباری مصروفیات کے علاوہ کوئی ٹائم نہیں ہوتا‘ ان کے لیے بہرحال یہ صورتِ حال مشکل ہو جاتی ہے؛ چنانچہ ایسی کئی ایپلی کیشنز کورونا کے دوران بنیں جن میں گھروں کے سامان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ شفٹ کرنے کی سروسز آفر کی گئی تھیں۔ پلنگ کھولنے سے لے کر دوسری جگہ لے جا کر فٹ کرنے تک کی ٹینشن ختم ہو گئی‘ہر کام نفاست اور پائیداری سے ہونے لگا اور یوں سوسائٹی کا ایک بڑا مسئلہ حل ہو گیا۔ اسی طرح وہ مزدور‘ مستری‘ الیکٹریشن‘پلمبر‘بڑھئی جنہیں کام نہیں ملتا تھا یا کم ملتا تھا‘ ان کے لیے بھی ایسی موبائل ایپلی کیشنز بن گئیں جن کے ذریعے انہیں اپنے علاقے میں ہی کام ملنے لگا۔ انہیں خود کو صرف ایسی ایپس کے ساتھ مفت میں رجسٹرڈ کرنا تھا‘ اس کے بعد انہیں موبائل پر ہی نوٹیفکیشن یا پیغام آ جاتا کہ فلاں شخص کو فلاں جگہ پر فلاں کام کرانا ہے‘ وہ ایپس پر ہی تفصیل پوچھ کر اپنی مزدوری بتا دیتا جس کے بعد وہ جا کر کام کرتا اور اسے پیسے مل جاتے۔
گھروں کی دہلیز پر آ کر گاڑیاں دھونے کی ایپس بھی بن گئیں جس سے لوگوں کو سروس سٹیشن پر جانے اور انتظار کرنے کے جھنجٹ سے بھی نجات مل گئی۔اسی طرح جو خواتین پارلر جاتی تھیں‘ انہیں بھی گھر میں میک اپ کرانے کی سروس دی جانے لگی۔ گھروں کے کام‘ مریضوں کا خیال رکھنے جیسے درجنوں آئیڈیاز پر ایپس بنیں جن سے نہ صرف لوگوں کے مسائل حل ہوئے بلکہ معاشرے میں مثبت معاشی ایکٹویٹی بھی شروع ہو گئی۔یہ صرف چند مثالیں ہیں، اس طرح کے سینکڑوں‘ ہزاروں مختلف شعبوں میں لاکھوں طرح کی ایپس بن چکی ہیں‘ لوگوں کو گھر بیٹھے آن لائن ایسے ایسے ہنر سکھائے جا رہے ہیں‘ بصورتِ دیگر جن کو سیکھنے کے لیے انہیں خطیر رقم خرچ کرنا پڑتی۔ یہ سب سیکھنے اور سکھانے والے اگر یہ سوچتے رہتے کہ کورونا نے انہیں تباہ کر دیا ہے‘ ان کی قسمت ہی خراب ہے یا پھر ان کے مقدر میں بس نقصان ہی لکھا ہے‘ تو یہ سب کیسے سروائیو کر پاتے؟
خودکشی کے لیے سمندر میں چھلانگ لگانے والا بدنصیب بھی آخری لمحات میں ہاتھ پائوں مارتا اور بچنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے؛ تاہم جو لوگ اس دنیاکے سمندر میں اترے ہی جینے کے لیے ہیں‘ کیا وہ بغیر ہاتھ پائوں مارے زندہ رہ سکیں گے؟ کیا وہ بغیر کچھ کیے ڈوبنے سے بچ جائیں گے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں