سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کے بعد اب تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے خود بھی اس بات پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے کہ ان کی حکومت کسی بیرونی سازش کی وجہ سے نہیں گئی بلکہ مقتدرہ کے ساتھ ان کے تعلقات میں خرابی اقتدار جانے کی اصل وجہ تھی۔لاہور مینار پاکستان پر جلسے میں انہوں نے کہا کہ جن سے غلطی ہو گئی اب اس غلطی کو ٹھیک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ الیکشن کروا دیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ''جن‘‘ امریکہ ہے جس کی طرف ان کا اشارہ ہے؟ کیونکہ عدم اعتماد کی قرارداد کے پیچھے‘خان صاحب کے بقول‘ امریکہ کا ہاتھ تھا اور ان کے خلاف بیرونی سازش ہوئی تھی۔ اب اس سازش کو وہ غلطی میں تبدیل فرما رہے ہیں ۔کیا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عدم اعتماد کی غلطی امریکہ نے کی تھی‘ان کی حکومت کو فارغ کروا دیا اور اب امریکہ اپنی غلطی کو ٹھیک کرنے کیلئے الیکشن کروا دے؟ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس ملک کو اصل میں امریکہ چلاتا ہے اور وہی الیکشن کرواتاہے‘ حکمرانوں کو حکومت میں لاتا ہے اور حکومت سے نکلواتا ہے۔
اگر خان صاحب اور ان کی جماعت کا بیانیہ ایسا نہیں تو پھر انہوں نے اپنی تقریر کی پنچ لائن سازش سے غلطی میں کیوں تبدیل کی؟ اس سے تو یہ نظر آ رہا ہے کہ وہ ایک مرتبہ پھر یو ٹرن لے رہے ہیں اور اب بیرونی سازشی کارڈ کے بجائے اندرونی طاقتوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ اگر ایسا تھا تو پھر اس جماعت کی جانب سے قوم کو سازشی خط کے ٹرک کی بتی کے پیچھے کیوں لگایا گیا؟ کیوںیہ کہا گیا کہ ہم روس گئے تو امریکہ ناراض ہو گیا۔روس ہمیں بیس تیس فیصد سستی گندم دے رہا تھا اور ہم آئی ایم ایف سے چھٹکارا پانے والے تھے کہ بیرونی سازش کے ذریعے ہمیں نکلوا دیا گیا۔ایک طرف آپ نے عوام کے سامنے یہ امیج بنایا اور اب آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ جنہوں نے غلطی کی وہ الیکشن کروا دیں۔ پھر یہ پیغام آپ کس کو دے رہے ہیں؟
لاہور کے جلسے میں لوگوں کی تعداد گننے کے بجائے خان صاحب کے اس بیان کو پرکھنا زیادہ اہم ہے جس میں وہ ایک مرتبہ پھر اپنی حکومت کے جانے کی وجہ کو تبدیل کرتے دکھائی دے رہے تھے اور کمال ہوشیاری کے ساتھ یو ٹرن لے رہے تھے۔ ویسے داد دینی چاہیے ان کے فالوورز کو بھی کہ انہیں اپنے محبوب قائدین کے بیانات میں تضادات دکھائی نہیں دیتے اور وہ شخصیت پرستی میں اس قدر ڈوب گئے ہیں کہ انہیں اپنے لیڈرز کے آئے روز تبدیل ہوتے بیانات میں تضاد بھی نظر نہیں آتا۔ اپنے جلسوں میں خان صاحب پچانوے فیصد باتیں پرانی دہراتے ہیں مثلاً کرکٹ‘ ہسپتال‘ مغربی دنیا سے ان کا تعلق وغیرہ لیکن وہ یہ جلسے کس مقصد کے لیے کرتے ہیں ان کا پتہ ان کے ایک دو جملوں سے چل جاتا ہے۔ اب تو وہ ماضی کے برعکس اپنے خطاب میں پرچیوں کو بھی سامنے رکھتے ہیں‘ جن پر غالباً وہ پوائنٹس لکھے ہوتے ہیں جن کے لیے یہ سارا میلہ سجایا جاتا ہے۔ مینار پاکستان والے جلسے میں بھی وہ اپنے سامنے موجود کاغذ کو دیکھتے رہے۔ شاید انہیں کسی نے بتایا ہے کہ کسی پر اٹیک کرنا بھی ہے تو نپا تُلا کریں اور کوئی ایسی بات نہ کر یں جس سے سارا کھیل خراب ہو جائے۔ بد قسمتی سے اب ان کے اتحادی بھی انہی کی زبان اور طے کردہ اخلاقیات کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ پنجاب کے نومنتخب وزیر اعلیٰ کے بارے جو الفاظ مونس الٰہی صاحب نے کہے‘ وہ کہنے سے پہلے وہ اپنے خاندان کے بزرگ سیاستدان چودھری شجاعت حسین کے چند ہفتے قبل جاری کئے گئے اس بیان کو ہی سن لیتے جس میں مسلم لیگ (ق) کے سربراہ نے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کے نام بگاڑنے پر تبصرہ کرتے ہوئے انہیں مخاطب کیا تھا کہ دوسروں کو غلط القابات اور برے ناموں سے پکارنا شرعی اور اخلاقی طور پر درست نہیں۔ اس موقع پر انہوں نے قرآن مجید کی سورۃ الحجرات کی متعلقہ آیات کا حوالہ بھی دیا تھا۔ چوہدری شجاعت حسین نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں، اچھا ہوتا اگر وہ سورۃ الحجرات کی آیت نمبر11 ترجمہ کے ساتھ پڑھ لیتے تو سیاسی لیڈروں کو برے ناموں اور القاب سے نہیں پکارتے۔ چوہدری شجاعت نے اس آیت کا مفہوم بھی بتایا تھا کہ ایمان والو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں، ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوں۔ چوہدری شجاعت نے مفہوم بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپس میں ایک دوسرے پر عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو برے لقب دو، ایمان کے بعد فسق برا نام ہے جو توبہ نہ کریں وہی لوگ ظالم ہیں۔ انہوں نے سیاستدانوں کو یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ شائستگی اور رواداری کا دامن نہ چھوڑیں لیکن اب ان کے اپنے ہی خاندان کے چشم و چراغ نے مسلم لیگ (ن) کے لیڈر بارے جو کچھ کہا‘ اسے سن کر یقین نہیں آ رہا ہے۔ ان کے بزرگ سیاست دانوں کو نوٹس لیتے ہوئے مونس الٰہی کو تنبیہ کرنی چاہیے کہ وہ کس ڈگر پر چل پڑے ہیں۔ جس وقت مونس الٰہی ایسا کہہ رہے تھے تو کیمرے نے سٹیج پر موجود چیئرمین عمران خان کو کلوز اپ میں لے لیا جو اس بات پر ہنستے اور محظوظ ہوتے دکھائی دیے۔ ظاہر ہے یہ کلچر انہی نے آگے پھیلایا ہے تو خوش ہونا تو بنتا تھا لیکن یہ بگاڑ کس طرح معاشرے میں نفرت اور تعصب کو بڑھائے گا اس کا اندازہ شاید خان صاحب کو نہیں ہے۔ اصولاً تو یہ جلسے وغیرہ رمضان کے بعد رکھنے چاہئیں تھے اور اگر سیاست اور اقتدار کی جدوجہد اتنی ہی ناگزیر ہے تو کم از کم اس مقدس مہینے کا احترام ہی ملحوظ خاطر رکھ لیا جاتا اور عین اس وقت جب مینار پاکستان کے سامنے چند گز کے فاصلے پر تراویح کی نماز ہو رہی تھی تو جلسے میں بلند آواز میں میوزک اور گانے نما ترانے چلانے سے ہی پرہیز کر لیا جاتا‘ لیکن کیا کرتے اس وقت جلسے میں آئے عوام کو خوش کرنا اور چارج رکھنا شاید زیادہ عزیز تھا۔
اقتدار آنی جانی چیز ہے۔ خان صاحب دوبارہ بھی اقتدار میں آ گئے تو ہمیشہ تو نہیں رہیں گے۔ پانچ دس سال رہ لیں گے پھر تو جانا ہی پڑے گا لیکن وہ جو بیج بو رہے ہیں اس فصل کو انہیں ہی کاٹنا پڑے گا۔ جو تربیت وہ اپنے مداحین کی کر رہے ہیں وہ ایک نہ ایک دن اُن کے سامنے آئے گی۔ جس طرح وہ جلسے کے دوران خود لوگوں کو کھمبوں سے اترنے کا بار بار کہہ رہے ہوتے ہیں تو یہی وہ بدنظمی ہے جو اس قوم میں تیزی سے پنپ رہی ہے اور یہی وہ بے صبری ہے جو عوام کو ایک قوم بننے سے روک رہی ہے۔ آج کل تو سوشل میڈیا‘ میوزک سٹارز جلسوں کی رونق میں مدد دے رہے ہیں۔ آپ ذوالفقار علی بھٹو کی مثالیں دیتے ہیں‘ اس وقت لوگ موسیقاروں کو نہیں لیڈر کو سننے کیلئے آتے تھے جبکہ آج کل کے جلسوں میں لوگ انٹرٹینمنٹ کیلئے جاتے ہیں کیونکہ ایک عرصہ ہوا پاکستان میں اوپن ایئر لائیو میوزک کنسرٹ بند ہو چکے ہیں۔ اللہ نے آپ کو ایک مرتبہ اقتدار کا موقع دیا‘ ہو سکتا ہے پھر مل جائے لیکن اگر اپنی قوم کی اخلاقی تربیت نہیں کریں گے‘ اپنے قول و فعل میں تضاد دور نہیں کریں گے‘ کبھی اپنی حکومت کے جانے کی وجہ بیرونی سازش قرار دیں گے تو کبھی اداروں کی غلطی تو پھر ایسے جتنی بار بھی حکومت کر لیں‘ یہ ملک بدلے گا نہ عوام۔