"ACH" (space) message & send to 7575

بجٹ کے چند اہم نکات

تحریک انصاف جب برسر اقتدار آئی تواس کے آتے ہی ڈالر کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا تھا۔ جب ہر جانب سے تنقید کی گئی تو سابق وزیرخزانہ نے توضیح پیش کی کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنے دورِ اقتدار میں ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طور پر روک کر رکھا ہوا تھا۔ اگر مارکیٹ ریٹ پر آہستہ آہستہ ڈالر کی قیمت بڑھنے دی جاتی تو یکدم ڈالر کو بڑھانا پڑتا نہ مہنگائی کی لہر آتی۔ یہی وضاحت سابق حکومت نے ادویات کی قیمتوں کے بڑھنے پر بھی پیش کی تھی کہ جب حکومت کے ابتدائی چھ ماہ میں ہی بار بار کئی گنا تک ادویات کی قیمتیں بڑھا دی گئیںتو لوگ چیخنے لگے، اس وقت بھی یہی فرمایا گیا تھا کہ ماضی میں ان قیمتوں کو جان بوجھ کر فریز رکھا گیا۔ اب کوئی پوچھے کہ جو کام آپ کریں‘ وہ ٹھیک لیکن اگر کوئی اور کرے تو غلط کیوں ہے؟ اس وقت موجودہ حکومت پٹرولیم قیمتوں کے حوالے سے یہی توضیح کر رہی ہے‘ اگر سابق حکومت کا وہ موقف تھاتو یقینا موجودہ حکومت بھی اس معاملے میں غلط نہ ہو گی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں جتنے برے حالات اس وقت ہیں‘ شاید ہی کبھی ہوں۔
بائیس برس عمران خان صاحب جس 'تاریخی‘ جدوجہد کو لے کر چلتے رہے ‘ اس کا انجام یہ ہوا کہ پنجاب جیسا سب سے بڑا صوبہ عثمان بزدار صاحب کے حوالے کر دیا گیا، یہ ایسا فیصلہ تھا جسے آج تک نہ تو پی ٹی آئی ڈیفنڈ کر سکی ہے اور نہ ہی اس کی کوئی معقول وجہ سامنے آ سکی ہے۔ چنانچہ بہت سے لوگ جو یہ سمجھتے رہے کہ حکومت میں آنے کے بعد واقعی عمران خان انقلاب لے کر آئیں گے‘ وہ زبردست تیاری کے ساتھ آئیں گے ا ور ملک و قوم کی تقدیر بدل کر رکھ دیں گے‘ وہ بھی اس تعیناتی پر چکرا کر رہ گئے۔ پھر جو اس ملک اور یہاں کے عوام کے ساتھ ہوا‘وہ دنیا نے دیکھا۔ اسی دور میں پنجاب کی حکومت وٹس ایپ پر اسلام آباد سے چلانے کا اعزاز بھی حاصل ہوا ۔
پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں ایمنسٹی سکیم کی وجہ سے اتنا زیادہ پیسہ سیلاب کی طرح تعمیراتی شعبے میں آیا کہ پلاٹوں اور مکانوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں اور ایک عام آدمی جو پانچ مرلے کا گھر کسی نہ کسی طرح بنا سکتا تھا‘ وہ تین مرلے کا گھر بنانے سے بھی رہ گیا۔ موجودہ بجٹ میں سب سے اچھا اقدام یہ کیا گیا کیونکہ غیرپیداواری اثاثے جمع کرنے سے غریبوں کے لیے گھروں اور زمین وغیرہ کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ موجود بجٹ میں امیروں کے غیرپیداواری اثاثوں پر ٹیکس لاگو کیا گیا ہے تاکہ توازن آنے سے غریبوں کے لیے جائیداد کی قیمتوں میں کمی ہو۔ اس حوالے سے اڑھائی کروڑ مالیت کی دوسری جائیدادکی خریداری پر5 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ہے‘ جبکہ اپنی رہائش کے لیے خریدے گئے گھر پر ٹیکس نہیں لگایا گیا اور نہ ہی لگایا جانا چاہیے۔ سابق حکومت نے شروع کے ایک دو برسوں سی پیک پر کام شروع کیا لیکن پھر آہستہ آہستہ یہ منظر عام سے غائب ہو گیا۔ موجودہ بجٹ میں سی پیک کے تحت سپیشل اکنامک زونز کے جلد آغاز کا فیصلہ کیا گیا ہے جو بلوچستان کی معیشت کے لیے بھی بہت اہم فیصلہ ہے۔گزشتہ ادوار میں ہر سال ہائرایجوکیشن کا بجٹ کم کیا جاتا رہا جس کی وجہ آج تک نا معلوم ہے؛ تاہم اس مرتبہ اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے ایچ ای سی کے بجٹ میں گزشتہ برس کے مقابلے میں سڑسٹھ فیصد اضافہ کیاجارہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں بجلی اتنی مہنگی ہو چکی ہے کہ ایئرکنڈیشنر چلاتے ہوئے ہاتھ رُک جاتا ہے۔توانائی کے متبادل ذرائع میں شمسی توانائی مقبول ترین اور پاکستان کے حوالے سے موزوں ترین ذریعہ ہے لیکن سابق ادوار میں عوام کو اس حوالے سے کوئی ریلیف نہیں دیا گیا۔ اب موجودہ حکومت نے سولرپینلز کی درآمد اور ترسیل و ڈسٹری بیوشن پر ٹیکس صفر کر دیا ہے جس کے بعد سولر پینل سسٹم کی قیمتیں نمایاں طور پر کم ہو جائیں گی۔ عام طور پر ایک ایئرکنڈیشنر اور گھر کی دو‘ چار لائٹس اور دو‘ تین پنکھے چلانے کے لیے لگ بھگ پانچ کلو واٹ کا سسٹم لگانا پڑتا ہے جس میں پانچ سے چھ لاکھ روپے خرچ آتا تھا‘ جس کے بارے میں اب خیال ہے کہ یہ کم ہو کر تین سے چار لاکھ تک ہو جائے گا۔ حکومت اگر اس حوالے سے بلاسود قرضوں کی فراہمی کا منصوبہ شروع کرے تو چھوٹے اور درمیانے طبقے کے گھر مزید آسانی سے اسے افورڈ کر لیں گے۔اسی طرح چھوٹے تنخواہ دار طبقے پر بھی بوجھ اس طرح کم کیا گیا ہے کہ انکم ٹیکس کی کم سے کم حد 6 لاکھ سے بڑھا کر 12 لاکھ کردی گئی ہے۔ 6 لاکھ سے 12 لاکھ تک کی سالانہ تنخواہ پر محض 100 روپے ٹیکس ہو گا جس کا مقصد اس طبقے کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہے۔ 1600 سی سی اور اس سے زائد سی سی کی لگژری گاڑیوں پرٹیکس میں اضافہ کرنے سے امیروں سے زیادہ ٹیکس اکٹھا ہو گا اور غریبوں پر استعمال ہو سکے گا۔
زراعت کا شعبہ ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔زرعی مشینری،بیج اور کھاد سمیت اس شعبے میں استعمال ہونے والی دیگراشیااور ان کی ترسیل پر ٹیکس صفر ہونے سے زرعی شعبہ دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا ہو سکے گا۔ ادویات جو انتہائی مہنگی ہو چکی ہیں‘کے حوالے سے بھی اس بجٹ میں ریلیف شامل ہے اور ادویات بنانے میں استعمال ہونے والے مختلف اجزاکو کسٹم ڈیوٹی سے مکمل استثنیٰ دیاجارہا ہے جس میں ادویات بنانے میں استعمال ہونے والا مختلف اقسام کا بنیادی مواد سستا ہو جائے گا اور اس کا اثر ادویات کی قیمتوں پر بھی پڑے گا۔ اس طرح کے دیگر اہم ریلیف موجودہ بجٹ میں دیے گئے ہیں جن سے ملکی معیشت کی بحالی اور عوام پر بوجھ کم کرنا ممکن ہو سکے گا۔
سابق حکومت نے عوام سے پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ کیا تھا ‘ یہ گھر کیا بننے تھے ‘ایمنسٹی سکیموں کے ذریعے غریبوں سے اپنا گھر بنانے کے خواب بھی چھین لیے گئے۔ تعمیراتی صنعت کو چلانے کے لیے حکومت کا وژن بس اتنا ہی تھا کہ کالا دھن رکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ کہا گیا کہ تعمیراتی شعبے کو چلائیں گے تو اس سے منسلک درجنوں مزید شعبے چلیں گے اور روزگار بڑھے گا۔ اس طرح کے اقدامات سے عارضی طور پر پیسے کی گردش ہوتی ہے لیکن ملک کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا۔ شاید ان چند لوگوں کو ضرور فائدہ ہوتا ہو جن کے لیے یہ سکیمیں لانچ کی جاتی ہیں۔ جاتے جاتے بھی سابق حکومت ایسے چند اقدامات کر گئی جنہیں موجودہ حکومت بارودی سرنگوں سے تشبیہ دے رہی ہے کہ ان کے ذریعے نہ صرف آنے والی حکومت کو مشکل میں ڈالا گیا بلکہ عوام کو بھی قربانی کا بکرا بنا دیا گیا۔ حالیہ بجٹ میں ان اقدامات کا ازالہ کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی ریلیف دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
جس طرح توقع کی جا رہی تھی یا بہت سے حلقوں کی جانب سے خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ حالیہ بجٹ انتہائی مشکل اور ٹیکسوں سے بھرپور ہوگا ‘ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ تاجر تنظیموں نے بھی اس بجٹ کو عوام دوست قرار دیا ہے۔ رہی اپوزیشن کی بات تو اسے تو اپنا دور ہی سہانا نظر آئے گا یہ اور بات ہے کہ اس وقت کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں تو ہر شعبے کے حوالے سے تنزلی کا رونا رویا گیا ہو گا۔ کوئی شعبہ ایسا نہ تھا جسے پستی کی طرف نہ دھکیلا گیا ہو اور جس کی خبریں اخباروں کی زینت نہ بنی ہوں۔ بہتر یہی ہے کہ اپوزیشن ملک کے مفاد میں حکومت کا ساتھ دے کیونکہ جلسے‘ جلوسوں اور دھرنوں سے عوام کا کچھ بھلا نہیں ہونے والا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں