آنکھوں کے ایک معالج کا وڈیو پیغام نظر سے گزرا جس میں انہوں نے خاصی اہم باتیں بتائیں‘ جن کا جاننا بالخصوص نئی نسل کے لیے اس لیے بھی زیادہ ضروری ہے کہ نئی نسل کو پیدا ہوتے ہی ماں باپ کے بعد جو تیسری چیز سب سے زیادہ نظر آتی ہے‘ وہ موبائل فون کی سکرین ہے اور جس طرح بچوں سے لے کر بوڑھوں تک سبھی موبائل فون کی سکرین پر سارا سارا دن نظریں جمائے رہتے ہیں اس سے کئی طرح کے نفسیاتی‘ جسمانی بلکہ خانگی مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں کیونکہ ایک طرف اس دور میں سب سے زیادہ کوئی چیز اہم ہے تو وہ وقت ہے اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں جس رفتار سے وقت گزر رہا ہے‘ اگر لائف سٹائل کو بہتر اور روز مرہ کے معاملات کو کنٹرول نہ کیا گیا تو جس طرح دن اور رات کا بیشتر حصہ غیر ضروری طور پر موبائل فون کی سکرین دیکھتے ہوئے گزر جاتا ہے‘ ایسے ہی زندگی بھی ہاتھ سے نکل جائے گی۔ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے انسان کے اخراجات بڑھتے جاتے ہیں جبکہ توانائی کم ہوتی چلی جاتی ہے‘ وقت کے ساتھ مصروفیات بڑھ جاتی ہیں اور صحت بھی ویسی نہیں رہتی۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں تو لوگوں کی ترجیحات میں صحت شاید آخری نمبر پر ہو گی۔ ہر شخص بہترین روزگار‘ کاروبار‘ خوبصورت لائف پارٹنر‘ اپنا گھر‘ سیر و تفریح‘ بہترین موبائل فون‘ کپڑوں‘ ایل سی ڈیز اور گیجٹس جمع کرنے کے لیے ہلکان ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر کے پاس یا ہسپتال کوئی شخص تبھی جاتا ہے جب شدید بیمار ہوتا ہے یا بیماری قابو سے باہر ہو چکی ہوتی ہے۔ دانتوں کے ڈاکٹر کے پاس جانا تو لوگ شاید اس وقت تک ممنوع سمجھتے ہیں جب تک دانتوں کو کیڑا پوری طرح نہ کھا جائے اور داڑھ سُوج کر چہرے کو خربوزہ نہ بنا دے۔ سب سے کم توجہ آنکھوں پر دی جاتی ہے۔
ویسے تو انسان کے تمام اعضا اہم ہیں اور کسی ایک کے بغیر بھی گزارہ ممکن نہیں لیکن آنکھوں کے بغیر زندگی کیسی ہوتی ہے‘ صرف ایک منٹ آنکھیں بند کر کے دیکھیں‘ آپ کو اندازہ ہو جائے گا۔ جن لوگوں کو عینک لگتی ہے‘ وہ بھی ایک ہی نمبر کے ساتھ کئی کئی سال بلکہ کئی دہائیاں گزارنے کی کوشش کرتے ہیں اور نمبر اَپ ڈیٹ کروانے کی زحمت نہیں کرتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اچانک انتہائی موٹے شیشوں والی عینک لگ جاتی ہے اور بندہ سر پکڑ لیتا ہے کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے۔
آج کے دور میں ٹیکنالوجی سے اگر آپ منسلک نہیں ہیں تو پھر لوگ آپ کو آئوٹ ڈیٹڈ یا پرانے خیالات کے طعنے دینا شروع کر دیتے ہیں۔ ویسے بھی آن لائن کوئی بھی کام ہو اس میں منافع بھی زیادہ ہے اور گاہکوں کی تعداد بھی یکدم بڑھ جاتی ہے۔ ٹیکنالوجی سے منسلک ہونے کے لیے کمپیوٹر، ٹیبلٹ، موبائل فون یا ٹی وی کی سکرین کے ساتھ جڑنا پڑتا ہے اور ان چیزوں کے زیادہ قریب ہونا آنکھوں کو مشقت میں ڈالنے کے مترادف ہے جس کے بعد آنکھوں اور دیگر تکالیف یا طبی مسائل کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ساری چیزیں واپس مل جاتی ہیں لیکن آنکھوں کی بینائی ایک بار چلی جائے یا کمزور پڑ جائے تو واپس نہیں آ سکتی۔ کام کے تحت الیکٹرانک چیزوں اور سکرین کا استعمال الگ بات ہے اور بلاوجہ ان سے چپکے رہنا دوسری بات۔ آنکھوں کے معالجین کے مطابق آنکھوں کی بیماریوں اور غیر ضروری دبائو سے بچنے کے لیے آنکھوں کی ورزش بہت ضروری ہے اور یہ اس طرح کی جانی چاہیے کہ اپنی آنکھوں کو ہر بیس منٹ بعد آرام دیں‘ کمپیوٹر سکرین سے نظریں بیس سیکنڈ کے لیے ہٹا لیں۔ کم از کم ہر دو گھنٹے بعد آنکھوں کی حفاظت کے لیے 15 منٹ کا وقفہ لیں۔ طالب علم اور دیگر لکھنے پڑھنے والے افراد اور کمپیوٹر پر کام کرنے والوں کو آنکھوں کی دیکھ بھال کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ ضروری ہے کہ آنکھوں کے ڈاکٹر سے سالانہ معائنہ کروایا جائے۔ بالخصوص جیسے ہی عمر چالیس سال ہو‘ آنکھوں کے علاوہ ہڈیوں اور دیگر طبی ٹیسٹ بھی کرا لیے جائیں تاکہ جسمانی صحت کے حوالے سے کمی بیشی سامنے آ جائے۔ سال میں ایک مرتبہ ڈاکٹر کو آنکھیں دکھانے سے یہ معلوم ہو جائے گا کہ انسان کی آنکھیں کس قدر صحت مند ہیں اور کہیں کوئی بیماری تو قریب نہیں آن پہنچی۔ اس کے علاوہ آنکھ کو چوٹ لگنے کا معاملہ بھی بہت سنجیدہ ہوتا ہے۔ جو لوگ موٹر سائیکل چلاتے ہیں‘ اگر وہ عینک یا ہیلمٹ استعمال نہیں کرتے تو وہ اپنے ساتھ ظلم کر رہے ہوتے ہیں۔ بعض لوگوں کی آنکھیں بیشتر اوقات سرخ رہتی ہیں اور ان میں خارش بھی ہوتی رہتی ہے۔ ایسے لوگوں میں کسی الرجی کا چانس زیادہ ہوتا ہے جس کی بروقت نشاندہی ضروری ہے۔
پاکستان میں نو‘ دس ماہ گرمیوں کا موسم رہنے لگا ہے اور گرمی کی شدت میں بھی ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق دھوپ والے چشموں کا نہ پہننا انتہائی سنگین غلطی ہے۔ چشمہ آنکھوں کو سورج کی مضر شعاعوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ سورج کی شعاعیں نوعمری میں موتیا کے مرض کی وجہ بھی بن سکتی ہیں۔ موتیا کی بیماری میں آنکھوں کے سفید حصے پر بافتوں کی نشوونما ہوتی ہے جو بینائی کو متاثر کرتی ہے۔ اس لیے ایسے چشمے کا انتخاب کرنا بہتر ہے جو شعاعوں کو روکنے میں مدد کرے۔ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ آنکھوں کا مَلنا بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے اور ایسا کرنے سے آنکھوں میں جلن ہو سکتی ہے جس سے خون کی نالیاں تلف ہونے کا خدشہ ہے لہٰذا جب بھی آنکھوں کو چھونا ہو‘ ہاتھوں کا دھونا اور صاف ہونا ضروری ہے۔
کمپیوٹر، ٹیبلٹ، موبائل فون کی سکرین کے زیادہ قریب ہونا بھی غلط ہے۔ مناسب فاصلہ ازحد ضروری ہے۔ آج کل تو موبائل فون اور لیپ ٹاپس میں سکرین کی روشنی کو کم کرنے والا حفاظتی فیچر بھی آ رہا ہے۔ اسے ہمیشہ آن رکھنا چاہیے۔ بعض لوگ آنکھوں کو خوشنما بنانے یا نظر کے لیے بھی لینز لگانے کے شوقین ہوتے ہیں حالانکہ عینک سے اچھا بھلا کام چل رہا ہوتا ہے لیکن لوگ عینک کی الجھن کی وجہ سے اور بعض اوقات دیکھا دیکھی میں چہرے کی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے عینک کے بجائے لینز لگانے کو ترجیح دیتے ہیں لیکن لینز کی صفائی کی طرف دھیان نہیں دیتے۔ آنکھوں کی حفاظت کے لیے لینز کو پابندی سے صاف کرتے رہنا چاہیے۔ لینز کے صفائی کے لیے ایک خاص محلول ملتا ہے۔ کچھ لوگ پیسے بچانے کے لیے پانی کا استعمال کرتے ہیں جو لینز کو خراب بھی کر سکتا ہے۔ لینز کو مناسب پیکنگ میں رکھنا چاہیے اور سونے سے قبل اتار لینا چاہیے۔ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جن کی بینائی کمزور ہو رہی ہوتی ہے لیکن وہ اسے نظر انداز کرتے رہتے ہیں اور جان بوجھ کر نظر کے چشمے نہیں لگاتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید ایسا کرنے سے وہ کوئی بہادری دکھا رہے ہیں لیکن انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ بینائی میں نہایت تیزی سے کمزوری آتی ہے اور پھر اچانک انہیں کسی بڑے نمبر کی عینک پر جانا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے اس حوالے سے بے احتیاطی اور لاپروائی نہیں برتنی چاہیے۔ ایک اور بات جس کی پروا نہیں کی جاتی‘ وہ کم روشنی میں پڑھنا لکھنا ہے۔ اس سے بھی بینائی متاثر ہوتی ہے کیونکہ آنکھیں کم روشنی میں زیادہ زور لگاتی ہیں اور یوں خلیے کمزور ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح سگریٹ نوشی کی عادت بھی ترک کرنی چاہیے کیونکہ اس سے دیگر لوگوں اور جسم کے دیگر اعضا کے ساتھ ساتھ انسان اپنی آنکھوں کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہا ہوتا ہے۔
سکرین ٹائمنگ کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ والدین‘ اساتذہ اور بچے تینوں اس مسئلے کے حل کے لیے ایک پیج پر آئیں۔ بچوں کے لیے ایسی پُرکشش سرگرمیاں ہونی چاہئیں جن کو اختیار کرنے کے لیے وہ جلد آمادہ ہو جائیں۔ پاکستان جیسے گرم ملک میں بچوں کے لیے باہر جا کر کھیلنا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں اِن ڈور گیمز شروع کی جا سکتی ہیں۔ یوگا ‘سٹریچنگ اور دیگر جسمانی مشقوں کے ذریعے بچوں اور بڑوں کو صحت مند بنانے کی کوشش کرنی چاہیے اور سب سے بڑھ کر ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم نے سوشل میڈیا کو کتنا وقت دینا ہے کیونکہ وہاں تو لامحدود مواد موجود ہے لیکن ہمیں زندگی‘ وقت اور صحت جیسی نعمتیں لامحدود نہیں ملیں۔ زندگی کے اس مختصر سفر کو بہتر انداز میں گزارنا ہی دانش مندی ہے۔