"ACH" (space) message & send to 7575

اپنا اپنا سچ‘ اپنے اپنے حقائق

آج پھر سے ملک اُسی ہیجان کا شکار ہے جو آج سے تیس‘ پینتیس برس قبل ملک کے منظر نامے پر حاوی تھا۔ تب دو پارٹیاں آپس میں گتھم گتھا تھیں۔ تب مسلم لیگ حکومت میں آتی تو اس کی اداروں سے محاذ آرائی شروع ہو جاتی اور یہ جماعت حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھتی۔ پیپلزپارٹی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا رہا۔ یہ حکومت میں آتے ہی سیاہ و سفید کی مالک بن جاتی اور کرپشن کی نئی نئی داستانیں رقم ہونے لگتیں جس پر ملک کے صدر کو اسمبلیاں توڑنا پڑتیں اور یہ پارٹی حکومت سے نکالی جاتی تو سڑکوں پر آ جاتی۔ مسلم لیگ کو 1996-97ء میں یہ زعم تھا کہ اسے دو تہائی اکثریت مل گئی ہے اس بار وہ جو چاہے‘ کرے گی اور کوئی روک ٹوک نہیں ہو گی، اسی زعم میں اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے پرویز مشرف جیسے ایک جونیئر افسر کو منتخب کیا حالانکہ وہ سنیارٹی میں سب سے پیچھے تھے۔ پارلیمانی اکثریت کے سبب وہ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ اب جمہوریت اور اداروں پر ان کا تسلط قائم ہو گیا ہے لیکن صرف دو سال بعد ہی ان کا سارا پلان چوپٹ ہو گیا اور موصوف وزیراعظم ہائوس سے سیدھا اڈیالہ جیل جا پہنچے۔آج بھی وہی سرکس چل رہا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اقتدار کی اس دوڑ میں اب ایک اور پارٹی کا اضافہ ہو گیا ہے۔ البتہ کھیل وہی ہے؛ تاہم اس سارے کھیل میں ملک کہاں پر کھڑا ہے‘ معیشت کے ساتھ کتنا کھلواڑ ہو رہا ہے‘ عوام بالخصوص بچوں اور نوجوانوں کے لیے کیسا ماحول بنایا جا رہا ہے‘ ان کا مستقبل کیا ہو گا‘ ان باتوں کی کسی کو فکر نہیں ہے۔ اس بارے کوئی بھی نہیں سوچ رہا۔ زبان سے سبھی عوام اور ملک کی تقدیر بدلنے کے دعوے کرتے ہیں مگر عملاً سبھی اپنے اپنے اقتدار کے خواہش مند ہیں۔ ویسے یہ وعدے اوربڑے بڑے دعوے بھی اب سیاسی و انتخابی فیشن بنتے جا رہے ہیں۔ یعنی الیکشن سے قبل ہر جماعت دو‘ چار لمبی لمبی چھوڑ دیتی ہے اور اس کے بعد ان پر عمل ہوتا ہے یا نہیں‘ اس کی کسی کو پروا نہیں۔
پیپلزپارٹی نے روٹی‘ کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا اور اقتدار میں آ کر یہ تینوں چیزیں عوام سے واپس لے لیں۔مسلم لیگ ملک کو ایشین ٹائیگر بناتے بناتے ڈیفالٹ کے دہانے پر لے گئی۔ تحریک انصاف نے تبدیلی کا نعرہ لگایا اور ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر دینے کا وعدہ کیا مگر اس چکر میں رہا سہا روزگار اور رہائش بھی مہنگی اور پہنچ سے دُور کر دی۔ کورونا کے دور میں تعمیراتی صنعت کو چھوٹ دینے سے چند بڑے افراد کو فائدہ پہنچا اور انہوں نے اس دوران خوب کمایا مگر عام آدمی کے لیے زمین؍ پلاٹ خریدنا اور گھر بنانا مشکل سے مشکل تر ہو گیا۔ اگرچہ اس کے دور میں کچھ بہتر اقدامات بھی ہوئے جیسے کہ پرائم منسٹر شکایت پورٹل ایک اچھا اقدام تھا۔ اسی طرح صحت کارڈ کا منصوبہ تو گیم چینجر تھا لیکن ایسے چند اقدامات تو ہر سیاسی جماعت کی حکومت میں ہوتے رہے ہیں۔ بعض پروگراموں کو نئے ناموں سے بھی شروع کر دیا جاتا ہے۔ ہر حکومت کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ عوام کو ایسا کچھ دکھائے جس سے ان کی تسلی و تشفی ہو؛ تاہم ایسے اقدامات دیرپا نہیں ہوتے۔ دیکھا جائے تو مسلم لیگ نواز اور تحریک انصاف کے ادوار پیپلزپارٹی سے قدرے بہتر تھے۔ پیپلزپارٹی کا ابتدائی دور البتہ شاندار تھا اور ذوالفقار علی بھٹو کے چند اقدامات کو آج تک ان کے حریف بھی سراہتے ہیں جیسے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینا‘ ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنا‘ اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد وغیرہ۔ البتہ یہ بھی درست ہے کہ بھٹو حکومت سے کچھ غلطیاں بھی ہوئیں لیکن چند ایک اچھے اقدامات بعد میں ملک کے لیے انتہائی فائدہ مند ثابت ہوئے؛تاہم پیپلزپارٹی کے بعد کے تمام ادوار مایوس کن تھے۔بے نظیر بھٹو اپنے والد کی پھانسی کے بعد عوام میں آئیں تو انہیں ہمدردی کا ووٹ بھی مل گیا لیکن وہ کوئی بھی قابلِ قدر کارنامہ سرانجام نہ دے سکیں اور ان کی حکومت دو‘ ڈھائی سال ہی چل سکی۔ اس کے بعد وہ دوبارہ ایک بار پھر اقتدار میں آئیں مگر دوسری بار ان کی حکومت دو سال بھی نہ چل سکی۔ کرپشن کے لاتعداد الزامات پیپلز پارٹی کے سیاسی تنزل کی وجہ بنے۔ پیپلزپارٹی کے سبھی ادوار میں بہرحال ایک چیز مشترک تھی اور وہ تھی سرکاری اداروں میں اندھا دھند سیاسی بھرتیاں۔ پھر وہ چاہے سٹیل ملز ہو‘ پی آئی اے ہو یا دیگر ادارے‘ جس طرح اندھا اپنوں میں ریوڑیاں بانٹتا ہے‘ اسی طرح اپنے ورکروں کو نوکریاں دی گئیں اور یہ بھی نہیں دیکھا گیا کہ متعلقہ امیدوار اس کا اہل ہے بھی یا نہیں۔ اگر اتنا ہی دیکھ لیا جاتا تو بات کچھ نہ کچھ بن جاتی لیکن سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہونے والے افراد معیشت کی کشتی پر بوجھ بن گئے اور جب کبھی اس کشتی کو بچانے کے لیے انہیں نکالنے کی کوشش کی جاتی‘ یہ سراپا احتجاج بن جاتے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ یہ تمام سرکاری ادارے آج بھی سفید ہاتھی اور ڈوبتے جہاز بنے ہوئے ہیں کیونکہ ان پر ضرورت سے زیادہ افراد سوار ہیں اور زیادہ تر اپنے عہدوں کے قابل بھی نہیں ہیں۔
مسلم لیگ نواز کے ادوار میں کئی ترقیاتی اقدامات ہوئے۔ موٹر ویز کا جال بچھایا گیا‘ اس کے ادوار میں مجموعی طور پر روپے کی قدر مستحکم رہی اور گزشتہ دور میں ای گورننس کو جس طرح پنجاب میں لاگو کرنے کی کوشش کی گئی وہ بھی ایک اہم قدم تھا لیکن اس جماعت کی قیادت کی زیادہ تر توجہ دیگر ممالک میں اثاثے بنانے اور اپنے کاروبار کو پھیلانے پر رہی۔ مذکورہ تمام ادوار میں پاکستان نے آبادی کے معاملے میں تیز ترین رفتار سے ترقی کی جبکہ معاشی گراف انتہائی سست روی کا شکار رہا۔ اس دوران چند لاکھ یا چند کروڑ آبادی والے ملک جیسے کہ سنگاپور‘ ملائیشیا‘ متحدہ عرب امارات اور بنگلہ دیش وغیرہ کہاں سے کہاں پہنچ گئے لیکن ہماری ایکسپورٹ ہر سال ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے سرکتی رہی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج بھی ہم ایک‘ دو ارب ڈالر کے لیے آئی ایم ایف کے قدموں میں گرنے پر مجبور ہیں اور اس کی کڑی شرائط ہمارے گلے کا طوق بن چکی ہیں۔
بنگلہ دیش کی آبادی سولہ کروڑ ہے۔ اس کی ایکسپورٹس چالیس ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں جبکہ ہماری بمشکل اٹھارہ‘ بیس ارب ڈالر ہی ہو پاتی ہیں اور وہ بھی بحران کے دنوں میں کم ہو کر آٹھ‘ نو ارب ڈالر تک آ جاتی ہیں اور ہمیں ایک ایک ارب ڈالر کے لیے دوست ممالک اور آئی ایم ایف کی منتیں کرنا پڑتی ہیں۔ کینیڈا جیسا ملک‘ جو رقبے میں پاکستان سے دس گنا بڑا اور آبادی کے لحاظ سے ہم سے چھ گنا چھوٹا ہے‘ وہ بھی دنیا کی دسویں بڑی معیشت بن چکا ہے۔ نجانے ہمارے ہاں وہ کون سے مسائل ہیں جو اداروں اورسیاسی جماعتوں سے حل ہی نہیں ہو پاتے۔ایسا لگتا ہے کہ ہر کسی کا اپنا اپنا سچ ہے‘ اپنے اپنے مفادات ہیں۔ کوئی بھی دوسرے کی بات کو سننے اور سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ ایک سیاسی جماعت کے دورِ حکومت میں اگر مہنگائی کی لہر آتی ہے تو وہ اسے عالمی حالات کا شاخسانہ قرار دیتی ہے کہ عالمی منڈی میں قیمتیں بڑھ رہی ہیں مگر جب وہی جماعت اقتدار سے نکل کر خود اپوزیشن میں آتی ہے تو برسرِاقتدار جماعت کو مہنگائی پر نشانہ بنانے لگتی ہے حالانکہ اس وقت پوری دنیا میں معاشی بحران عروج پر ہے اور ورلڈ بینک جیسے عالمی اداروں کی جانب سے آئندہ سال یعنی 2023ء کو ری سیشن (کساد بازاری) کا سال قرار دیا جا رہا ہے لیکن ہمارے ہاں رواج مختلف ہے۔ جس کو جو تنقید جس وقت سُوٹ کرتی ہے‘ وہ دوسرے پر کرنے لگتا ہے۔ پی ٹی آئی کے دور میں مہنگائی اور پٹرول کی قیمت میں اضافہ پی ڈی ایم کی نظر میں حکمران جماعت کی ناقص کارکردگی کا نتیجہ تھے لیکن آج جب ان کے اپنے دور میں مہنگائی کا گراف اور پٹرولیم قیمتیں بڑھی ہیں تو اسے عالمی بحران کے اثرات کا اثر قرار دیا جا رہا ہے، یعنی معاملہ دونوں طرف ایک جیسا ہی ہے۔ کوئی بھی حقائق کو سچ کی عینک سے دیکھنے کو تیار نہیں۔ ہر کسی کے پاس اپنا اپنا بیانیہ اور اپنے اپنے حقائق ہیں اور اس رویے کا نقصان کسی سیاسی جماعت کو نہیں بلکہ معیشت اور عوام بالخصوص نوجوان نسل کو ہو رہا ہے جس نے آگے چل کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔سیاسی جماعتوں کو تو وقتی نقصان ہوتا ہے اور وہ موقع ملتے ہی دوبارہ پائوں پر کھڑی ہو جاتی ہیں‘ سیاستدانوں کو بھی دوبارہ بڑے بڑے عہدے مل جاتے ہیں لیکن ملکی معیشت کو جو نقصان پہنچتا ہے اس کا مداوا اگلے کئی عشروں تک بھی نہیں ہو پاتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں