اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) اور موسمیاتی اثرات کو جانچنے والی لیب نے خبردار کیا ہے کہ اگر فضا میں کاربن گیسوں کا اخراج اسی رفتار سے جاری رہا تو پاکستان سمیت دنیا کے کچھ حصوں میں انسانی صحت پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کینسر سے دوگنا مہلک ہوسکتے ہیں۔ ادارے نے پاکستان کے شہر فیصل آباد کی مثال دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ فیصل آباد شہر میں اب سے لے کر 2039 ء کے درمیان موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہر سال ہر ایک لاکھ افراد میں سے اوسطاً 36 لوگوں کی اموات ہوں گی اور اگر ماحول کو بہتر بنانے کی کوششیں نہ کی گئیں تو موسمیاتی تبدیلی سے متعلق سالانہ اموات کی شرح تقریباً دوگنا تک ہوسکتی ہیں جو وسط صدی تک 67 اموات فی ایک لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ یہ اضافہ تقریباً اتنا ہی مہلک ہے جتنا کہ فالج‘ جو اس وقت پاکستان میں موت کی تیسری بڑی وجہ ہے۔ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہ صرف موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کرنے بلکہ ان کے نتائج کو اپنانے کے لیے تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کے اس انکشاف کے بعد ہمیں یہ معلوم ہو جانا چاہیے کہ ہمارے ملک کے حقیقی ایشوز کون سے ہیں‘ ہمیں کن خطرات کا سامنا ہے اور کیا ہم ان کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان ان ممالک میں سے ہے جن کے پاس ایسے مسائل کے حل کے لیے خاطرخواہ بجٹ بھی موجود نہیں۔ صنعتوں کو نئی ٹیکنالوجی پر منتقل کرنا آسان کام نہیں اور نہ ہی یہ کام خطیر رقم خرچ کیے بغیر ممکن ہے۔ اسی طرح روایتی ایندھن کی جگہ الیکٹرک گاڑیاں متعارف کرانا بظاہر خوش کن نظر آتا ہے لیکن اس کے لیے انفراسٹرکچر بھی درکار ہے جس پر اربوں ڈالر خرچ آئے گا اور پاکستان عالمی سپورٹ کے بغیر اس طرح کے اقدامات کا متحمل دکھائی نہیں دیتا؛ تاہم بہت سے کام ایسے ہیں جن کو کرنے سے فضائی آلودگی میں کچھ نہ کچھ کمی ضرور ہو سکتی ہے اور ان کاموں کے لیے زیادہ پیسہ بھی درکار نہیں۔ بہت سے معاملات میں عوام کو آگاہی دینے سے بھی مسائل میں کمی آ سکتی ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ایسے ایشوز پر تبھی توجہ دیتے ہیں جب ان کا شور اٹھتا ہے۔ بالخصوص اکتوبر‘ نومبر میں کہ جب یہ خطہ سموگ کی لپیٹ میں آ جاتا ہے اور فضا میں سانس لینا تک دشوار ہو جاتا ہے‘تبھی انسدادِ سموگ اور ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ بھارتی و مقامی کسان گندم کی باقیات جلانے سے باز نہیں آتے اور یہ دو‘ تین ماہ بالخصوص پنجاب کے کئی شہروں اور شہریوں کے لیے عذاب بن جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب ہم عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات کا سامنا کر رہے ہیں تو کیا انفرادی طور پر ممالک‘ ریاستوں یا شہروں کی طرف سے کاربن کے اخراج کو کم کرنے کی کوششوں سے واقعی کوئی فرق پڑے گا اور کیا یہ کوششیں باقاعدہ پلاننگ کے تحت نہیں کی جانی چاہئیں تاکہ ان کے بہتر اور دوررس اثرات مرتب ہو سکیں؟
دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں کا جائزہ لینے اور ان پر کارروائی کی منصوبہ بندی کے لیے ہر سال سی او پی کے نام سے ایک عالمی کانفرنس منعقد کی جاتی ہے۔ اس سال یہ کانفرنس شرم الشیخ مصر میں منعقد ہوئی جہاں پاکستان کی طرف سے وزیراعظم شہباز شریف شرکت کے لیے پہنچے۔ یہ کانفرنس کا 27 واں اجلاس تھا۔ یہ سالانہ اجلاس کنونشن کے 198 ممبران کو اکٹھا کرتا ہے تاکہ ماحولیاتی تبدیلیوں پر ٹھوس کارروائی کی جا سکے۔ سربراہی اجلاس اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی27ویں کانفرنس (COP-27) کے ایک حصے کے طور پر ہو رہا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اس کانفرنس میں اعلیٰ سطحی تقاریب بشمول اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی ایگزیکٹو ایکشن پلان کے ابتدائی وارننگ سسٹمز کے آغاز کے لیے گول میز کانفرنس اور''مڈل ایسٹ گرین انیشی ایٹو سمٹ‘‘جس کی میزبانی سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیر اعظم محمد بن سلمان نے کی‘ میں بھی شرکت کی۔ COP اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج (UNFCCC) کے تحت فیصلہ سازی کا سب سے بڑا ادارہ ہے، جو موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے اجتماعی کوششوں کا جائزہ لینے اور انہیں آگے بڑھانے کے لیے سالانہ بنیادوں پر اجلاس منعقد کرتا ہے۔ ایک اہم سٹیک ہولڈر کے طور پر‘ پاکستان عالمی موسمیاتی تبدیلی پر بحث، مذاکرات اور اجتماعی کارروائی میں مثبت کردار ادا کرتا رہے گا۔ یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں منعقد ہوا جب پاکستان میں سوا تین کروڑ سے زائد افراد اور دنیا کے دیگر حصوں میں بھی لاکھوں‘ کروڑوں لوگ موسمیاتی تبدیلی کے شدید منفی اثرات کا سامنا کر رہے ہیں۔ پاکستان تو اس سال سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث بری طرح متاثر ہے اور یہ سیلاب موسمیاتی تبدیلیوں کا ہی شاخسانہ تھا۔ سیلاب کے باعث تین کروڑ سے زائد افراد براہِ راست متاثر ہوئے اور ملک کا لگ بھگ ایک تہائی حصہ زیرِ آب آ گیا۔
اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس سیلاب کی تباہی دیکھنے پاکستان آئے تو انہوں نے یہ باور کرایا کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور اس کی ذمہ داری کے حوالے سے پاکستان کے لوگ 'سخت ناانصافی کا شکار ہیں‘۔ مسٹر انتونیو گوتریس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو بتایاکہ دنیا بھر میں گرین ہاؤس گیسوں کے مجموعی اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن یہ 'انسان کے ہاتھوں رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کی بہت بھاری قیمت ادا کر رہا ہے‘۔ اس تمام معاملے میں موسمیاتی بحران کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ سی او پی 27 کا انعقاد اس معاملے کو سلجھانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے لیکن محسوس ہوتا ہے کہ دنیا الٹی سمت میں چل رہی ہے۔ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافہ ہو رہا ہے جس کے ساتھ موسمیاتی آفات بھی بڑھ رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے سربراہ نے چند ماہ قبل زور دے کر کہا کہ سی او پی 27 میں ان رحجانات کا رخ موڑنا ہو گا۔ کانفرنس میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے مطابقت اختیار کرنے اور ان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے درکار ضروری مالی وسائل کی فراہمی کے لیے واضح اقدامات کرنا ہوں گے۔ خاص طور پر دولت مند ممالک پر پاکستان جیسے ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں شدت اختیار کرتی قدرتی آفات سے مطابقت اختیار کرنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے مدد دینے کی اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اس طرح کی موسمیاتی تباہی کا باعث بننے والی 80 فیصد گرین ہاؤس گیسیں جی20 ممالک خارج کرتے ہیں‘اس حساب سے ان کی ذمہ داری بھی اتنا ہی زیادہ بنتی ہے۔ اقوام متحدہ کے پہلے موسمیاتی مذاکرات کا انعقاد 1995ء میں جرمنی کے شہر برلن میں کیا گیا تھا۔ اس اجلاس میں شریک ممالک نے پیرس معاہدے کی منظوری دی تھی۔ یہ ایک تاریخی معاہدہ تھا جس کے تحت ہر ملک کو جدید صنعتی دور سے قبل کی سطح کے مقابلے میں گلوبل وارمنگ کو2 ڈگری سیلسیس سے کم رکھنے کی اجتماعی کوشش اور موافقت کے اقدامات پر اقدامات کا یقین دلانا تھا۔ انہوں نے درجہ حرارت کو1.5 ڈگری سیلسیس کے اندر رکھنے کا ہدف بھی مقرر کیا۔
دیکھا جائے تو انسان کے اپنے ہاتھ سے فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج خطرناک سطح پر پہنچ رہا ہے، جس سے زمین کا درجہ حرارت بلند ہو رہا ہے اور موسمی سانحات کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام ممالک اس کانفرنس کے ذریعے اکٹھے ہوئے ہیں؛ تاہم اس حوالے سے جی ٹونٹی ممالک کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے۔ عالمی ماحولیاتی خرابیوں میں پاکستان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے اور اس کی تصدیق سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ بھی کر چکے ہیں۔ پاکستان نے امسال سیلاب سے جتنی تباہی سمیٹ لی ہے‘ وہ مزید کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ا س میں اتنی سکت نہیں کہ اگلے سال وہ پھر ایسی کسی تباہی کا بوجھ اٹھا سکے۔ میڈیا سمیت ہر ادارے کو ایسے موضوعات پر زیادہ سے زیادہ بات کرنا ہو گی تاکہ یہ مسئلہ دنیا کی بھرپور توجہ حاصل کر سکے۔