ایک اور نوجوان گلے پر ڈور پھرنے سے جان کی بازی ہار گیا۔ یہ اتوار کا دن تھا اور شہریوں کی بڑی تعداد اس روز باہر سے ناشتہ کرتی ہے۔ لاہور کا اٹھارہ سالہ شہزاد موٹر سائیکل پر اپنے دوست کے ہمراہ ناشتہ لینے کے لیے نکلا کہ یتیم خانہ چوک کے قریب ملتان روڈ پر اچانک اس کے گلے پر قاتل ڈور کی چھریاں چلنے لگیں اور کچھ ہی دیر میں تڑپتا ہوا وہ جان کی بازی ہار گیا۔ عملاً پنجاب میں پتنگ بازی پر پابندی عائد ہے لیکن نہ قاتل شیشہ ڈوریں بنانے والے باز آتے ہیں نہ ہی اس ڈور کو خرید کر لوگوں کے گلے کاٹنے والوں کو کوئی پروا ہے کہ وہ اپنے شوق کو پورا کرنے کی خاطر کتنی مائوں سے ان کے بیٹوں کو جدا کر دیتے ہیں‘ کتنے بچوں کو یتیم بنا دیتے ہیں اور کتنوں کے سہاگ اجاڑ دیتے ہیں۔ اس معاملے کا تیسرا فریق پولیس ہے جس کی ذمہ داری اپنے اپنے علاقوں میں پتنگ بازی کو روکنا ہے لیکن وہ بھی اپنے فرائض کی انجام دہی میں ناکام ہو چکی ہے۔ جب بھی کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے اور میڈیا میں خبریں آنے پر اعلیٰ حکومتی شخصیات اور پولیس افسران نوٹس لیتے ہیں تو متعلقہ ایس ایچ اوز کی دوڑیں لگ جاتی ہیں‘ یہ کارکردگی دکھانے کے لیے چھاپے مارنا شروع کر دیتے ہیں اور سانحے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے چند ایک گرفتاریاں بھی ڈال دیتے ہیں۔ میڈیا میں جب تک معاملہ اٹھایا جاتا ہے‘ پولیس کی پھرتیاں دیدنی ہوتی ہیں‘ معاملہ دبتے ہی پولیس افسران بھی اپنے معمول پر آ جاتے ہیں اور یوں آئے روز راہ چلتے لوگوں کے گلے کٹنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
گزشتہ دورِ حکومت میں جب ایسے پے درپے واقعات ہوئے تو صوبائی حکومت نے حکم جاری کیا تھا کہ جس علاقے میں گلے پر ڈور پھرنے کا واقعہ پیش آیا تو اس علاقے کے تھانے کا ایس ایچ اوذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ یہ حکم ڈور بنانے اور پتنگ اڑانے والوں کا بال بھی بیکا نہ کر سکا۔ چند ماہ قبل ڈولفن پولیس‘ جس کا کام ہی موٹر سائیکل پر پھرنا ہوتا ہے‘ کا ایک اہلکار بھی گلے پر ڈور پھرنے سے جاں بحق ہو گیا تھا۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ پولیس کا زور بھی عام شہریوں پر چلتا ہے پھر وہ چاہے وہ ٹریفک پولیس ہی کیوں نہ ہو۔ کیا یہ ممکن ہے کہ قاتل ڈور بنانے والوں کے بارے میں متعلقہ علاقے کے تھانے کو علم نہ ہو؟ ہر ایس ایچ او اپنے علاقے کے چپے چپے میں ہونے والی سرگرمیوں سے بخوبی واقف ہوتا ہے۔ وہ چاہے تو اپنے علاقے کے ایسے تمام افراد کو قانون کے کٹہرے میں لا سکتا ہے جو اس گھنائونے کاروبار میں ملوث ہیں۔ یہ کوئی ایسا مشکل کام نہیں ہے اور پولیس کے لیے تو بالکل بھی نہیں۔ ایک عام آدمی‘ جس نے شیشہ ملی ڈور خریدنی ہے‘ جب وہ ایسے دکانداروں تک پہنچ سکتا ہے تو پولیس کیوں نہیں؟ اگلا قدم ایسے افراد کو قانون کے کٹہرے میں لانا اور سخت سزا دلوانا ہے مگر یہاں آ کر بھی ہمارا نظام ہاتھ کھڑے کر دیتا ہے۔ یہ عجیب معاشرہ ہے کہ جس میں ہر بڑے ڈاکو اور چور کو سٹے آرڈر مل جاتا ہے۔ ایسے زیادہ تر واقعات میں چونکہ ملزم سامنے نہیں ہوتا‘ اس لیے نامعلوم افراد کے خلاف پرچہ درج کیا جاتا ہے جس کی بعد میں اگر درست خطوط پر تحقیقات نہ ہوں تو یہ پرچہ محض کاغذ کا ایک ٹکرا بن کر رہ جاتا ہے۔
یہ درست ہے کہ پولیس کے پاس ایسے ذرائع نہیں کہ وہ ہوا میں اڑنے والی ڈور کا دوسرا سرا تلاش کر کے قاتل کو جا دبوچے لیکن اپنے اپنے علاقوں میں پولیس یہ پیغام تو پہنچا ہی سکتی ہے کہ جس بھی گھر سے پتنگ بازی کی گئی اور قاتل ڈور استعمال ہوئی‘ ایسے ملزمان کی ضمانت بھی نہیں ہو سکے گی اور ایسے تمام کیسز کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ ہر علاقے میں مساجد کے ذریعے یہ اعلانات کیے جانے چاہئیں۔ جمعہ کے خطبات میں بھی باقاعدہ طور پر اس نکتے پر لوگوں کی تربیت کا اہتمام کیا جانا چاہیے کہ دین صرف حقوقِ الٰہی کا نام نہیں بلکہ حقوق العباد کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے۔ ہمارے ہاں لوگ عبادات کا تو خوب اہتمام کرتے ہیں لیکن ملاوٹ‘ ناپ تول میں کمی اور ذخیرہ اندوزی جیسے برائیوں کو برا نہیں سمجھتے۔ منافقت اسے ہی کہتے ہیں کہ آپ کو جو سمجھایا جاتا ہے‘ آپ سنتے ہیں اور آگے بھی بتاتے ہیں لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتے۔
منافقت سے میرا پہلا تعارف سکول کے زمانے میں ہی ہو گیا تھا۔ میں نے دیکھا وہی کریانے والا‘ جو ہر دوسرے سال حج یا عمرہ کرنے جایا کرتا تھا‘ چینی‘ آٹا اور گھی گودام میں رکھ کر سٹاک کر کے مہنگے داموں بیچتا تھا۔ شیدا قصائی‘ جو مردہ جانور ذبح کرتا‘ اس میں پانی بھرتا اور اسے 'تازہ‘ گوشت کہہ کر بیچتا تھا۔ بھولی دودھ والا پانی میں دودھ اور دودھ میں پائوڈر ملا کر 'خالص دودھ‘ تیار کرتا اور بیچتا تھا۔ جیدا مستری گاڑیوں سے اصل پرزے نکال کر ان کی جگہ پرانے پرزے لگا دیتا تھا‘ میں نے ان سب کو لوگوں کو جمعہ کی نماز میں ایک ساتھ کھڑے دیکھا۔ خدا کے حضور ان کے کندھے جھکے ہوتے‘ نگاہیں شرمندہ ہوتیں اور قدم لرزیدہ ہوتے لیکن مسجد سے باہر آ کر یہ سب دوبارہ اپنی اپنی ڈیوٹیاں سنبھال لیتے۔ کریانے والا چینی‘ آٹے اور گھی کی مزید بوریاں گودام میں سٹاک کیلئے بھجوا دیتا‘ شیدا قصائی مردہ جانور ذبح کرنا شروع کر دیتا‘ بھولی پانی کا پائپ بھینس کے منہ سے لگا دیتا اور جیدا مستری گاڑی کا جینوئن پرزہ چوری کرتا اور اس کی جگہ ہلکا پرزہ لگا دیتا۔ اس دونمبری سے اسے دو فائدے ہوتے تھے۔ ایک تو یہ کہ وہ جینوئن پرزے مہنگے داموں بیچ دیتا تھا، دوسرا یہ کہ ناقص پرزے زیادہ دیر نہ چلنے پر گاڑی دوبارہ اس کی ورکشاپ میں مرمت کے لیے آ جاتی تھی اور یوں اس کی دیہاڑی چلتی رہتی تھی۔
پنجاب میں انسدادِ پتنگ بازی کے لیے ڈرون کیمروں کی بھی مدد لی جاتی ہے مگر دیکھا گیا ہے کہ مستقل اور مسلسل نگرانی کے بجائے دو‘ چار مہینوں بعد کسی دن ڈرون اڑا کر پتنگ بازی کرنے والے سبھی افراد کو گرفتار کر لیا جاتا ہے اور اپنی کارکردگی کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے کہ پچھلے چند مہینوں میں اتنے افراد کو گرفتار کیا گیا۔تقریباً سبھی افراد کو فوری ضمانت مل جاتی ہے۔ نتیجہ وہ ڈھاک کے تین پات۔ آئندہ قاتل ڈور سے کسی کی شہ رگ نہ کٹے‘ اس کی ذمہ داری والدین پر بھی ہے‘ اساتذہ اور محلہ داروں پر بھی لیکن جن کے پاس طاقت ہے وہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ہیں۔ محلے والے کسی قاتل ڈور بنانے والے شخص کی نشاندہی کر بھی دیں تو اسے پکڑنا پولیس کا کام ہے اور اسے سزا دینا عدالت کا کام۔ خدا نے وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کو دوبارہ یہ اہم منصب عطا کیا ہے۔ گزشتہ دو تین ماہ میں انہوں نے جتنے کام کیے ہیں‘ وہ گزشتہ کئی وزرائے اعلیٰ کے پورے ادوار سے بھی زیادہ ہیں۔ ان کا شروع کردہ ریسکیو ایمبولینس سروس کا منصوبہ اب پنجاب کے کونے کونے میں پھیل چکا ہے اور ایک لاوارث شخص کے لیے بھی کوئی ہیلپ لائن پر فون کر دے تو ایمبولنس اسے لینے آ جاتی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب سے مودبانہ گزارش ہے کہ اس معاملے کا بھی نوٹس لیں اور اس معاشرتی ناسور کے مکمل خاتمے کا بیڑہ اٹھائیں۔ اگر کہیں نئی قانون سازی کی ضرورت ہے تو وہ کی جائے‘ ہرعلاقے میں محلہ کمیٹیاں بنائی جائیں‘ قاتل ڈور بنانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور چھاپے مارے جائیں۔ ان کے بارے میں اطلاع دینے والوں کو انعام دیا جائے‘ کسی علاقے میں ایسا سانحہ ہونے پر ایس ایچ او کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور پولیس کو دیے گئے ڈرون کیمروں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تاکہ وہ سیڑھیاں لگا کر چھاپے مارنے کے بجائے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے دیکھ سکیں کہ کس گھر میں کون پتنگ اڑا رہا ہے۔ یہ سب کچھ کارکردگی ظاہر کرنے اور نمبر ٹانکنے کے لیے نہیں ہونا چاہیے۔ نہ ہی نمبر پورے کرنے کے لیے بے گناہ اور معصوم لوگوں کو بلاوجہ گرفتار کیا جائے بلکہ اس بیماری کو جڑ سے ختم کرنے کا انتظام کیا جائے۔ یہ کام صوبائی حکومت کے لیے چنداں مشکل نہیں۔ بدلے میں لاکھوں‘ کروڑوں شہری اسے دل سے دعائیں دیں گے۔ سمجھ لیں یہ درخواست میں نہیں کر رہا بلکہ گزشتہ روز گلے پر ڈور پھر کر جاں بحق ہونے والے شہزاد کی وزیراعلیٰ پنجاب سے اپیل ہے۔ دعا ہے کہ پنجاب حکومت کوئی ٹھوس قدم اٹھا لے اور مقتول شہزاد ایسے سانحات کے سبب قتل ہونے والا آخری نوجوان ثابت ہو۔