قدرتی آفات کو وقوع پذیر ہونے سے روکنا ممکن نہیں ہے لیکن ان سے ہونے والے نقصانات کا کسی حد تک تدارک کیا جا سکتا ہے۔ شاید ہی کوئی ملک ہو جو قدرتی آفات سے مکمل محفوظ قرار دیا جا سکتا ہو۔کہیں زیادہ تو کہیں کم‘ موسمیاتی اثرات کا نشانہ سبھی ممالک بن رہے ہیں۔ خاص طور پر جب سے گلوبل وارمنگ اور کلائمیٹ چینج کا سلسلہ شروع ہوا ہے‘ تب سے موسموں کی ترتیب بکھر گئی ہے۔ پہلے سرما اور گرما کا ایک دورانیہ مقرر ہوتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ ایک اور فرق یہ پڑا ہے کہ گرمیوں میں زیادہ شدت کے ساتھ گرمی اور سردیوں میں زیادہ شدت کے ساتھ سردی پڑنے لگی ہے۔ اسی طرح‘ بارشیں نہ ہوں تو طویل عرصہ تک نہیں ہوتیں اور اگر ہونے لگ جائیں تو تھمنے کا نام نہیں لیتیں۔ گزشتہ برس جنوری میں مری میں ہونے والی برف باری اور اس کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والے افراد کا سانحہ ابھی تک ذہنوں سے محو نہیں ہوا۔ کبھی مری میں ایسا کچھ ہو گا‘ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا۔ اُس وقت ہمارے ادارے بھی اس کے لیے تیار نہ تھے؛ تاہم اس سال خاصے بہتر انتظامات کیے گئے تاکہ کسی بھی ممکنہ صورت حال سے نمٹا جا سکے۔
امریکہ جیسے ملک میں شاید سب سے زیادہ طوفان آتے ہیں اور بیس‘ بیس لاکھ لوگ کئی دن تک بجلی‘ پانی اور گیس سے محروم ہو جاتے ہیں؛ تاہم ایسے جدید اور ترقی یافتہ ممالک کے پاس دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے لیے سرمایہ بھی ہے اور وسائل بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال درجنوں طوفان آنے کے باوجود امریکہ کی معیشت کو اُس طرح سے فرق نہیں پڑتا جیسا پاکستان اور اس جیسے ترقی پذیر ممالک کا حال ہوتا ہے۔ یہاں تو ایک زلزلہ یا طوفان آ جائے تو معیشت کئی سال پیچھے چلی جاتی ہے۔ گزشتہ برس پاکستان میں آنے والے سیلابوں نے جس طرح تباہی مچائی‘ اس کے آفٹر شاکس ہماری معیشت کو ابھی تک برداشت کرنا پڑ رہے ہیں اور اگلے کئی برس تک یہ سلسلہ جاری رہے گا کیونکہ دنیا میں کساد بازاری کی نئی لہر کے اثرات پہلے ہی ہماری معیشت کو کچوکے لگا رہے ہیں‘رہی سہی کسر یہ سیلاب‘ بارشیں اور قدرتی آفات نکال دیتی ہیں۔
پاکستان کی معیشت پہلے ہی ڈانواں ڈول تھی کہ سیلاب رہی سہی معیشت کو بھی اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔ یہ تو بھلا ہو اقوام متحدہ‘ عالمی ڈونرز‘ تنظیموں اور ممالک کا‘ جو آگے بڑھ کر مصیبت کی اس گھڑی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں گزشتہ دنوں جنیوا کانفرنس میں وزیراعظم شہباز شریف نے سرکاری وفد سمیت شرکت کی اور دنیا کو پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے آگاہ کیا اور مالی امداد کی درخواست کی۔ پاکستان کو آٹھ ارب ڈالرز کی توقع تھی لیکن مختلف ممالک‘ عالمی بینکوں اور تنظیموں کی جانب سے غیرمعمولی رِسپانس دیکھنے کو ملا اور دوست ممالک اور عالمی امدادی اداروں کی جانب سے پاکستان کے سیلاب متاثرین کے لیے مجموعی طور پر 9.7 ارب ڈالر دینے کا اعلان کیا گیا۔ صرف اسلامی ڈویلپمنٹ بینک کی بات کریں تو اس کی جانب سے چار ارب بیس کروڑڈالر کا اعلان کیا گیا جبکہ ورلڈ بینک کی طرف سے سیلاب متاثرین کے لیے 2 ارب ڈالر اور یورپی یونین کی طرف سے 93 ملین ڈالر دینے کا اعلان کیا گیا۔ وزیراعظم شہباز شریف کے مطابق‘ پاکستان کو سیلاب سے بحالی کے لیے فوری طور پر 16 ارب ڈالر درکار ہیں؛ تاہم اس رقم کا پچاس فیصد پاکستان خود برداشت کرے گا۔ کوئی شک نہیں کہ بحالی کی کوششوں میں عالمی تعاون ناگریز ہے کیونکہ اتنے بڑے سکیل پر ہونے والے نقصانات کا ازالہ آسان نہیں ہے۔ متاثرین نے سیلاب اور پانی سے ہونے والی تباہی و بربادی کے علاوہ موسم کی سختیوں کا بھی مقابلہ کرنا ہے اور دوبارہ آباد کاری بھی ہونی ہے۔
سیلاب زدہ علاقوں میں لوگ اب تک اپنے کاروبار‘ نوکریوں اور گھر وں سے محروم ہیں۔ کئی علاقوں میں بجلی نہیں ہے۔ وبائی امراض نے الگ آفت برپا کی ہوئی ہے۔پہلے ہی یہ علاقے پسماندہ شمار ہوتے تھے‘ اب سیلاب نے انہیں عشروں پیچھے دھکیل دیا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو ہر سال ایسے کئی بحرانوں کا سامنا رہتا ہے۔ کچھ شک نہیں کہ گزشتہ سال کا سیلاب ملکی تاریخ کی بڑی آفات میں سے ایک تھا۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ مختلف علاقوں میں پانی اب بھی کھڑا ہے اور لاکھوں لوگ بے گھر ہیں۔ اگرچہ امداد کے اعلانات بھی ہوئے ہیں لیکن کام ابھی ختم نہیں ہوا، خاص طور پر سندھ اور بلوچستان کے ان حصوں میں‘ جہاں ابھی تک پانی کھڑا ہے‘ سیلابی پانی کو فوری نکالنے کی ضرورت ہے تاکہ فصلیں اگانے، گھر بنانے، بنیادی ڈھانچے کی تعمیرِ نو اور اداروں اور خدمات کی بحالی کا کام کیا جا سکے اور زرعی اراضی کو بروئے کار لایا جا سکے۔ عالمی ادارے خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ سیلاب اور مہنگائی کے سبب پاکستان میں غذائی عدم تحفظ کے شکار افراد کی تعداد 7ملین سے بڑھ کر دو گنا ہو جائے گی اور 14ملین (1 کروڑ چالیس لاکھ) سے زیادہ افراد غذائی عدم تحفظ کا شکار ہو جائیں گے۔ سیلاب متاثرہ سوا تین کروڑ لوگوں کی زندگیاں نازک موڑ پر آ کر کھڑی ہو گئی ہیں۔ گزشتہ برس کے سیلاب سے معاشی نقصانات کا تخمینہ 30 بلین ڈالر لگایا گیا جو پاکستان کی جی ڈی پی کے8 فیصد سے زیادہ ہے اور یہ 90 لاکھ افراد کو انتہائی غربت میں دھکیل رہا ہے، یہ بحالی کے حوالے سے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب کی تباہی سے نکلنے، انفراسٹرکچر کو بحال کرنے اور تیز رفتار اقتصادی ترقی کی بحالی کی صلاحیت بھی کافی حد تک آگے کے اقدامات اور ان کی رفتار پر منحصر ہوگی۔
جنیوا میں ہوئی ڈونرز کانفرنس میں اہم ترین خطاب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کا تھا۔ وہ جب بھی پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں پر کوئی بیان دیتے ہیں تو ان کے چہرے سے واقعتاً پریشانی اور دکھ کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ سیلاب کے فوراً بعد انہوں نے پاکستان کے ان علاقوں کا دورہ کیا تھا جو شدید تباہی کا شکار ہوئے تھے۔ انہوں نے سیلاب سے ہونے والی تباہی کا خود جاکر مشاہدہ کیا تھا‘ وہ متاثرہ لوگوں سے بھی ملے تھے اور ان کی حالتِ زار اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی۔کانفرنس سے خطاب میں بھی انہوں نے یہی کہا کہ پاکستان میں سیلاب سے ہونے والی تباہی کے مناظر دیکھ کر ان کا دل ٹوٹ گیا۔ انہوں نے ایک اہم بات یہ دہرائی کہ تباہ کن سیلاب کا ذمہ دار پاکستان ہرگز نہیں ہے۔ یہ بات انہوں نے اپنے دورۂ پاکستان کے دوران بھی ببانگ دہل کہی تھی اور اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات اور موسمی تبدیلیوں کا ذمہ دار پاکستان نہیں بلکہ جدید اور ترقی یافتہ ممالک ہیں۔ یہ انتہائی اہم نکتہ ہے جس پر عالمی برادری کو توجہ دینی چاہیے۔ ترقی یافتہ ممالک کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ترقی اور مسابقت کی اس دوڑ میں کسی کا نقصان تو نہیں ہو رہا۔ بظاہر دنیا مادی طور پر بہت ترقی کر رہی ہے لیکن اس کے جو نقصانات اور برے اثرات ظاہر ہو رہے ہیں ان کا نشانہ ترقی پذیر ممالک کے غریب افراد بن رہے ہیں۔صاف ہوا‘ خوراک اور پانی نایاب اور کمیاب ہوتے جا رہے ہیں۔ جنگلی اور آبی حیات ناپید ہو رہی ہیں۔ اناج کی مسلسل کمی نے خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔بڑھتی آبادی کے سبب زرعی زمینوں پر رہائشی منصوبے بن گئے تو ان میں رہنے والے دو وقت کی روٹی کہاں سے کھائیں گے کیونکہ اگانے کی تو جگہ ختم ہو چکی ہوگی۔ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ہماری ترقی کی رفتار اور سمت درست بھی ہے یا نہیں۔ اس مسئلے سے آگاہی اور حل کے لیے اقوام متحدہ کو تمام ترقی یافتہ ممالک کو ایک میز پر بٹھانا ہو گاتاکہ لانگ ٹرم منصوبہ بندی کی جا سکے۔ پاکستان جیسا ملک ایسے سیلابوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ عالمی کساد بازاری سے پہلے ہی عالمی معیشت ڈگمگا رہی ہے ایسے میں پاکستان کو زیادہ سے زیادہ عالمی تعاون کی ضرورت ہے۔ جنیوا کانفرنس میں اعلان کردہ عالمی امداد سے مسائل کچھ نہ کچھ حد تک حل ہو جائیں گے؛ تاہم ٹھوس اور جامع عالمی منصوبہ بندی کے ذریعے ہی مستقبل میں موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات اور ان کی تباہی کاریوں سے بچا جا سکتا ہے۔