دنیا میں بجلی کی طویل ترین بندش امریکہ میں 1965ء میں ہوئی تھی اور مسلسل تیرہ گھنٹے بجلی بند رہنے سے تین کروڑ سے زائد شہری متاثر ہوئے تھے؛ تاہم پاکستانیوں کے لیے بجلی کی آنکھ مچولی یا طویل بندش کوئی نئی بات نہیں۔ دیہات میں تو بجلی کا ایک دن آنا اور ایک پورے دن تک اس کی بندش کو معمول کی بات سمجھا جاتا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے گزشتہ دورِ حکومت میں اس مسئلے کے حل کے لیے کام کیا گیا اور بالآخر تحریک انصاف کی حکومت میں لوڈشیڈنگ مکمل طور پر ختم ہو گئی۔ گزشتہ روز یکدم پورے ملک میں ایک مرتبہ پھر بجلی کا طویل ترین بریک ڈائون دیکھا گیا۔ رات گئے تک کئی علاقوں میں بجلی مکمل طور پر بحال نہ ہو سکی۔ سوشل میڈیا پر طرح طرح کی میمز بننے لگیں جن میں سب سے زیادہ وائرل ہونے والی میم یہ تھی کہ آئی ایم ایف نے قسط ادا نہ کرنے پر پاکستان کا بجلی کا میٹر اتار لیا ہے۔ ایک وائرل میم یہ تھی کہ ملک کو 'ری سٹارٹ‘ کیا جا رہا ہے کہ شاید یہ چل پڑے۔
بجلی کے جانے سے جہاں ہسپتالوں اور دیگر ضروری شعبوں میں بہت زیادہ مسائل کھڑے ہوئے‘ وہاں بہت سے لوگوں نے اس طویل بریک ڈائون کو باعثِ نعمت بھی سمجھا کیونکہ آہستہ آہستہ بجلی کے بیک اَپ یعنی یو پی ایس وغیرہ بھی جواب دینے لگے اور موبائل فون اور انٹرنیٹ ڈیوائسز کی بیٹری بھی ختم ہو گئی جس کی وجہ سے وہ بچے اور گھر کے افراد‘ جو آپس میں میل جول تقریباً ترک کر چکے تھے‘ ایک مرتبہ پھر اکٹھے ہو گئے اور ایک عرصے کے بعد انہیں ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر باتیں کرنے کا موقع مل گیا۔ موبائل فون اور سوشل میڈیا کا نشہ عوام کو اتنی شدت کے ساتھ چڑھ گیا ہے کہ پانچ منٹ کے لیے انٹرنیٹ نہ ملے تو انہیں بے چینی ہونے لگتی ہے‘ نسیں پھول جاتی ہیں اور کئی لوگ تو آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔
آج کے اس جدید دور میں بجلی کی بندش گوارا نہیں کی جا سکتی کیونکہ ہر شے کسی نہ کسی طرح بجلی اور انٹرنیٹ سے جڑ چکی ہے۔ بجلی موجود ہو اور انٹرنیٹ چلا جائے تب بھی کئی افراد بالخصوص نوجوانوں کی حالت غیر ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ہر بندے نے موبائل پر کچھ دیر بعد انگلیاں مار کر اَپ ڈیٹس دیکھنا ہوتی ہیں اور یہ سب کچھ ازخود ضروری بنا لیا گیا ہے کہ دیکھا جائے کہ ٹویٹر پر آج کیا ٹرینڈ چل رہا ہے‘ کل والے ٹرینڈ پہ کتنے ٹویٹس ہوئے ہیں‘ کون وٹس ایپ پر آن لائن ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح وٹس ایپ پہ دوسروں کا سٹیٹس چیک کرنا بھی زندگی کا لازمی جُز شمار کر لیا گیا ہے۔ وٹس ایپ پر ہر شخص درجنوں گروپوں کا حصہ ہے۔ ان وٹس ایپ گروپوں میں روزانہ سینکڑوں‘ ہزاروں چیزیں شیئر کی جاتی ہیں اور اگر بندے کا دھیان نہ جائے تو نوٹیفکیشن اس جانب توجہ کھینچ لیتے ہیں کہ آپ کے فلاں دوست یا رشتہ دار کی سالگرہ ہے‘ فلاں شخص نے فلاں پوسٹ کی ہے اور اس پر آپ کے فلاں دوست نے کمنٹ کیا ہے تو لامحالہ آپ بھی کوئی نہ کوئی ری ایکشن دینے کی کوشش کرتے ہیں اور یوں آپ کا اچھا خاصا وقت انہی چیزوں سے نبرد آزما ہونے میں ضائع ہو جاتا ہے۔ ایک دن بجلی جانے سے کم از کم ان بے کار مصروفیات سے تو جان چھوٹ جاتی ہے۔ ویسے ایک ہفتے میں کم از کم ایک دن ایسا ہونا چاہیے کہ جب چند گھنٹے بجلی اور انٹرنیٹ مکمل طور پر شٹ ڈائون ہوں تاکہ گھروں‘ اداروں میں جو لوگ آپس میں میل جول ترک کر چکے ہیں‘ وہ کسی بہانے آمنے سامنے بیٹھ سکیں اور ایک دوسرے سے بالمشافہ گفتگو کر سکیں۔
دو روز قبل میرا گائوں جانا ہوا ۔ اب وہاں بھی ماحول یکسر تبدیل ہو چکا ہے۔ گائوں کے وسط میں جو ڈیرے بنے ہوئے ہیں‘ وہ آہستہ آہستہ ویران ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر کچھ لوگ وہاں جمع ہوتے بھی ہیں تو ان کے ہاتھوں سے موبائل فون چپکے ہوتے ہیں اور آپس کی گفتگو میں بھی وہ زیادہ تر ایک دوسرے کو سوشل میڈیا کی وائرل وڈیوز اور پوسٹس کے بارے میں ہی بتا رہے ہوتے ہیں۔ دیہات میں بجلی جانے کا رواج بہت پرانا ہے۔ ویسے بھی ماضی میں وہاں ہر کوئی صبح سویرے ہی اٹھ جاتا تھا اور کھیتوں اور دیگر کاموں کے لیے منہ اندھیرے نکل پڑنا ایک معمول سمجھا جاتا تھا مگر اب دیہات میں بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ کا علاج کر لیا گیا ہے۔ یو پی ایس اور سولر سسٹم عام ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے رات گئے تک جاگنا معمول بن چکا ہے حالانکہ کچھ عرصہ قبل تک اسے غیر مہذب خیال کیا جاتا تھا۔ گھروں میں نئی نسل کی ان عادات کے باعث بیشتر بزرگ پریشان رہتے ہیں۔ ان کے پاس سوائے اس بات کہ کوئی چارہ نہیں کہ یا تو وہ مسلسل انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرتے رہیں یا پھر خود بھی ان کے رنگ میں رنگ جائیں اور رات بارہ‘ ایک بجے تک دیدے پھاڑ پھاڑ کر موبائل سکرین پر انگلیاں مارتے رہیں۔
جدید ٹیکنالوجی نے لوگوں کی خوراک کی عادات کو بھی خراب کر دیا ہے۔ اب اگر رات کو گھر میں آٹا ختم ہو جائے یا گوندھا ہی نہ جائے تو بچے جھٹ سے موبائل ایپ کھولتے ہیں اور کسی فوڈ ایپ سے کھانا آرڈر کر دیتے ہیں۔ گزشتہ روز طویل بریک ڈائون نے نئی نسل سے یہ ساری سہولتیں کچھ گھنٹوں کے لیے چھین لی تھیں جس پر گھروں کے بزرگوں اور بڑوں نے یقینا سکھ کا سانس لیا ہو گا لیکن بجلی کی بحالی پر یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا ہو گا۔ بجلی جانے پر جو بچے‘ بہن بھائی‘ ہمسائے چند گھنٹوں کے لیے ایک دوسرے کے قریب آ گئے تھے‘ بجلی کے آتے ہی دوبارہ سے موبائل فون اٹھا کر ''ضروری کاموں‘‘ میں مصروف ہو گئے ہوں گے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ایسے مواقع پر کوئی یہ نہیں سوچتا کہ بعض اوقات ان مواقع کو غنیمت جانتے ہوئے ان کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے کیونکہ بجلی‘ انٹرنیٹ اور جدید آلات کے ہوتے ہوئے انسان اتنا مصروف ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی اور اپنے پیاروں کی زندگیوں کے بارے میں سوچنے کا وقت ہی نہیں نکال پاتا۔ آج کے دور میں فرصت کے لمحات کم ہی لوگوں کو میسر آتے ہیں۔ زیادہ تر لوگوں نے اپنے آپ کو مصنوعی طور پر مصروف کیا ہوا ہے۔ یہ وقت کو ضائع کرنے یا گزارنے کے لیے جو کچھ کرتے ہیں‘ اسے مصروفیت کا نام دے دیتے ہیں۔
روزانہ بیس سے تیس منٹ ایسے ہونے چاہئیں جب انسان خود سے ہر چیز کو دور کر دے۔ بجلی‘ موبائل‘ انٹرنیٹ‘ غرض ہر قسم کی جدید ٹیکنالوجی کو کچھ دیر کے لیے بند کر دے اور تنہائی میں کچھ وقت گزارے۔ اس وقت میں وہ اپنا جائزہ لے، خود کو دیکھے کہ اس نے سارا دن کیسے گزارا‘ اس کا آج اس کے گزرے ہوئے کل سے کتنا مختلف تھا اور آنے والے کل کے لیے اس نے کیا پلان کر رکھا ہے۔ عمومی طور پر یہ سب کچھ سوچنے کا وقت انسان کو دو مواقع پر ہی ملتا ہے۔ ایک‘ جب وہ شہر سے باہر سیر و تفریح کے لیے جاتا ہے‘ جہاں پر اس کا ذہن تفکرات سے آزاد ہوتا ہے اور دوسرا موقع لوڈشیڈنگ یا پاور بریک ڈائون کی صورت میں ملتا ہے۔ ہم مگر ان مواقع کو بھی روتے پیٹتے گزار دیتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اگر فرصت کے کچھ لمحات میسر آ ہی گئے ہیں تو کیوں نہ اپنا احتساب کر لیا جائے۔ زندگی کے ان پہلوئوں پر غور کر لیا جائے اور ان ایشوز کا تذکرہ کر لیا جائے جن کی طرف دھیان اگر کبھی چلا جاتا ہے تو ان پر بات کرنے یا ان کے بارے میں سوچنے کی فرصت نہیں ملتی۔ ہم مگر یہ وقت بھی کوسنے اور رونے پیٹنے میں گزار دیتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ اس موقع کا کس قدر مثبت استعمال کیا جا سکتا تھا۔
دیکھا جائے تو انسان اب انسان نہیں رہا بلکہ بجلی اور انٹرنیٹ ڈیوائسز کے ہاتھوں استعمال ہو کر خود بھی محض ایک پروڈکٹ بن کر رہ گیا ہے جو اپنا قیمتی وقت اور سرمایہ ان گیجٹس اور ڈیوائسز کے نام کر چکا ہے۔ اسے یہ بھی سوچنے کی فرصت نہیں کہ قدرت نے اسے کس مقصد کے لیے دنیا میں بھیجا تھا اور وہ اب تک اس دنیا میں کیا کرتا رہا ہے۔ ہو سکے تو بجلی جانے پر خود کو اور حالات کوستے رہنے کے بجائے ان پہلوئوں پر بھی غور کر لینا چاہیے۔