"ACH" (space) message & send to 7575

قیامت سے پہلے قیامت!

ترکیہ اور شام میں قیامت سے پہلے قیامت گزر گئی ہے۔ ان ملکوں میں زلزلے سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 11 ہزار کے قریب بتائی جا رہی ہے لیکن خدشہ ہے کہ ہلاکتیں ایک لاکھ سے زیادہ ہیں۔ اس کی وجہ ساڑھے پانچ ہزار سے زائد وہ بلند و بالا عمارتیں ہیں جو چند سیکنڈز میں زمین بوس ہو گئیں۔ ترکیہ میں زلزلہ صبح چار بجے آیا جس کی وجہ سے لوگوں کو انخلا کا موقع نہ ملا اور وہ سوتے ہی رہ گئے۔ جس جگہ زلزلے دن کی روشنی میں آیا وہاں بھی وہی لوگ اپنی جان بچا پائے جن کی زندگی لکھی تھی۔ ابھی تک آفٹر شاکس کا سلسلہ جاری ہے اور آفٹر شاکس زلزلے بھی کافی شدت کے آ رہے ہیں۔
قدرتی آفات پوری دنیا میں نازل ہوتی رہتی ہیں؛ تاہم زمین پر کچھ ممالک ایسے ہیں جو مسلسل ایسی آفات کی زد میں رہتے ہیں۔ زلزلوں اور سونامی کا ذکر آئے تو سب سے پہلے جاپان کا نام ذہن میں آتا ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں جاپان میں 6.2 شدت سے زائد کے اٹھائیس زلزلے آ چکے ہیں۔ اکیسویں صدی کا شدید ترین زلزلہ 2004ء میں انڈونیشیا میں آیا تھا جس سے سونامی آیا اور انڈونیشیا اور متعلقہ ممالک میں اڑھائی لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے۔ اس زلزلے کی شدت ریکٹر سکیل پر 9.1 سے بھی زیادہ بتائی جاتی ہے۔ اس سونامی نے بھارت‘ تھائی لینڈ‘سری لنکا اور انڈونیشیا کو بری طرح متاثر کیا تھا۔ اس زلزلے نے سمندر اور زمین کو ایک کر دیا تھا اور بپھرا ہوا پانی لوگوں کے گھر‘ گاڑیاں اور املاک کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گیا تھا۔ سونامی کی لہریں آٹھ سو کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہیں اور ہر چیز کو تہ و بالا کر دیتی ہیں۔ دوسرا بڑا زلزلہ ہیٹی میں 2010ء میں آیا تھا۔ سات شدت کے ساتھ اس زلزلے نے دو لاکھ افراد کو موت کی نیند سلا دیا تھا۔ تیسرا بڑا زلزلہ 2008ء میں چین میں آیا تھا۔ اس کی شدت 7.9 ریکارڈ کی گئی تھی۔ اس زلزلے نے چین کے شہر سیچوان میں 87 ہزار سے زائد افراد کو ابدی نیند سلا دیا تھا۔ بدقسمتی سے اس صدی کا چوتھا بڑا زلزلہ آٹھ اکتوبر 2005ء کو پاکستان میں آیا تھا۔ آزاد کشمیر و ملحقہ علاقوں میں آنے والے اس زلزلے سے 88 ہزار افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے ایسے سانحات کی شدت اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے کیونکہ یہاں معیشت ہر دو چار سال بعد دم توڑنے لگتی ہے‘ کبھی یہ وینٹی لیٹر پر چلی جاتی ہے تو کبھی‘ سیاست دانوں کے دعووں میں‘ فراٹے بھرنے لگتی ہے اور جب ایسے المیے رونما ہو جائیں تو جو تھوڑی بہت ترقی کی گئی ہوتی ہے‘ وہ بھی زمین بوس ہو جاتی ہے۔
زمینی حقائق کی بات کریں تو پاکستان میں زلزلے سے متاثرہ کئی علاقے ابھی تک دوبارہ تعمیر نہیں کیے جا سکے۔ اسی طرح اس وقت ایرا اور سیرا کے نام سے زلزلے سے بحالی کے لیے جو دو ادارے بنائے گئے تھے‘ بعد میں ان کی کارکردگی پر بھی انگلیاں اٹھنے لگی تھیں۔ اداروں نے جو کرنا تھا‘ سو کرنا تھا ‘ ایسے مواقع پر شقی القلب لوگ بھی فائدے اٹھانے سے باز نہیں آتے اور بیرونِ ممالک سے آیا ہوا امدادی سامان متاثرین تک پہنچانے کے بجائے بازار میں فروخت کر دیتے ہیں۔ نہ کسی کو آخرت کا ڈر ہے نہ مرنے کا خوف۔ بس زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے کی ہوس ہے جو بالآخر انسان کو قبر تک لے کر جاتی ہے۔
قدرتی آفات دنیا بھر میں آتی رہتی ہیں لیکن ہر زلزلے‘ ہر سیلاب اور ہر بحران کے بعد یہ ممالک کچھ نہ کچھ سبق سیکھتے ہیں اور آئندہ کے لیے بہتری کی تگ و دو کرتے ہیں لیکن ہمارا مزاج بالکل مختلف ہے۔ ہم بحرانوں اور طوفانوں میں بھی اپنے فائدے تلاش کر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری مصیبتیں اور پریشانیاں بحیثیت مجموعی ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ سیاست دان ہیں تو وہ کسی مسئلے پر اکٹھے بیٹھنے کو تیار نہیں۔ چاہے وہ کشمیر جیسا حساس مسئلہ ہی کیوں نہ ہو۔ پی ٹی آئی کی جانب سے خاص طور پر ایسے ردعمل کا مظاہرہ کیا جاتا ہے جو اسے تو کیا‘ کسی بھی قومی سطح کی سیاسی جماعت کو زیب نہیں دیتا۔ اس وقت ملک جس معاشی دلدل میں پھنسا ہوا ہے‘ اس سے نکلنے کے لیے سب کو ایک ساتھ بیٹھنے کی ضرورت ہے؛ تاہم یہاں فوری طور پر الزام تراشی شروع ہو جاتی ہے کہ ہم تو ملک ٹھیک ٹھاک چھوڑ کر گئے تھے‘ فلاں جماعت نے‘ فلاں شخص نے برسر اقتدار آ کر اسے تباہ کر دیا ہے۔ آپس کے یہ اختلافات ہی ہمیں لے ڈوبے ہیں۔ نہ سونامی سے اس ملک کو خطرہ ہے نہ کسی سیلاب اور طوفان سے۔ اس ملک کو منقسم سیاسی جماعتوں اور مفادات کی سیاست نے اس حال تک پہنچا یا ہے۔
گزشتہ دنوں شیخ رشید گرفتار ہوئے تو کسی نے مذاق اڑایا کہ پوری عوامی مسلم لیگ کو گرفتار کر لیا گیا۔ شیخ صاحب کے علاوہ ان کی جماعت میں ہے کون۔ کوئی بھی کسی کے ماتحت کام کرنے کو تیار نہیں۔ ہر کوئی اَنا کے بانس پر چڑھا ہوا ہے۔ سب کی اپنی اپنی جماعت، اپنی اپنی تنظیم ہے۔ مسلکی اختلافات رکھنے والے بھی مختلف مواقع پر اکٹھے بیٹھ جاتے ہیں لیکن ملک کی تقدیر بدلنے کے دعوے کرنے والے اور اسی ملک سے اربوں روپے کمانے والے اس ملک کو بچانے کے لیے اکٹھے نہیں ہوتے۔ ہر کوئی ہاتھ ملانے سے پہلے دوسرے کا شجرۂ نسب دیکھتا ہے۔ علم سب کے پاس ہے لیکن جب عمل کرنے کی باری آتی ہے تو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ جی بھر کے جھوٹ بولنے والا بہترین سیاست دان کہلاتا ہے ۔ اس طرح کا سیاست دان جب اقتدار میں آئے گا تو عوام کی کیا خدمت کرے گا؟ نفسا نفسی کا وہ دور دورہ‘ جو اگلے جہان سے منسوب ہے‘ ہم یہیں پر دیکھ رہے ہیں۔ جس کسی کو کسی سے مطلب ہوتا ہے‘ وہ اس کا کام کر دے گا وگرنہ آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی گوارا نہیں کرے گا۔ سیاست دانوں کی اس تفریق نے عوام کو بھی دو حصوں میں بانٹ دیا ہے۔ کوئی گھر‘ کوئی دفتر‘ کوئی ادارہ ایسا نہیں بچا جہاں دو انتہائی آرا رکھنے والے ایک دوسرے سے بحث و تکرار کرتے نہ پائے جاتے ہوں۔ یہ تقسیم اب گھروں کے اندر تک پہنچ گئی ہے اور بھائی بھائی کو مارنے کے لیے دوڑ پڑتا ہے۔ برداشت نام کی چیز ویسے ہی عنقا ہو چکی ہے۔ ایسے میں کوئی قومی سانحہ ہو جائے تو بھی لوگ اکٹھا ہونے کو تیار نہیں ہوتے۔
ترکیہ ہمارا برادر مسلم ملک ہے اور ایک بھائی ہی اپنے بھائی کے غم کو محسوس کرتاہے۔ ہمیں ترکیہ کے غم میں اسی طرح شریک ہونا چاہیے جیسے یہ سانحہ ہمارے اپنے ساتھ پیش آیا ہو۔ پاکستان میں حالیہ سیلاب سے جو تباہی ہوئی‘ اس سے بحالی میں مدد کرنے والوں میں ترکیہ اولین صف میں شامل تھا۔ زندگی کس قدر غیرمحفوظ اور مختصر ہو سکتی ہے‘ اس طرح کے واقعات نہ ہوں تو روز مرہ کے معمولات اور مصروفیات میں اندازہ ہی نہیں ہوتا۔ کسی قریبی عزیز کا انتقال ہو جائے تب بھی انسان کو ایسے خیالات تواتر کے ساتھ گھیرے میں لے لیتے ہیں کہ زندگی کے سفر کا ایک اختتام بھی ہے اور ہم نے ایک دن دنیا کو چھوڑ کر بھی جانا ہے۔ قدرت کا بھی عجیب نظام ہے کہ کتنا ہی قریبی عزیز ہو‘ کوئی بھی اسے جانے سے روک نہیں سکتا؛ تاہم اس طرح کی ناگہانی‘ اچانک اور آفت زدہ اور اجتماعی اموات کا دُکھ اور غم کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ موت برحق ہے اور حادثاتی موت کو شہادت کا درجہ دیا گیا ہے لیکن احادیث شریف میں ایسی نوعیت کی حادثاتی اموات سے پناہ مانگنے کی تلقین بھی کی گئی ہے اور ایسی دعائیں بھی تعلیم کی گئی ہیں جنہیں کثرت سے پڑھتے رہنا چاہیے۔ استغفار کرتے رہنا بھی ضروری ہے کہ نہ جانے کب موت کا بلاوا آ جائے اور کیا خبر کہ اُس وقت موقع ملے نہ ملے۔ سب سے زیادہ ہمیں اپنے اعمال کو درست کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ موت جیسے بھی آنی ہے‘ ہمارے ساتھ ہمارے اعمال ہی نے جانا ہے‘ مال نے نہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ تمام انسانوں پر رحم فرمائے اور اس طرح کے عذابوں سے محفوظ رکھے، آمین!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں