ڈالر نے ملکی اکانومی کے کڑاکے نکال دیے ہیں۔ ہر گزرتا دن ملکی کرنسی اور معیشت کے لیے بدترین ثابت ہو رہا ہے۔ جس شخص کی جیب یا بینک میں گزشتہ برس دس لاکھ پڑے تھے‘ وہ اب گھٹ کر پانچ‘ چھ لاکھ رہ گئے ہیں۔ جن قرضوں اور سود کی پاکستان نے ادائیگی کرنی ہے‘ وہ بجلی کی رفتار سے بڑھ رہے ہیں۔ دوسری طرف پیداوار اور ایکسپورٹس مزید کم ہو رہی ہے۔ کارخانے‘ فیکٹریاں اور کارخانے کم ترین پیداوار پر چلے گئے ہیں اور تو اور‘ دو برس قبل تک ریکارڈ منافع پر رہنے والا ٹیکسٹائل سیکٹر گھٹنوں پر آ چکا ہے۔ بیشتر فیکٹریوں میں شٹ ڈائون اور ملازمین کو نکالنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سارے بحران میں اگر کسی کو فرق نہیں پڑے گا تو وہ لوگ‘ جو روپوں میں نہیں بلکہ ڈالروں میں کما رہے ہیں۔ ویسے تو ٹیکسٹائل ودیگر برآمدی شعبہ جات بھی بیرونِ ملک برآمدات کے ذریعے ڈالرز ملک میں لاتے ہیں لیکن ایسے شعبوں کے لیے کئی دیگر مشکلات بھی کھڑی ہو گئی ہیں جیسے کہ پٹرول‘بجلی اور دیگر اشیا کی لاگت میں بے پناہ اضافہ۔ پھر بینک ایل سیز بھی اوپن نہیں کر رہے اور جو درآمدی سامان اور خام مال پورٹس پر کھڑا ہے‘ اس کی کلیئرنس میں مشکلات پیش آ رہی ہیں‘ جب ٹیکسٹائل کے شعبے کو دھاگہ ہی نہیں ملے گا تو وہ کپڑا کیسے بنائے گا‘اسی طرح ملک میں تیار ہونے والی گاڑیوں میں جو ستر فیصد تک پرزے باہر سے آتے ہیں‘ وہ وقت پر نہیں آ رہے جس کی وجہ سے گاڑیوں کی پیداوار اور ترسیل میں رکاوٹ اور تاخیر ہو رہی ہے۔
ایسے میں صرف آئی ٹی سیکٹر ہی بچتا ہے جو اس بحران سے اتنا متاثر نہیں ہوا ہے۔ یقینا فرق اسے بھی ضرور پڑا ہو گا لیکن بعض صورتوں میں اس کا منافع بڑھا ہی ہے‘ کم نہیں ہوا کیونکہ آئی ٹی کے شعبے میں بہت زیادہ انویسٹمنٹ نہیں کی جاتی جیسے کہ عمارتوں کی تعمیر اور لمبا چوڑا انفراسٹرکچر‘ اس کے لیے یہ سب کچھ درکار نہیں ہوتا۔ اس میں کمپیوٹر‘ لیپ ٹاپ‘ ای کرس میز اور ایک تیز رفتار انٹرنیٹ کنکشن ہی درکار ہوتا ہے؛ البتہ سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے قابل دماغ کی‘ جو کچھ نیا سوچ سکے‘سمجھ سکے اور وقت پر ڈِلیور کر سکے۔ دوسری جانب جو دیگر شعبے ہیں‘ جیسے کنسٹرکشن کا شعبہ‘ اس میں آپ کو خاصی مہنگی زمین خریدنا ہوتی ہے اور پھر اس پر تعمیراتی اخراجات اور لیبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ تعمیراتی پروجیکٹس اچھا خاصا وقت لیتے ہیں۔ اب تو پانچ مرلے کا گھر بھی سات‘ آٹھ ماہ بلکہ ایک سال کے عرصے میں مکمل ہو رہا ہے۔ بڑے پروجیکٹس میں دو‘ تین سال بلکہ اس سے بھی زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔ آئے روز ڈالر اور پٹرول کی بڑھتی قیمتوں اور نت نئے ٹیکسوں اور طرح طرح کی بندشوں نے اس سیکٹر کا گلا گھونٹ کر رکھ دیا ہے۔
سابق دور میں شروع ہونے والے سینکڑوں پروجیکٹس درمیان میں رُک چکے ہیں کیونکہ جس قیمت پر ان کی بکنگ کی گئی تھی‘ اس پر تعمیرجاری رکھنا بلڈرز کے لیے ناممکن ہو چکا ہے۔ کوئی بھی بلڈر اپنی جیب سے یہ فرق پوراکرنے سے رہا۔ وہ لامحالہ یہ بوجھ آگے خریدار پر شفٹ کرے گا‘ ایسے میں خریدار‘ جس کی پہلے ہی مہنگائی سے چیخیں نکل رہی ہیں‘ مزید سٹپٹا جاتا ہے۔ پی ٹی آئی کے دور میں کنسٹرکشن سیکٹر کو مراعات اور ریلیف دیا گیا تھا تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ تعمیراتی منصوبوں کی طرف آئیں اور اس سے جڑی مختلف صنعتوں کا پہیہ چل سکے؛ تاہم کچھ ہی مہینوں بعد حکومت کو احساس ہوا کہ اس طرح تو پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ پچاس سال میں بھی پورا نہیں ہو سکے گا۔ پھر خیال آیا کہ کیوں نہ ہائی رائز کی طرف آئیں یعنی فلیٹس اور اپارٹمنٹس بنائیں تاکہ دو‘ چار کنال جگہ پر سو‘ دو سو افراد کو چھت مل جائے۔ اس منصوبے کو پروان چڑھانے کے لیے شہری ترقیاتی اداروں اور پراپرٹی سے متعلقہ افراد کو بلا کر تجاویز لی گئیں اور یوں لاہور میں بھی کراچی کی طرح بلند و بالا فلیٹس کی تعمیر شروع ہو گئی۔ حکومت نے خود جو فلیٹس بنا کر دینے تھے‘ شروع میں ان کی قیمت کم رکھی گئی لیکن پی ٹی آئی کی اپنی ہی حکومت میں پٹرول اور ڈالر کی قیمتوں میں اضافہ ہونے سے تعمیراتی لاگت بڑھ گئی جس کے بعد ان فلیٹس کی تعمیر کا خرچ بھی بڑھتا گیا اور نتیجہ کیا نکلا؟ پچاس لاکھ میں سے شاید چند سو ہی فلیٹس بنے ہوں گا یا چند ہزار‘ جن کا ابھی کوئی اتا پتا نہیں۔ نجی سیکٹر نے جو تعمیرات شروع کی تھیں‘ وہ بھی بمشکل دس فیصد ہی تکمیل کے قریب پہنچی ہوں گی‘ باقی ڈھانچا کھڑا کرنے کے بعد سب ہاتھ اٹھا چکے ہیں کیونکہ خریدار اضافی لاگت شیئر کرنے کو تیار ہیں نہ ہی اس کی سکت رکھتے ہیں۔ کنسٹرکشن سیکٹر کو بغیر پلاننگ ریلیف دینے سے کئی نقصانات بھی ہوئے جیسے زرعی زمینوں کا خاتمہ‘ جس سے خوراک کی پیداوار کا مسئلہ سنگین ہو رہا ہے۔ انسان کی بنیادی ضرورت تین وقت کا کھانا ہے لیکن یہ بات پلاننگ کے وقت مدنظر نہیں رکھی جاتی۔
آئندہ جس حکومت نے بھی منصوبہ بندی کرنی ہے‘ اسے پہلی ترجیح آئی ٹی سیکٹر کو دینا ہو گی۔ میں گزشتہ دس سال سے لکھ لکھ کر تھک گیا ہوں کہ یہی وہ شعبہ ہے جو ڈالرز بھی لا سکتا ہے اور کم وقت اور کم سرمایہ کاری کے ساتھ بہترین نتائج بھی دے سکتا ہے۔ اس کے لیے ہمارے پاس دنیا کی کم عمر ورک فورس یعنی بارہ‘ تیرہ کروڑ نوجوان بھی موجود ہیں جو ہمارا سب سے بڑا سرمایہ ہیں۔ اگر ہم نے ان کو درست راہ نہ دکھائی تو یہ اَن گائیڈڈ میزائل بن کر ہمارے ہی پیچھے پڑ جائیں گے اور پھر ہمارے لیے ان کو معاشرے میں کھپانا مشکل ہو جائے گا۔ حکومت کو تمام نوجوانوں کا ڈیٹا اکٹھا کرنا چاہیے‘ ان کی سکلز اور تجربے کے حساب سے انہیں آئی ٹی کے شعبے میں کھپانے کا مکمل پلان بنانا چاہیے۔ اِن میں سے آدھے یعنی پانچ کروڑ نوجوان بھی اگر ماہانہ محض ایک سو ڈالر کمانا شروع کر دیں‘ جو ناممکن نہیں‘ تو پاکستان ماہانہ پانچ ارب اور سالانہ ساٹھ ارب ڈالر کما سکتا ہے۔ آپ خود ہی سوچیں کہ ایسا کسی اور شعبے میں ممکن ہے؟ یہ کوئی دیومالائی یا ہوائی باتیں نہیں ہیں۔
ہمارے سامنے‘ یوٹیوب پر دیکھتے ہی دیکھتے کئی نوجوانوں نے گزشتہ تین سے پانچ سالوں میں کروڑوں روپے کما لیے ہیں۔ ابھی ایک وی لاگر نے چار کروڑ روپے کی ٹیسلا ایس ماڈل کی الیکٹرک گاڑی منگوائی ہے۔ آپ خودسوچیں‘ یہی نوجوان اگر کسی جگہ پر لگی بندھی نوکری کر رہا ہوتا تو شاید پانچ برسوں میں وہ موٹرسائیکل بھی نہ خرید سکتا اور آج جیسے حالات میں تو بالکل بھی نہیں۔ مذکور ہ نوجوان ٹیکنالوجی سے متعلقہ گیجٹس کی انفارمیشن کا ڈیجیٹل چینل چلا رہا ہے۔ غرضیکہ ٹیکنالوجی سے جڑے ہر شخص کی آمدنی اس وقت بھی بہت بہتر ہے اور یہی ہمارے مسائل کا واحد حل ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے اکثر سیاستدانوں کو ان باتوں کا ادراک ہے نہ ان میں دلچسپی۔ زیادہ تر زرعی زمینوں‘ کارخانوں اور رہائشی سکیموں کے مالک ہیں اور اب بھی پرانے دور میں جی رہے ہیں۔ یہ خود تو مال بنانے میں لگے ہوئے ہیں مگر عوام کو خودکفیل کرنے کو تیار نہیں۔ انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ آج نوجوانوں کو اگر محروم رکھنے کی کوشش کریں گے تو وہ ری ایکشن دکھائیں گے۔ یہ وہ تیس‘ چالیس برس پہلے والی نسل نہیں جو صبر شکر کر کے گزارا کر لے۔ اب سب کے ہاتھ میں موبائل ہے اور سب کو پتا ہے کہ کون کیا تھا اور اب کیا بن گیا ہے۔ یہ بارہ کروڑ نوجوان ہماری طاقت بھی بن سکتے ہیں اور دردِ سر بھی۔ اگر ہم نے اپنے نوجوانوں کو سپورٹ نہ کیا‘ انہیں وسائل اور درست سَمت مہیانہ کی تو یہ بپھرے ہوئے سیلاب اور بد مست ہاتھی کی طرح اپنے راستے میں آنے والی ہر شے کو روند ڈالیں گے۔ خدا کے لیے روایتی سوچ‘ روایتی شعبوں اور روایتی کاروباروں سے باہر نکلیں۔ اس ملک کو شعبدہ بازیوں کی نہیں بلکہ آئی ٹی ایمرجنسی پلان کی ضرورت ہے۔ اب تو آئی ٹی کی صورت میں نئی کہکشائیں اور نئے مواقع خود ہمارے در پر آن کھڑے ہوئے ہیں‘اب بھی ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو پھر کفِ افسوس ہی ملتے رہ جائیں گے۔