جس طرح ملکی معیشت اور سیاست بے یقینی کا شکار ہیں‘ اسی طرح ملک کا موسم بھی بے اعتبار ہو چکا ہے۔ موسمی تغیرات میں تبدیلی اور گلوبل وارمنگ میں گزشتہ ایک عشرے میں اس قدر غیر معمولی رفتار سے اضافہ ہوا ہے کہ ہر مرتبہ موسم سرما کے اختتام پر پاکستانی عوام محکمہ موسمیات کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ براہِ کرم ہمیں ایک ہی مرتبہ بتا دیں کہ ہم گرم کپڑے الماری میں سنبھال کر رکھ دیں یا واپس نکال لیں۔ کچھ سال قبل تک لوگ ایسے موسم کے عادی نہ تھے۔ ایک مرتبہ سردی چلی جاتی تھی تو کم ہی واپس آتی تھی۔ سرما اور گرما کے درمیان بہار کے خوبصورت دن لہلہا رہے ہوتے؛ تاہم درجہ حرارت میں تبدیلی کیا آئی‘ موسم نے بھی آنکھیں بدل لیں۔ گرمیاں ستمبر‘ اکتوبر سے طویل ہوتی دسمبر تک جا پہنچیں۔ جبکہ سردیاں فروری میں جا کر مارچ میں دوبارہ لوٹنے لگیں۔ اسی طرح سموگ کا دورانیہ بھی طویل ہونے لگا ہے۔ پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جو گلوبل وارمنگ اور موسمی تبدیلیوں کا سب سے زیادہ شکار ہو رہے ہیں۔
آٹھ‘ دس سال قبل بھی موسم میں تغیر آتا تھا اور موسم گرما میں کبھی کبھار غیر معمولی بارشیں ہوتی تھیں جن کی وجہ سے ملک کو کئی مرتبہ خطرناک سیلابوں کا بھی سامنا کرنا پڑا؛ تاہم پھر کئی گرمیاں ایسی آنے لگیں کہ بارشوں کی اتنی قلت ہو گئی کہ سندھ اور ملک کے دیگر حصوں میں جاندار اور نباتات خشک سالی کا شکار ہو گئے۔ گزشتہ برس کی طرح اس سال بھی موسم عجیب رنگ دکھا رہا ہے۔ مارچ کے ابتدائی چند دن اتنے گرم گزرے کہ لگتا تھا کہ مئی‘ جون کی گرمی مارچ میں ہی آ لپکی ہے؛ تاہم موسم نے بازی پلٹی‘ درجہ حرات بتدریج کم ہونے لگا اور باقی کسر بارشوں نے نکال دی۔ کئی دنوں سے رات کے وقت دسمبر کی سردی کا گماں ہوتا ہے۔ جو لوگ گرم کپڑے الماریوں
میں رکھ چکے تھے‘ وہ اب پچھتا رہے ہیں۔ لوگ خود بھی اس معاملے میں کنفیوز ہیں۔ آپ بازار‘ مسجد کہیں بھی چلے جائیں، آپ کو ایک ہی جگہ پر ہاف بازو کی ٹی شرٹ والا شخص بھی مل جائے گا اور اسی جگہ پر سویٹر یا جیکٹ پہنے ہوئے بھی کوئی نہ کوئی موجود ہو گا اور کوئی درمیانے کپڑوں میں موسم کا مقابلہ کرتا نظر آئے گا۔ ویسے تو کہنے کو یہ بہار کا موسم ہے لیکن اس میں سردی کی ملاوٹ اتنی زیادہ ہے کہ بہار کا رنگ پوری طرح سامنے نہیں آ سکا۔ بہار سمجھ کر انجوائے کرنے کی کوشش کی جائے تو صحت دائو پر لگ سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹی شرٹ پہننے والے کچھ ہی دیر بعد چھینکتے کانپتے گھر پہنچتے ہیں۔ موسم کی تبدیلی سے قبل فلو وغیرہ کی ویکسین لگوانا جدید ممالک میں ایک عام عمل ہے لیکن پاکستان جیسے ملکوںمیں اِکا دُکا ہی یہ ویکسین لگواتے ہیں۔ کورونا کی وجہ سے بھی لوگوں کا مدافعتی نظام کمزور پڑ چکا ہے اور اب کئی ہٹے کٹے افراد بھی موسم کے ناز نخرے برداشت نہیں کر پا رہے۔
ویسے تو موسم کے تغیرات ایک قدرتی عمل کا حصہ ہیں لیکن اس مشینی زندگی نے اس کی خرابی میں خوب حصہ ڈالا ہے۔ پاکستان جیسے ملکوں میں کارخانے اور فیکٹریاں ویسے بھی اُن ہدایات پر کم ہی عمل کرتے ہیں جن کے ذریعے فضا میں اوزون کی تہہ اور ماحولیات کو نقصان پہنچنے سے بچایا جا سکے۔ یہاں پر زیادہ تر حکومتی کارروائیاں بھی موسمی ہوتی ہیں‘ یعنی جب سموگ کا موسم آئے گا تو پکڑ دھکڑ شروع ہو جائے گی‘ بھٹوں کو بند کرنے یا جدید ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے کے احکامات جاری ہوں گے اور جیسے ہی سموگ کا عرصہ ختم ہو گا‘ معمولات واپس اپنی ڈگر پر آ جائیں گے۔ پاکستان ایسے خطے میں واقع ہے جہاں موسمی اثرات کم سے کم اپنا رنگ دکھاتے ہیں‘ یعنی یہاں طوفان وغیرہ بہت کم آتے ہیں۔ اس کی نسبت امریکہ‘ افریقہ اور ایشیا کے کئی ممالک مسلسل طوفانوں کی زد میں رہتے ہیں۔ امریکہ سمیت دنیا بھر میں طوفانوں کو مختلف ناموں سے منسوب کیا جاتا ہے اور ہر سال امریکہ سے ایک نئے طوفان کا نام سامنے آتا ہے۔گزشتہ دنوں امریکی ریاست آرکنساس‘ الباما اور مڈویسٹ میں تباہ کن طوفانوں اور تیز ہوائوں کی وجہ سے زندگی درہم برہم ہو گئی جبکہ گاڑیاں کھلونوں کی طرح سڑکوں‘ بازاروں اور کھلے علاقوں میں بکھرگئیں۔ پچیس لوگ جان سے گئے جبکہ سینکڑوں مضبوط درخت جڑوں سے اکھڑ گئے۔ بجلی کے پول اور تار زمین پر بکھر گئے اور کئی دنوں تک کے لیے بجلی غائب ہو گئی۔ امریکہ جیسے ملک میں طوفانوں کا آنا معمول بن چکا ہے؛ تاہم وہاں ایک چیز خاصی مختلف ہوتی ہے اور وہ ہے میڈیا رپورٹنگ۔ تیسری دنیا کے ملکوں کے برعکس وہاں کے ذرائع ابلاغ اس پر خواہ مخواہ کی ہائپ نہیں پیدا کرتے نہ ہی مقامی انتظامیہ یا حکومت کو بلاوجہ کسی غفلت کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ہمارے ہاں کسی طوفان سے کسی درخت کی شاخ گر پڑے اور اس کے نیچے خدانخواستہ کوئی شخص آ کر زخمی ہو جائے تو کوشش یہی کی جاتی ہے کہ اس کا قصور وار صدر‘ وزیراعظم یا کم از کم وزیراعلیٰ کو ٹھہرایا جائے۔ امریکہ میں حالیہ طوفان سے چھ لاکھ افراد بجلی سے محروم ہوئے ہیں۔ ایسے شدید طوفانوں کے سبب کئی کئی دنوں بلکہ ہفتوں تک بجلی غائب رہتی ہے لیکن مجال ہے کہ وہاں ایسے واویلا کیا جائے جیسے پاکستان اور بھارت میں کیا جاتا ہے۔ یہ نہیں کہ وہاں ان طوفانوں کو رپورٹ نہیں کیا جاتا؛ البتہ وہاں اس طرح کی ہائپ کری ایٹ نہیں کی جاتی اور قدرتی آفات کی ذمہ داری بغیر سوچے سمجھے عُمال پر نہیں ڈالی جاتی۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارا ملک تعمیراتی معیار کے حوالے سے جدید ممالک سے بہت پیچھے ہے۔ گزشتہ برس سیلاب نے جس قدر تباہی مچائی‘ اس کے معیشت پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے۔ بارشوں اور سیلابی ریلوں نے خیبر پختونخوا اور سندھ سمیت ملک کے دیگر حصوں میں جو تباہی مچائی اس کا مقابلہ کرنا پاکستان جیسے ملک کے لیے ممکن نہیں۔ جس طرح کی تعمیرات دریائوں کے کنارے کی گئیں اور جس طرح ہوٹلوں کو بہتے دیکھا گیا‘ اگر ہم اب بھی نہ سیکھ سکے تو نجانے کب سدھریں گے۔ ہر آفت اپنے ساتھ کوئی نہ کوئی سبق اور ایسے اسباب لاتی ہے جو ملک و معاشرے کو سدھارنے کا ذریعہ بنتے ہیں اور آئندہ ممکنہ نقصانات سے بچنے کیلئے تیار کرتے ہیں۔ موسمیاتی ماہرین اس سال موسم گرما میں شدید گرمی اور خشک سالی کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ موسمی تغیرات کا مقابلہ کرنے کے لیے جنگلات زیادہ سے زیادہ اگائے جانے چاہئیں۔ اسی طرح بارش کے پانی کا بہترین استعمال ہونا چاہیے جیسا کہ جدید ملکوں میں سڑکوں کے نیچے 'رین ڈرین‘ بنے ہوتے ہیں‘ جن میں بارش کا تمام پانی سٹور ہو جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں یہ گٹروں کی زینت بنتا ہے۔ ماحول دوست منصوبوں‘ واٹر مینجمنٹ‘ بہتر انفراسٹرکچر اور صاف ستھرے ماحول کیلئے آگاہی کی مہم چلا کر بھی موسم کی شدت کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پاکستان کا موسم ہی نہیں بلکہ معیشت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ حالیہ بارشیں فصلوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں۔ ہم شہروں میں موسم انجوائے کر رہے ہیں اُدھر کسان ان بارشوں پر دھاڑیں مار کر رو رہا ہے۔ زرعی زمینیں پہلے ہی کم ہو رہی ہیں‘ اس پر یہ موسمی تبدیلی پیداوار مزید کم کرنے کا ستم ڈھانے کو ہے۔ شدید گرمی سے گلیشیرز پگھلنے سے ندی نالوں میں آنے والی طغیانی اور غیر معمولی بارشیں کھڑی فصلوں کو ملیامیٹ کر دیتی ہیں۔ یہ ایسے مسائل ہیں جو مؤثر ڈائیلاگ‘ جامع منصوبہ بندی اور ہنگامی اقدامات کے متقاضی ہیں۔ پاکستان کورونا وبا‘ روس‘ یوکرین جنگ اور عالمی کساد بازاری جیسے عوامل کے اثرات سے اتنا کمزور ہو چکا ہے کہ وہ ان مسائل پر کوئی کوتاہی برداشت نہیں کر سکتا۔ اگر ان حالات میں ہمارا ملک مزید کمزور ہوتا ہے تو اس کے اثرات دیگر ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لیں گے۔ حکومت اپنے تئیں اس بحران سے نمٹنے کیلئے سرگرداں ہے لیکن عالمی برادری‘ اقوام متحدہ اور عالمی اداروں کو اس وقت تک مسلسل مالی و انتظامی معاونت جاری رکھنا ہو گی جب تک پاکستان اس بحران سے مکمل طور پر باہر نہیں نکل آتا۔