پچیس مئی کو ملک بھر میں یومِ تکریم شہدائے پاکستان منایا گیاتاکہ ملک و قوم کے لیے قربانیاں دینے والے شہدا کی لازوال قربانیوں کی یاد کو تازہ کیا جائے اور پوری قوم کو یہ پیغام دیا جائے کہ شہدا‘ ان کی یادگاروں اور ان کے اہلِ خانہ کے جذبات کا احترام پوری قوم پر لازم ہے۔ یہ دن منانے کی ضرورت پیش نہ آتی اگر نو مئی کو قومی و عسکری تنصیبات پر حملے نہ کیے جاتے‘ شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی نہ کی جاتی اور ان کے خاندانوں کا دل نہ دکھایا جاتا۔ نو مئی کو صرف ایک سیاسی رہنما کی گرفتاری ہوئی تھی مگر اس کو لے کر اتنا بڑا طوفان مچایا گیا کہ ملکی سلامتی بھی خطرے سے دوچار ہو گئی کیونکہ اس مرتبہ حملہ آور سرحد پار سے نہیں آئے تھے بلکہ یہ وہ گھس بیٹھئے تھے جو ہماری ہی صفوں میں موجود ہیں‘ جو اسی معاشرے اور اسی سسٹم کا حصہ ہیں لیکن یہ اس حد تک چلے جائیں گے کسی کو اندازہ تک نہ تھا۔ اور تو اور وہ کم عمربچے اور نوجوان جنہیں اپنی پوری توجہ تعلیم پر مرکوز کرنی چاہیے‘ وہ بھی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اداروں کے خلاف اس نفرت آمیز مہم کا حصہ بن گئے۔ وہ بچے جن کے آئیڈیل راشد منہاس اور میجرعزیز بھٹی جیسے شہید تھے‘ ان میں اداروں کے خلاف بارود بھرنے کی مذموم مہم چلائی گئی اور بچے چونکہ معصوم ہوتے ہیں‘ مطالعہ ان کا کم یا نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے اس لیے وہ اس مذموم مہم کا آسانی سے شکار ہو گئے۔ لاہور میں کور کمانڈر ہائوس پر حملہ ہو یا پھر کسی یادگارِ شہدا کی توڑ پھوڑ‘ آپ کو وہاںزیادہ تعداد چودہ سے تیس سال کے عمر کے لوگوں کی نظر آئے گی۔ کئی وِڈیوز تو ایسی ہیں جن میں آٹھ‘ دس سال کے بچے بھی توڑ پھوڑ کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ جن بچوں کی تربیت اس انداز میں کی جا رہی ہو کہ ان کے سامنے اُن کے بڑے فوجی گاڑیوں پر پتھرائو کر کے خوشی سے نعرے لگا رہے ہوں تو وہ بچے خود بڑے ہو کر کیا کریں گے۔
کسی دوسرے پر الزامات لگانا دنیا کا آسان ترین کام ہے لیکن اپنی غلطیوں کو ماننا بہت مشکل ہے۔ آج پی ٹی آئی کے جو لوگ جیلوں سے رہا ہو رہے ہیں اور یہ کہہ کر سیاست ہی چھوڑ رہے ہیں کہ انہوں نے اپنے بچوں کو وقت دینا ہے‘ وہ اتنی آسانی سے کیسے اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کر سکتے ہیں۔ ان کے احکامات اور پروپیگنڈے کا شکار ہو کر نجانے کتنے بچے اور نوجوان اُن خوف ناک جیلوں میں قید ہیں جو انہوں نے خواب میں بھی نہ دیکھی ہوں گی۔ اس وقت بھی سوشل میڈیا پر مذموم پروپیگنڈا مہم زوروں پر ہے۔ وہ نوجوان جس نے کور کمانڈر ہائوس سے مور چرایا تھا‘ اس کے بارے میں ٹرینڈ چلائے گئے کہ اسے زیرِ حراست قتل کر دیا گیا ہے جس پر اُسے سامنے لایا گیاا ور ایک وڈیو ریلیز کرنا پڑی جس میں سترہ‘ اٹھارہ برس کا وہ لڑکا اعتراف کرتا نظر آتا ہے کہ میں ہی وہ لڑکا ہوں جس نے مور چرایا تھا، وڈیو میں وہ بتا رہا ہے کہ وہ بالکل ٹھیک ہے اور اس وقت کیمپ جیل میں قید ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ یہ وڈیو پچیس مئی بروز جمعرات کو آٹھ بجے ریکارڈ کی جا رہی ہے۔ خدا کی پناہ! جھوٹ اور انتشار پھیلانا بند ہونا تو درکنار اس میں اب مزید تیزی آ گئی ہے۔ سارے کا سارا بیانیہ نفرت پر بُنا جا رہا ہے۔ مہنگائی‘ بیروزگاری اور لوگوں کے روزہ مرہ مسائل کو استعمال کر کے ان میں نفرت کا الائو روشن کیا جا رہا ہے۔ انہیں بتایا جا رہا ہے کہ تمہارے تمام کے تمام مسائل اور اس ملک کی معاشی تباہی کی وجہ فلاں فلاں لوگ اور ادارے ہیں۔ جس پر دل کرتا ہے‘ اس پر جھوٹے الزامات عائد کر کے سوشل میڈیا پوسٹس بنا کر گروپوں میں شیئر کر دی جاتی ہیں جو آن کی آن میں وائرل ہو جاتی ہیں کیونکہ شر ہمیشہ خیر کی نسبت کہیں زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے کیونکہ اس میں تہہ در تہہ جھوٹ کی ملاوٹ ہوتی جاتی ہے اور ایسے ہی جھوٹ لوگوں کو بھاتے ہیں۔
اپنے مذموم مقاصدکے لیے بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ خواتین کو بھی نہیں بخشا گیا۔ انہیں بھی اس آگ کا بھرپور ایندھن بنایا گیا۔ نو مئی کو توڑ پھوڑ کرنے والی سینکڑوں خواتین وڈیوز میں صاف دیکھی جا سکتی ہیں۔ وہ کسی کی بات سننے کو آمادہ نہیں۔ غصہ بس یہ ہے کہ ہمارے لیڈر کو ہاتھ کیسے لگایا۔ کاش ان کو کوئی یہ بھی سمجھا دیتا کہ جب لیڈر سیاست کرتا ہے تو صرف اقتدار کی کرسی ہی نہیں ملتی۔ سیاست صرف پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹے دار جھاڑیاں بھی اس راہ میں آپ کا استقبال کرتی ہیں۔ پھر یہ کہ جیل جانے سے کوئی لیڈر چھوٹا نہیں ہو جاتا بلکہ اس کا قد کاٹھ مزید بڑھتا ہے۔ سیاستدانوں اور قید و بند کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ پھر اُن کے اپنے دورِ حکومت میں کون سے مخالف سیاستدان کو سچے‘ جھوٹے کیس بنا کر جیل نہیں بھیجا گیا؟کیا ان کے ورکرز نے اداروں کو تہس نہس کر دیا؟سیاسی نابالغ ہجوم کو مگر یہ سب بتایا گیا نہ انہوں نے خود یہ سب سمجھنے کی کوشش کی۔ ان بچوں‘ خواتین اور نوجوانوں کو صرف اور صرف اپنی ڈھال بنایا گیااور ہوا بھی یہی۔ آج سارے لیڈرز پارٹی کو چھوڑتے جا رہے ہیں اور ان سینکڑوں‘ ہزاروں کارکنوں کو بھی‘ جو ان کی لگائی ہوئی آگ کو ہوا دیتے ہوئے پکڑے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اُن کارکنوں کے پیچھے جانے والا کوئی نہیں۔
میں پھر کہہ رہا ہوں کہ اس جماعت نے والدین کی پریشانیوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ والدین کو کچھ پتا نہیں ہوتا کہ کب ان کا بیٹا یا بیٹی کسی جلسے جلوس میں نکل جائے‘ کسی ادارے پر حملہ آور ہو جائے یا پھر گھر بیٹھے بیٹھے موبائل فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے ہرزہ سرائی شروع کر دے۔ والدین اب بچوں کے ہاتھ تو پکڑنے سے رہے۔ وہ انہیں سمجھا سکتے ہیں اور سمجھانا بھی چاہیے لیکن کیا یہ نفرت انگیز مہم چلانے والے سیاستدانوں کا احتساب نہیں ہونا چاہیے جو منظم مہم اور احکامات کے ذریعے نوجوان نسل کو بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں؟آج مخالفین پر تنقید کرنے والے اپنے بارے بھی بتائیں کہ کون سی توپ چلائی تھی انہوں نے اپنے دورِ حکومت میں۔ اسد عمر کو عالمی سطح کا معیشت دان اور ملکی مسائل کے حل کا ایکسپرٹ بنا کر پیش کیا گیا مگر پہلے چھ ماہ میں ہی موصوف کی ساری کارکردگی سامنے آ گئی اور معیشت کو اٹھانے کے دعوے جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔ عامر کیانی صاحب‘ جنہیں وزیرصحت لگایا گیا‘ انہوں نے آتے ہی ادویات کی قیمتوں میں تین سو فیصد تک اضافہ کر دیا۔ ناصر درانی کی کے پی پولیس میں خدمات کی مثالیں دیتے تھکتے نہیں تھے مگر پنجاب میں وہ دو ہفتے بھی نہیں نکال سکے۔ مثالیں کینیڈین وزیراعظم کے سائیکل پر دفتر جانے کی دی جاتی تھیں اور خود وزیراعظم ہائوس سے چند کلومیٹر دور بنی گالا جانے کے لیے روزانہ ہیلی کاپٹر استعمال کیا جاتا تھا اور اس کے فیول کا خرچ محترم فوادچودھری صاحب پچاس‘ پچپن روپے فی کلومیٹر بتایا کرتے تھے۔ مختلف ٹک ٹاکرز وزرا کے سرکاری دفاتر میں دندناتی پھر رہی تھیں اور سرکاری دفاتر کی کئی ایسی وڈیوز سامنے آئیں جنہوں نے قوم کا سر شرم سے جھکا دیا۔ کیا یہ وہ نیا پاکستان تھا جس کی جھلک پچھلے دو عشروں سے دکھائی جا رہی تھی؟ احتساب کے ادارے کو استعمال کر کے نہ کسی مخالف صحافی کو چھوڑا گیا‘ نہ اساتذہ کو‘ نہ ہی سیاستدانوں کو۔ حالات یہاں تک ہی رہتے تو اور بات تھی مگر ان کے دور میں تو یونیورسٹی کے پروفیسرز کو بھی ہتھکڑیوں میں جکڑا گیا، حتیٰ کہ ہسپتالوں میں علاج کے لیے بھی ہتھکڑیوں میں ہی بھیجا گیا۔ اسی دوران ایک پروفیسر کی موت ہو گئی اور ہتھکڑیوں میں جکڑی میت کی تصاویر وائرل ہو گئیں لیکن اس پر کبھی افسوس کا اظہار کیا گیا نہ کوئی ایکشن لیا گیا۔
آج سب پارٹی رہنمائوں کو اپنی فیملی اور بچے یاد آ رہے ہیں‘ کسی نے اپنے والدین کی خدمت کرنی ہے تو کسی نے خاندان کو وقت دینا ہے۔ سارے کا سارا کھیت اجاڑنے اور فصل کو آگ لگانے کے بعد اب سب وضو کرنے نکل پڑے ہیں۔ اب تو فصل کو کاٹنے کا وقت ہے۔ ویسے بھی بعض اوقات ہاتھوں سے لگائی ہوئی گرہیں دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں۔ کیا ہی بہتر ہوتا وزارتِ عظمیٰ کی ایک کرسی کے حصول کے لیے پوراملک جلانے سے پہلے ایک مرتبہ سوچ لیا جاتا‘ کوئی ایک بیان ایسا ریکارڈ رکروا کر رکھ دیا جاتا کہ میری گرفتاری پر صرف پُرامن احتجاج کیا جائے گا، ایسا ہوتا تو شاید آج یہ یہ دن نہ دیکھنا پڑتے اور نہ دشمن کو یہ کہنے کا موقع ملتا کہ جو کام ہم پچھتر برسوں میں نہیں کر سکے وہ اس ایک سیاسی جماعت نے کر دکھایا۔