ینگ ڈاکٹرز کی کال پرپنجاب کے بڑے سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی ہڑتال جاری ہے۔ آئوٹ ڈور میں علاج کرانے مریض تو آ رہے ہیں لیکن انہیں دیکھنے والا کوئی ڈاکٹر موجود نہیں۔اس تازہ ہڑتال کی وجہ چند روز قبل چلڈرن ہسپتال لاہور میں ایک ڈاکٹر پر ایک مریض کے لواحقین کا شدید قسم کا تشدد ہے جس کی وڈیو بھی وائرل ہو چکی ہے۔ وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ چار سے پانچ افراد ڈاکٹر کے کمرے میں موجود ہیں‘ایک شخص نے ڈاکٹر کو گریبان سے پکڑ رکھا ہے اور باقی سب ڈاکٹر پر گھونسوں' تھپڑوںاور مکّوں کی بارش کر رہے ہیں۔ اس دوران ڈاکٹر کے کپڑے پھٹ جاتے ہیں ‘ناک اور منہ سے خون بہتا دکھائی دیتا ہے‘ وہ دہائیاں دیتا ہے کوئی مجھے بچا لو‘میرا جبڑا ٹوٹ گیا ہے لیکن مارنے والے غنڈوں کی طرح ڈاکٹر کو گھسیٹتے ہوئے باہر لے جاتے ہیں اور تشدد کر کے ڈاکٹر کی ناک کی ہڈی تک توڑ دیتے ہیں۔ یقینا لواحقین کو ڈاکٹر سے شکایت ہو گی کہ ان کے مریض کا علاج ٹھیک سے نہیں کیا جا رہا۔ ہو سکتا ہے کہ ڈاکٹر نے کام کے دبائو اور تھکن کے اثرات کے باعث کچھ رُوکھا سا جواب بھی دیا ہو یا ہسپتال میں وہ مشین ہی خراب ہو جس سے مریض کا علاج ہونا تھا‘ لیکن جو بھی تھا ‘بلوائیوں کی طرح ڈاکٹر پر ٹوٹ پڑنا کسی طرح قابلِ قبول نہیں ہے۔
جس طرح کے حالات میں سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کو کام کرنا پڑتا ہے‘ جس طرح کے وسائل انہیں میسر ہوتے ہیں اور جتنے طویل ڈیوٹی اوقات ہوتے ہیں‘ اس کام کے لحاظ سے انہیں مونگ پھلی کے برابر بھی معاوضہ نہیں ملتا۔ یہی ڈاکٹر بیرونِ ملک جا کر اِتنے ہی کام کے دس گنا اور اس سے بھی زائد پیسے باعزت طریقے سے کما سکتے ہیں ‘وہاں انہیں تمام وسائل بھی میسر ہوتے ہیں‘ ہسپتالوں کی مشینری بھی خراب نہیں ہوتی‘ہاتھوں میں پہننے کے لیے دستانے اور ماسک بھی خود خرید کر نہیں لے جانے پڑتے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر مریض کی وفات ہو جاتی ہے تو اس کا سارا کنبہ کلہاڑے اور چھریاں لے کر ڈاکٹروں پر حملہ آور نہیں ہو جاتا۔یہ سب پاکستان میں ہی ہوتا ہے کیونکہ یہاں برداشت کو بے عزتی اور کمزوری خیال کیا جاتا ہے۔ ہر کوئی موقع پر فیصلہ کرنے کے لیے بے تاب ہے اور خود ہی پولیس‘ مدعی ‘قاضی اور جلاد بنا ہوا ہے۔جونیئر ڈاکٹرز کن حالات میں کام کر رہے ہیں‘ ان پر کتنا پریشرہے‘ کوئی بھی یہ سب دیکھنے یا سننے کو تیار نہیں۔ہر کوئی یہی چاہتا ہے کہ وہ اپنا مریض ہسپتال لے کر جائے اور ڈاکٹرز چند سیکنڈ میں اسے ٹھیک کر کے واپس بھیج دیں‘چاہے مریض کا آخری وقت آ چکا ہو لیکن ڈاکٹرکو ہر حال میں مریض کی جان بچانی ہے۔
دیکھا گیا ہے کہ ایسے نوے فیصد جھگڑے سرکاری ہسپتالوں میں ہوتے ہیں جس کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ سرکاری ہسپتال کم ہیں اور مریض زیادہ۔دوسری چیز ہے شعور کی کمی اور لاپروائی‘ جس کی وجہ سے بیماری ہونے کی شرح اور خدشات بڑھ جاتے ہیں اور لوگوں کے بلاوجہ بیمار ہو کر ہسپتال آنے سے رش بڑھتا ہے۔ یعنی ایک بندہ جان بوجھ کر سڑکوں سے اگر اُنہی آلودہ گلاسوں میں شربت پئے گا جن سے ہر کوئی پی کر جا رہا ہے اور جنہیں دھونے کے لیے ایک بالٹی میں پانی بھر کر رکھا ہوا ہے اور اسی میں ڈبو‘ ڈبو کر گلاس نکال کر اگلے شخص کو شربت بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے تو کیا اس سے پیٹ کے امراض ‘ یرقان اور ہیپاٹائٹس نہیں پھیلے گا؟ کیا اس سے جگر اور معدہ تباہ نہیں ہو گا؟ جن پر مکھیاں بھنبھنا رہی ہوتی ہیں‘ لوگ وہی نان ٹکی مزے لے لے کر کھاتے ہیں اور بعد میں یہ مزہ ہسپتال جا کر ڈاکٹروں پر تشدد کی صورت میں نکلتا ہے۔ دوسری جانب ہر سیاسی جماعت الیکشن میں صحت کا نظام ٹھیک کرنے کے دعوے کرتی ہے لیکن حکومت میں آنے کے بعد اسے ٹھیک کرنا تو درکنار ‘صحت کے بجٹ میں کٹوتی کر دی جاتی ہے‘ہسپتالوں میں انفراسٹرکچر بہتر نہیں کیا جاتا‘ ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل سٹاف کو ضروری اشیا فراہم نہیں کی جاتیں‘شہر کے بڑے ہسپتالوں میں سی ٹی سکین اور ایم آر آئی مشینیں کئی کئی ماہ خراب پڑی رہتی ہیں لیکن محکمہ صحت، متعلقہ وزیر یا ایم ایس کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ جس سے سوال کریں وہ بجٹ کی کمی کی شکایت کرنے لگتا ہے۔ لوگ ہسپتالوں میں آتے ہیں اور جب انہیں وہیل چیئر جیسی بنیادی چیز بھی نہیں ملتی تو ان کا میٹر گھومنا شروع ہو جاتا ہے۔ پرچی کاٹنے سے لے کر ڈاکٹر تک پہنچنے کے لیے طویل انتظار اور قطار کا مرحلہ درپیش ہوتا ہے۔ قطار اور انتظار کے مسائل تو ویسے جدید ممالک کے ہسپتالوں میں بھی ہیں اور وہاں بھی آپ کو سوائے ایمرجنسی کے کوئی فوری ٹریٹ نہیں کرے گا لیکن یہاں شدید گرمی‘ حبس‘ مناسب انتظار گاہ کا نہ ہونا‘ ایئرکنڈیشنر اور پنکھوں کی خرابی یا بجلی کی بندش معمول بن چکا ہے۔آنکھوں دیکھی بات ہے کہ لاہور کے جنرل ہسپتال میں آج سے تین سال قبل‘ جب ابھی کورونا بھی نہیں آیا تھا‘ اس کی ایمرجنسی میں مریضوں کی صورت حال ایسی تھی جیسے یہ لاہور کا نہیں بلکہ جنگ زدہ یوکرین کا ہسپتال ہو جہاں ایک کے بعد ایک مریض چلا آ رہا تھا اور ایسی صورت میں جب ایک ایک ڈاکٹر کو دن میں چار‘ پانچ سو مریض دیکھنے پڑیں گے تو لامحالہ مسائل پیدا ہوں گے۔
پنجاب میں صحت کی صورت حال پر نگران وزیراعلیٰ نے گزشتہ روز ایک خصوصی اجلاس بلایا اور ہسپتالوں کے نظام اور مسائل کو بہتر بنانے کے احکامات جاری کیے۔ ویسے ایک صحافی کے وزیراعلیٰ یا کسی حکومتی پوزیشن پر بیٹھنے کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سیاسی اور سماجی مسائل پر گہری نظر رکھتا ہے۔ اس کے ہاتھ سے ہر قسم کی خبریں ایڈیٹ ہو کر جاتی ہیں لیکن وہ ان پر چاہتے ہوئے بھی کوئی ایکشن نہیں لے سکتا کیونکہ اس کے پاس اختیار نہیں ہوتا۔ بعض خبریں اور مسائل تو گزشتہ دو تین عشروں سے بار بار سامنے آ رہے ہیں جیسا کہ ہسپتالوں کی صورتحال ۔ آخر اس میں کون سی راکٹ سائنس ہے جو آج تک کسی نے حل نہیں کی۔ نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کو موقع ملا ہے تو انہوں نے ہسپتالوں میں سہولتوں کے حوالے سے بہت سے ضروری احکامات جاری کیے ہیں جو ایک عرصہ سے حل طلب تھے‘ اگر ان پر عمل کر لیا جاتا ہے تو مریضوں اور ڈاکٹرز کے درمیان آئے روز کے جھگڑے بھی ختم ہو جائیں گے۔ غریب مریض علاج کے لیے سرکاری ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں‘ دوسری طرف ڈاکٹر مریضوں کی مسیحائی کے لیے آتے ہیں لیکن بڑے دُکھ کی بات ہے کہ ہسپتالوں کے انتظامی امور میں خرابی اور تساہل اکثر اوقات عوام اور ڈاکٹروں کو ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑا کر دیتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ ڈاکٹروں کو اپنا رویہ دھیما اور دوستانہ رکھنا چاہیے لیکن مریضوں کو پھر بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ بات بات پہ لڑنے مرنے کو تیار ہو جائیں ‘ ایسے بلوائیوں سے نمٹنے کے لیے ہسپتالوں میں سخت قوانین اور سکیورٹی موجود ہونی چاہیے لیکن کیوں نا ایسے امکانات کو جڑ سے ختم کر دیا جائے جس کی وجہ سے عوام اور ڈاکٹر ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوتے ہیں۔ جب لڑائی کی وجوہات ہی ختم ہوجائیں گی تو ایسے واقعات بھی ختم یا سرے سے کم ہو جائیں گے۔ڈاکٹروں کی تنخواہیں بہتر ہوں‘ ان پر بوجھ کم سے کم ہو‘ انہوں نے جن مشینوں سے‘ جن طبی آلات سے علاج کرنا ہے وہ انہیں مہیا ہوں تو وہ کیوں مریضوں کی تسلی نہیں کر پائیں گے ۔ ڈاکٹر چونکہ فرنٹ لائن پر ہوتے ہیں اس لیے قابو آ جاتے ہیں جبکہ سیاستدان اور انتظامیہ پیچھے رہنے کی وجہ سے ہمیشہ بچ جاتے ہیں۔ نگران حکومت نے جس طرح لاہور کے تعمیراتی منصوبوں کو تیزی سے مکمل کرانے میں دلچسپی لی ہے ‘اسی طرح اگر صحت عامہ کے مسائل حل میں بھی بڑی پیش رفت ہوتی ہے تو اس بے یقینی اور ٹینشن کی فضا میں ہسپتالوں آنے والے غریب مریضوں کو زبردست ریلیف میسر آجائے گا اور بدلے میں حکمرانوں کو لاکھوں افراد کی دعائیں مل جائیں گی۔